"FBC" (space) message & send to 7575

کھیل کا خاتمہ

جمعہ کی شام کے واقعات، جب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو گرفتار کیا گیا، نے اس سیاسی‘ عدالتی کہانی کو انجام تک پہنچا دیا‘ جو پچھلے دو سال سے، جب آئی سی آئی جے نے پانامہ پیپرز جاری کئے تھے، ہماری قومی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ شریف خاندان کی نا اہلی اور بالآخر سزا‘ ایک ایسی کہانی ہے جس کے بارے دو سال پہلے مہان سیاسی پنڈت بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔ 
2016ء کے موسم گرما میں کون سوچ سکتا تھا کہ نواز شریف جیسے طاقت ور اور دولت مند آدمی کی قسمت میں یک لخت ایسی گراوٹ بھی آ سکتی ہے، کہ اس کی تمام سیاسی قوت، افسرانہ مورچہ بندی اور عدالتی منصوبے بوقت ضرورت اس طرح دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ پاکستان میں اور بیرونِ ملک اربوں روپے کی جائیداد بھی انہیں محفوظ راہداری فراہم نہ کر سکی‘ بین الاقوامی دوست ان کی فون کالز کا جواب دینے سے اجتناب کرنے لگے‘ مولانا فضل الرحمن اور اچکزئی جیسے مقامی سیاسی اتحادی انہیں بچانے کے لیے نہیں نکلے‘ ملکی تاریخ میں تشکیل پانے والی بہترین وکلا کی ٹیم جس میں خواجہ حارث‘ مخدوم علی خان‘ سلمان اکرم راجہ‘ شاہد حامد‘ اکرم شیخ اور اشتر اوصاف جیسے چوٹی کے وکلا شامل تھے‘ کوئی قانونی حکمتِ عملی تشکیل نہ دے سکے جو انہیں گرفتاری سے بچا سکتی‘ نیز یہ کہ دانیال عزیز‘ طلال چودھری‘ محسن رانجھا اور اس قسم کے اور بہت سے موسمی سیاسی شکرے ایسے ہی تھے جیسے طوفان کے سامنے کوئی غبارہ۔ 
بے شک سیاسی لحاظ سے کسی کی وابستگی یا ہمدردیاں جس کے ساتھ بھی ہوں‘ نواز شریف اور مریم کی گرفتاری سبھی کے لیے عبرتناک مثال ہے۔ یہ اس ناقابل تردید حقیقت پر ہمارا یقین پختہ کرتی ہے کہ طاقت‘ پیسہ اور عوامی حمایت جیسی چیزیں‘ تقدیر کے نشانے سے بچا نہیں سکتیں۔ نیز یہ کہ انسانی تاریخ تکبّر کی شکست کی تفصیل ہے اور سیاسی پینترہ بازی اور اپنی دانست میں کمال کی حکمتیں بھی قسمت بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قدرت کے آگے بے چارہ ہیں۔
رواں واقعات کی بات کرتے ہیں۔ جس انداز میں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو گرفتار کیا گیا، یہ ہمارے سیاسی منظر نامے پر کئی بڑے سوال اٹھاتا ہے: کیا نواز شریف کی گرفتاری کا تعلق سول ملٹری عدم توازن سے ہے؟ یا اسے محض ایک سزا یافتہ کی گرفتاری کے طور پر لیا جانا چاہیے؟ کیا ہم سیاست میں موجود مجرم عناصر کو بھی سول ملٹری عدم توازن کی کہانی سے جوڑے بغیر نہیں دیکھ سکتے؟ کیا اس وقت تک تمام سیاسی رہنمائوں کو جرائم کی کھلی چھٹی دے دی جانی چاہیے جب تک کہ مشرف یا دوسرے فوجی مداخلت کاروں کو گرفتار نہیں کر لیا جاتا؟ 
سیاسی نقطہ نظر سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے: وہ بڑا سیاسی شو کہاں تھا جو توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ ن لاہور میں دکھائے گی؟ مریم کے وہ وفادار کہاں گئے جو کچھ ماہ پہلے تک پی آئی ڈی کی پریس کانفرنسوں کو رونق بخشا کرتے؟ فضل الرحمن اور اچکزئی جیسے اتحادی کہاں تھے؟ کیا انہوں نے نواز شریف کے حق میں کوئی بیان دیا؟ اور شہباز شریف کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا اس کی کوششیں یہ ظاہر کرتی تھیں کہ وہ نواز شریف کو پیچھے چھوڑنے پر تیار نہیں؟ مسلم لیگ ن کی قیادت ہی گھروں سے نہیں نکل سکی اور ایئر پورٹ نہیں پہنچ سکی، مسلم لیگ ن کے حامی نواز شریف کے ساتھ طیارے میں کیوں موجود نہیں تھے؟ وہ کیوں عرفان صدیقی کے ساتھ اکیلا سفر کر رہا تھا‘ جو مسلم لیگ ن میں کسی بھی دھڑے کی قیادت نہیں کرتا؟ اگر شاہد مسعود اور سمیع ابراہیم جیسے صحافی اس جہاز میں سیٹ حاصل کر سکتے تھے تو مسلم لیگ ن کے کرتا دھرتا کیوں نہیں؟
سول ملٹری عدم توازن کی بات کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی اختلاف نہیں کہ پاکستان کی تاریخ ایسے ہی عدم توازن سے عبارت ہے۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ آمروں کے خلاف ان کے جرائم پر مقدمات چلائے جانے چاہئیں، نیز یہ کہ فوج کو سیاست کا فعال حصہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سیاست دانوں کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کر سکتے، جب تک کہ ہم پہلے فوج آمروں کے خلاف مقدمات نہیں چلا لیتے؟ کیا یہ استثنیٰ کی دلیل تمام سیاستدانوں کے لیے ہے؟ نواز شریف کے مقدمے میں‘ کیا اسے فوجی عدالت سے سزا ملی؟ کیا سپریم کورٹ‘ جے آئی ٹی اور احتساب عدالت کے سامنے انہیں دفاع کے حق سے محروم کیا گیا؟ اگر عدالت عظمٰی نے انہیں نا اہل قرار دیا اور احتساب عدالت نے انہیں سزا دی تو کیا یہ سمجھیں کہ اس کے پیچھے فوج ہے؟ کیا یہ فرض کرنے کی کوئی گنجائش نہیں کہ سپریم کورٹ اور احتساب عدالت کے ججز کی دیانت دارانہ رائے تھی کہ نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جائے اور سزا دی جائے؟ کیا ہمیں قمر زمان چوہدری کی نیب اس لیے منظور ہے کہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کی بالا دستی پر یقین رکھتی تھی‘ جبکہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی نیب فوج کا مہرہ ہے؟ کیا اہم اس کے لیے دلائل دے رہے ہیں کہ نواز شریف کی سزا فوجی رنجش کا نتیجہ تھی‘ کیا اس کی آف شور جائیداد اور مالی لین دین پوری طرح جائز تھا؟ 
سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مابین زیادہ توازن چاہتے ہوئے‘ ہمیں یہ بھی ضرور ماننا پڑے گا کہ ہماری سیاسی جنتا میں ایسے عناصر شامل ہیں جن پر مقدمے چلانے کی ضرورت ہے‘ جنہیں بہر صورت قانون کے حضور پیش کیا جانا چاہیے۔ ایسی جمہوریت جہاں آرمی چیف کو فاصلے پر رکھا جائے اور وزیر اعظم کو قومی خزانہ لوٹنے کا استثنیٰ حاصل ہو، کا تصور بیوقوفی ہو گی۔
کچھ سیاسی محاذ کے لیے: اپنے لیڈر کی حمایت میں بیٹھے مسلم لیگ ن کے حامیوں پر پابندی لگا کر پنجاب میں ڈاکٹر حسن عسکری کی عبوری حکومت نے کوئی خدمت نہیں کی۔ یہ اسی قسم کی سیاسی طاقت کا اظہار ہے جس کے لیے ڈاکٹر عسکری اور دوسرے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں اور طاہر القادری کے لانگ مارچ کے وقت مسلم لیگ ن کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ اگر ڈاکٹر عسکری ان واقعات کو اس وقت غلط تصور کرتے تھے تو اپنی حکومت میں وہ ان کا حکم کیونکر دے سکتے ہیں؟ 
لیکن یہ اس وجہ کا صرف ایک حصہ ہے کہ ڈاکٹر عسکری کو کیوں مسلم لیگ ن کے حامیوں کے احتجاج پر پابندی عائد نہیں کرنی چاہیے تھی۔ زیادہ ضروری یہ ہے کہ عبوری حکومت کو چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو پوری طرح نمایاں ہونے کا موقع فراہم کرتی۔ جیسا کہ اب ظاہر ہو چکا ہے کہ زیادہ تر قیادت اس جماعت کی ایئر پورٹ پر جمع ہونے کے لیے سنجیدہ نہ تھی۔ وہ زیادہ تر اسی حد تک رہنا چاہتے تھے کہ لا یعنی باتیں کرتے رہیں۔ یہ وقت تھا کہ ان کے چکمے میں نہ آیا جاتا، مگر ڈاکٹر عسکری نے یہ موقع ضائع کر دیا۔
اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور مریم نواز کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ پچھلے سال بھر کے واقعات زیر غور لاتے ہوئے انہیں خیال کرنا چاہیے کہ نواز شریف طیب اردوان نہیں اور نہ ہی لوگ ان کے لیے ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کے لیے تیار ہیں اور کسی طرح کی عوامی چیخ و پکار ہمارے ملک کی بنیاد تبدیل نہیں کر سکتی۔ نیز یہ کہ ان کے اپنے بھائی اور مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر شہباز شریف نے بھی ان کے لیے ایک معمولی پریس کانفرنس سے بڑھ کر کسی طرح کا احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا۔ حقیقت کا ٹھیک ٹھیک ادراک اور درپیش حقائق کا متوازن جائزہ نواز شریف اور مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرنے سے وہ ہمارے سیاسی منظر نامے میں باقی رہنے کا کوئی راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں