"FBC" (space) message & send to 7575

اپنے دشمن کا نام بھی نہ لے سکے!

رواں ہفتے جمعہ کے روز ایک بار پھر دہشت گردی نے اپنے خونیں پنجے پاک سرزمین پر گاڑ دیئے۔ بیک وقت دو حملے ہوئے۔ ایک خیبر پختون خوا میں اور دوسرا کراچی میں (ابھی تک یہ اتفاق رائے نہیں ہو سکا کہ آیا دونوں حملوں کے پیچھے ایک ہی سپانسر ہے) اس وحشیانہ کارروائی میں 37 سے زائد پاکستانی شہری جاں بحق ہو گئے۔
ایک واقعے میں اورکزئی ایجنسی کے قصبے کلایا میں بم دھماکا ہوا جس سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا اور 33 معصوم شہری شہید ہو گئے۔ گزشتہ بم دھماکوں کی طرح اس دہشت گردی میں بھی دیسی ساخت کا بارودی مواد استعمال کیا گیا‘ اور اس کے لئے ایک مصروف مارکیٹ کا انتخاب کیا گیا۔ کسی بین الاقوامی ہدف کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔تاہم دوسرے حملے سے‘ جو کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر کیا گیا تھا‘ اور جسے پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے ناکام بنا دیا ہے‘ انتہائی مکروہ عزائم اور منصوبہ بندی کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ کوئی دیسی ساخت کا بم نہیں تھا جسے کسی نامعلوم جگہ چھپا دیا گیا ہو۔ یہ کوئی خود کش حملہ آور بھی نہیں تھا جس نے کسی ہجوم میں گھس کر خود کو اڑا لیا ہو۔
یہ تین گن مین تھے جو رائفلوں سے مسلح تھے اور مبینہ طور پر انہوں نے خود کش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں۔ وہ چین کے قونصل خانے میں گھس کر اندر موجود غیر ملکی شہریوں کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ پاکستان میں ہونے والی یہ ساری کارروائی مارچ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے سے مشابہت رکھتی ہے۔ سری لنکن ٹیم پر حملے کے پس پردہ محرکات کی طرح چینی قونصلیٹ پر حملے کا مقصد بھی عالمی برادری میں پاکستانی ساکھ کو مجروح کرنا اور چین کے ساتھ پاکستان کے گہرے تعلقات کو سنگین نقصان پہنچانا تھا جن کا اظہار سی پیک کے جاری منصوبوں سے بخوبی ہوتا ہے۔
یہ جاننے کے لئے کہ اس حملے کا مقصد کیا تھا اور اس احمقانہ اور پُر تشدد کارروائی کے پیچھے کون سے عناصر کار فرما ہو سکتے ہیں‘ ہم سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اس حملے کو ناکام نہ بنایا ہوتا تو اس سے سب سے زیادہ فائدہ کسے ہوتا؟ اگرچہ ایک کالعدم عسکری تنظیم ''بلوچستان لبریشن آرمی‘‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے‘ مگر اس کے بیان سے یہ گتھی سلجھتی نظر نہیں آتی۔ وہ تو محض ایک آلہ کار ہے جسے اس حملے کے لئے استعمال کیا گیا۔ مگر کیا وہ اس حملے کی منصوبہ ساز اور سپانسرز بھی ہے؟
دوسرے لفظوں میں کراچی کے چینی قونصلیٹ پر حملہ کر کے بلوچستان کی آزادی کی منزل کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟ کیا بلوچستان میں چین کی فوج موجود ہے؟ کیا چین بلوچوں کے حقوق کچلنے میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے؟ کیا ان دونوں کے مابین ماضی میں کبھی کوئی تنازع رہا ہے؟ کیا (بی ایل اے کے دعوے کے مطابق) چینیوں کے بلوچستان چھوڑنے سے وہ آزاد ہو جائے گا؟ ان تمام ممکنہ سوالوں کا ایک ہی جواب نظر آتا ہے کہ ہرگز نہیں۔
کیا کسی دوسری مقامی عسکری تنظیم کو چینی قونصلیٹ پر حملہ کرنے میں کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے؟ کیا چینی قونصل خانے پر حملہ کرنے سے کسی کے فرقہ وارانہ مقاصد پورے ہو سکتے تھے؟ بالکل نہیں۔ ان تنظیموں کو لے لیں جو بظاہر پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے جہاد کے نام پر برسر پیکار ہیں۔ کیا تحریک طالبان پاکستان یا جماعت الاحرار جیسی تنظیموں کو چینی شہریوں سے کوئی شکوہ تھا؟ کیا چینی شہری پاکستان میں شریعت کے قوانین کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ بن رہے ہیں؟ یقینا نہیں۔ کیا تحریک لبیک جیسی تنظیمیں (جنہیں دہشت گرد تنظیم سمجھا ہی نہیں جاتا) اس طرح کے واقعے میں ملوث ہو سکتی ہیں؟ کیا چینیوں نے کوئی قابل اعتراض کارٹون شائع کئے ہیں؟ کیا چینی کبھی توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں؟ بلا شبہ نہیں۔ چلیں آگے بڑھتے ہیں، کیا چینی عوام فلسطینیوں کو کچلنے میں اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں؟ نہیں۔ کیا وہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع میں کسی بھی فریق کو فوجی امداد یا حمایت مہیا کر رہے ہیں؟ نہیں۔
تو پھر پاکستان کی کسی مقامی عسکری تنظیم کے لئے کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کرنے کے پس پردہ کیا محرکات ہو سکتے ہیں؟ اس مسئلے کی جتنی مرضی چھان پھٹک کر لیں اس کا جواب یہی ہو گا کہ چینیوں نے کبھی کوئی ایسا کام کیا ہے‘ نہ اس کے بارے میں سوچا ہے جس سے پاکستان کے عسکریت پسند حلقوں کو کوئی تکلیف پہنچی ہو۔ان حالات میں وہ کون ہو سکتا ہے جس کے مقاصد، عزائم اور وسائل پاکستان میں مقیم چینی شہریوں کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں؟ اس سے بھی آگے چلیں‘ چین اور پاکستان کے تعلقات میں کون خلیج حائل کر سکتا ہے خصوصاً جب اس کا تعلق چین کی پاکستان میں دیرپا اور روز افزوں موجودگی سے بنتا ہو؟
اس کا جواب اچھا لگے یا برا‘ بالکل واضح ہے کہ بھارت۔ اور افغانستان کی این ڈی ایس جو بڑھ چڑھ کر بھارتی زبان بول رہی ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے ہمارا یہ خیال اور بھی تقویت پکڑتا ہے کہ چینی قونصلیٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ بی ایل اے کے لیڈر اسلم عرف اچھو کے علاوہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا‘ جو اس وقت ایک بھارتی ہسپتال میں رہ کر اپنا علاج کروا رہا ہے۔ 
اس سے سوالات کا ایک نیا سلسلہ جنم لیتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے شعلے بھڑکانے میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود ہم عالمی سطح پر اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکے؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ممبئی حملوں کے فوراً بعد پاکستان کے خلاف تو ہرزہ سرائی کا ایک بڑا محاذ کھل گیا (حالانکہ ابھی پاکستان کے خلاف ان حملوں میں ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ملا تھا) مگر کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی پھیلانے کا کل بھوشن یادیو کا مصدقہ اعتراف بھی اس سلسلے میں بھارت کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ ایسا کیوں ہے کہ اجمل قصاب کا نام تو دہشت گردی کا عالمی استعارہ بن گیا مگر اسلم عرف اچھو کے نام سے کوئی بھی واقف نہیں ہے۔
اس طرح کے سوالات کا جواب بڑا سادہ ہے۔ وہ یہ کہ گزشتہ پندرہ سال کے عرصے میں ہمارے ہاں متواتر ایسی حکومتیں رہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکانے میں بھارت کے ملوث ہونے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں انتہائی غیر موثر ثابت ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سارے شور شرابے کے باوجود ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف کل بھوشن یادیو کا نام لینے سے بوجوہ گریزاں رہے۔ اپنے ذاتی اقتدار کے دوبارہ حصول کے لئے بین الاقوامی لابنگ فرموں کی خدمات مستعار لینے کے باوجود نواز شریف یا ان کی حکومت کو کبھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ پاکستان کے مقدمے کے لئے کسی لابنگ فرم کی خدمات ہی حاصل کر سکتے۔
ہم عالمی عدالت میں بھارت کے خلاف پاکستان میں دہشت گردی سپانسر کرنے کا مقدمہ چلانے کے لئے مقررہ وقت کے اندر اپنا جج نامزد نہ کر سکے۔ محمود خان اچکزئی جیسے لوگ‘ جو پاکستان سے زیادہ این ڈی ایس کی زبان بولتے ہیں‘ سابق حکومت کے نظریاتی اتحادی رہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نواز شریف نے سرل المیڈا کے ساتھ اپنے بدنام زمانہ انٹرویو میں بھارتی موقف کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردی سپانسر کرنے کا الزام عائد کر دیا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ وہ سی پیک کا مخالف ہے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ وسعت پذیر تعلقات سے وہ سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے۔ کراچی اور بلوچستان میں عدم استحکام سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوتا ہے۔ جوہری صلاحیت کے حامل پاکستان کو ایک بدمعاش ریاست Rogue State بنا کر پیش کرنے سے اس کا اپنا مفاد وابستہ ہے۔
مگر دو متحارب ریاستوں کے درمیان تو یہ سب کچھ کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔ ہمارا حقیقی گلہ اپنے دشمن بھارت سے نہیں ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کی‘ بلکہ ہمارا اصل گلہ ان حکومتوں اور رہنمائوں سے ہے جو دنیا کے سامنے اپنے حقیقی دشمن کا نام لینے کی جرأت بھی نہ کر سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں