اس ہفتے عدالتِ عظمیٰ نے (آصف علی زرداری اور ان کے حواریوں کی مبینہ منی لانڈرنگ سے متعلق)جے آئی ٹی رپورٹ مزید تحقیقات اور بوقت ضرورت ریفرنس فائل کرنے کی ہدایت کے ساتھ نیب کو بھجوا دی ہے۔ساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ نے بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کابینہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ قانون کے مطابق اس کا جائزہ لے۔
اگرچہ عدالتِ عظمیٰ کا تحریری فیصلہ ابھی تک نہیں آیا‘ مگر آصف علی زرداری کے حامی اسے اپنے لیڈر اور ان کے کاروباری ساتھیوں کی فتح سے تعبیر کررہے ہیں۔بظاہر ان کے اس جشنِ طرب کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ آصف علی زرداری کو نہ تو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ نے انہیں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔درحقیقت آصف علی زرداری کے حامیوں کو امید ہے کہ ان کا لیڈر نیب کے طویل تحقیقاتی عمل سے سرخرو ہو گااور اس کا نام کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات صاف ہو جائیں گے۔دوسری جانب وہ لوگ ہیں‘ جن کے خیال میں یہ جشنِ طرب قبل از وقت ہے ۔ان کا مؤقف ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے ساتھ نیب کی تحقیقات آصف علی زرداری کو مجرم ثابت کرکے ان کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں گی۔یہ جاننے کے لئے کہ کیا آصف علی زرداری اور ان کے حواریوں کے پاس اس جشنِ طرب کا کوئی جواز موجود ہے‘واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق کہانی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ نواز شریف حکومت کے دورمیں ایف آئی اے کراچی کے اینٹی کرپشن سرکل نے سورس رپورٹ کی بنیاد پر 06.10.2015کو انکوائری نمبر70/2015کا آغاز کیا‘ جس کے مطابق مبینہ طور پر سمّٹ بینک کی دو برانچوں کے چار جعلی اکائونٹس میں ایسی انٹر بینک اور انٹرا بینک ٹرانزیکشنز کی گئیں جو بظاہر اکائونٹس ہولڈرز کی ظاہری حالت سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس انکوائری کا حکم وزیراعظم نواز شریف کے دور ِحکومت میںان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دیا تھا۔
07.12.17کو ایف آئی اے کو 29مشتبہ اکائونٹس پر مشتمل ایک STRرپور ٹ موصول ہوئی جو سمّٹ بینک کے سولہ ‘سندھ بینک کے آٹھ اور یو بی ایل کے پانچ اکائونٹس سے متعلق تھی۔مبینہ طور پر ان بینک اکائونٹس کے ذریعے پینتیس ارب روپے کا لین دین ہوا‘ جسے منی لانڈرنگ کے لئے استعمال کیا گیا۔26.01.18کو ایف آئی اے نے ایک اور انکوائری شروع کی‘ جس میں یہ انکشاف ہوا کہ ان اکائونٹس کے ذریعے اومنی گروپ ‘زرداری گروپ ‘پارتھینن پرائیویٹ لمیٹڈ ‘عارف حبیب اور بہت سے ان کنٹریکٹرز اور بلڈرز نے ٹرانزیکشن کی تھیں‘ جنہوں نے سندھ کے کئی پراجیکٹس پر کام کیا تھا۔اسی تحقیقات کے دوران 29.06.2018کو انسانی حقوق کی ایک درخواست کے ذریعے یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے علم میں آیا؛چنانچہ عدالت ِعظمیٰ نے اس معاملے کی ایک جامع اور حتمی تحقیقات کے لئے اپنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ‘تاکہ ان جعلی اکائونٹس کی حقیقت ‘ان میں ملوث افراد کے نام اور ان سے متعلقہ تمام مواد اور شہادتیں جمع ہوجائیں‘ جن سے یقین ہو جائے کہ جرم کا ارتکاب ہوا ہے اور پھر متعلقہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔
اپنے وسیع تر ٹرمز آف ریفرنس کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جے آئی ٹی نے 885افرادکو سمّن جاری کئے اور 924افراد اور کمپنیوں کے 11500بینک اکائونٹس کے ہمراہ 767افراد کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ۔جے آئی ٹی کی تفتیش سے یہ پتہ چلا کہ پہلا جعلی اکائونٹ جنوری 2010ء میں کھولا گیا تھا اور اگلے چند برسوں میں اومنی گروپ نے گیارہ جعلی کمپنیوں کے اکائونٹس کھولے جن کا کوئی کاروبار تھا‘ نہ کوئی اثاثے تھے‘ مگر ان کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔ان میں سے تین کمپنیاں اومنی گروپ کے ملازمین کے نام پر کھولی گئیں‘جن میں آفس بوائے ‘گھریلو خاتون ‘ کمپیوٹر ٹیکنیشین ‘فالودے والا اورکشے والا بھی شامل تھے۔ایک سینٹری ورکر تھا‘ جو 2014ء میں انتقال کر چکا تھا‘ کے نام پر بھی اکاؤنٹ موجود تھا۔اہم بات یہ ہے کہ یہ سارے جعلی اکائونٹس اومنی گروپ کا چیف فنانشل آفیسر اسلم مسعود(مفرور) اور اکائونٹینٹ عارف خان چلا رہے تھے‘جن میں 42.30ارب روپے کا لین دین ہوا تھا ۔اہم بات یہ ہے کہ دوبرانچ منیجرز کی شہادت کے مطابق یہ کااکائونٹس کسی تصدیق کے بغیر سمّٹ بینک کے صدر کی ہدایات پر (بحوالہ حسین لوائی)کھولے گئے تھے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ؛ان اکائونٹس کی رقوم کو نواب شاہ میں ''Z House‘‘کی تعمیر کے لئے استعمال کیا گیا ۔کھوسکی شوگر مل کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہو اکہ اومنی گروپ کے اکائونٹس سے اربوں روپے کی ادائیگی فریال تالپور اور ''بڑے صاحب‘‘کو کی گئیں‘جن کوآگے مزید ذیلی کھاتوں ZH,BH‘یعنی زرداری ہائوس‘بلاول ہائوس اور ابوبکر فارمز میں تقسیم کیا گیا۔
اس صورتحال میں جب ایک طرف قابلِ مذمت الزامات کا یہ سلسلہ ہے تو دوسری طرف جب بینک ٹرانزیکشنز کو دیکھیں تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آصف زرداری کے حامی کیس نیب کو ریفر ہونے پر جشن کس بات کا منا رہے ہیں؟اگر دونوں فیصلوں کا تقابلی جائزہ لیں تویہ فیصلہ بھی 20اپریل 2017ء کے عدالت عظمیٰ کے پانامہ کیس فیصلے سے مشابہت رکھتا ہے ۔اگر ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو نون لیگ کے حامیوں نے بھی بلا جواز فتح کا جشن منایا تھا اور انہیں بعد میں احساس ہوا کہ نواز شریف فیملی تو ایک گہرے گڑھے میں گر چکی ہے ‘جس کے نتیجے میں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہو گئی تھی۔
آصف علی زرداری کو عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے سے ملنے والے ریلیف کانواز شریف کیس کے فیصلے کے ساتھ تقابلی جائزہ لینا درست نہیں ہوگا۔پانامہ کیس کے فیصلے میں بھی عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کی گرفتاری کا حکم نہیں دیا تھا‘جس طرح موجودہ کیس میں آصف علی زرداری کو گرفتار نہیں کیاگیا۔نواز شریف کو نیب کی ٹرائل کورٹ سے سزا ملنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا‘آصف علی زرداری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔دونوں مقدمات میں فرق یہ ہے کہ پانامہ کیس میں آئین کے آرٹیکل 62(1)(f)کے تحت نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی‘ کیونکہ انہوں نے اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کو اپنی ملکیت تسلیم کر لیا تھا‘تاہم آصف علی زرداری کے کیس میں دو فرق موجود ہیں۔ (1)آصف زرداری کو نااہل قرار دینے کی کوئی درخواست موجود نہیں ہے ‘لہٰذا اس سلسلے میں کوئی حکم جاری نہیںہوا۔(2)آصف زرداری نے جے آئی ٹی کے بیان کردہ بے نامی اثاثہ جات کی ملکیت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اس سوال کا فیصلہ توصرف ٹرائل کورٹ میں قانونی کارروائی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ہمارے نظامِ سیاست میں یہ خرابی رہی ہے کہ ہم قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر غلط نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔سنجیدہ حلقوںکو وقتی خوشی کی خاطر اس طرح کے بے سود ہتھکنڈے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور اس طرح کے بلاجواز جشنِ طرب سے پیدا ہونے والے سنگین مسائل سے بھی باخبر رہنا چاہئے۔