"FBC" (space) message & send to 7575

جھوٹے تصورات کا خاتمہ

ہفتے کو پوری شان و شوکت اور نئے جوش و جذبے سے یوم پاکستان پریڈ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پریڈ ایک ایسے موقعہ پر ہوئی جب بھارت کے ساتھ پاکستان کی زبردست عسکری کشیدگی چل رہی ہے اور بھارتی فضائیہ کے ساتھ جھڑپوں میں اس (بھارت) کے دو لڑاکا طیارے مار گرائے گئے تھے۔ اس سال یوم پاکستان پریڈ کا واضح مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان ایک پُرامن علاقائی قوت ہے‘ جسے اس کے دشمن نہ روند سکتے ہیں اور نہ داخلی اور خارجی دشمن اپنے زہریلے بیانیے کی مدد سے اسے دنیا سے الگ تھگ کر سکتے ہیں۔ 
اس دعوے کے اعادے کے ساتھ اس پریڈ کو منعقد کیا گیا تھا جس میں ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتر محمد، آذربائیجان کے وزیر دفاع اور بحرین کی مسلح افواج کے سربراہ کے علاوہ دیگر کئی غیر ملکی مہمانوں نے بھی شرکت کی۔ اس پریڈ میں نہ صرف پاکستان کی عسکری قوت کا مظاہرہ کیا گیا بلکہ آذربائیجان، چین، سعودی عرب، ترکی، بحرین اور سری لنکا کے فوجی دستوں نے بھی حصہ لیا۔
بظاہر یہ ایک خالص رسمی تقریب تھی مگر اس کا پس پردہ پیغام یہ تھا کہ پاکستان کئی عشروں کی تاریکی اور تنہائی سے باہر نکل آیا ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ میرے اس استدلال سے اختلاف کریں گے۔ (ماضی کی جانبدارانہ تقسیم کی بدولت) ایسے بھی لوگ ہیں جن کے خیال میں وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں گورننس کا معاملہ زیادہ گمبھیر ہو گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کئی کالعدم تنظیموں کو آج بھی ریاستی اداروں کا تحفظ حاصل ہے۔ نیز یہ کہ احتسابی قوانین کو اپوزیشن رہنمائوں کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ احتساب کا عمل محض دکھاوا ہے اور پی ٹی آئی حکومت کے پاس ملک کی زبوں حالی کا شکار معیشت میں بہتری لانے کے لئے کوئی حل موجود نہیں ہے۔
اس تنقید میں ایک حد تک حقیقت بھی ہے اور یقینا پی ٹی آئی حکومت کو چاہئے کہ معیشت کی بحالی کے میدان میں اپنی کار کردگی میں بہتری لائے۔ تنقید اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ پاکستان تبدیل ہو رہا ہے۔ آج کے جس پاکستان میں ہم جی رہے ہیں وہ ماضی کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ کلچرل، لیگل، سیاسی اور مذہبی سٹیٹس کو کی فورسز ہر آنے والے دن تبدیلی کی علمبردار آوازوں کے سامنے سرنگوں ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اب ان آوازوں کو قانونی اور سیاسی طاقت کے ہتھیاروں سے خاموش کرانا ممکن نہیں رہا۔
اس وقت جب ہم یوم پاکستان کے حوالے سے خوشی منا رہے ہیں ایک لمحے کے لئے توقف کریں اور یہ تسلیم کریں کہ پاکستان میں گورننس، اختیارات اور سیاسی جواز‘ اور گارنٹی کے بارے میں دیرینہ تصورات اب دم توڑ رہے ہیں۔
اول: ناگزیر سیاسی اجارہ داری ختم کر دی گئی ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن سے لے کر لاہور میں جاتی امرا کے دروازوں تک اور اب اومنی گروپ سے شروع ہو کر کراچی کے بلاول ہائوس تک پچھلے چند برسوں میں کئی سیاسی بتوںکو زمین پر گر کر پاش پاش ہوتے دیکھا گیا ہے۔ طاقت کا کوئی بھی نام نہاد دعویدار انہیںدوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کر سکا۔
یہ کہا جاتا تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی طاقت ان کا قلع قمع نہیں کر سکتی۔ یہ کہ کراچی کی نبض الطاف حسین کی مٹھی میں ہے اور اگر کبھی ان کو چیلنج کیا گیا تو بیروت کی طرح کراچی کی گلیاں بھی انسانی لہو سے تر ہو جائیں گی۔ اور آخر میں کراچی کے سیاسی منظرنامے سے الطاف حسین کا نام مٹانے میں چند گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگا۔ اسی طرح پورے پانامہ کیس کے دوران یہ کہا جاتا تھا کہ نواز شریف کی ملکی سیاست پر گرفت اور عالمی پارٹنرز کے ساتھ اس کا اتحاد اس قدر مضبوط ہے کہ اسے جیل میں ڈالنا ممکن نہیں ہوگا۔ کبھی یہ کہا جاتا کہ کوئی نہ کوئی ڈیل ضرور ہو جائے گی۔ وہ ان مقدمات سے بری ہو جائیں گے یا کم از کم باقی زندگی قطر یا سعودی عرب میں بسر کرنے کیلئے انہیں بیرون ملک روانہ کر دیا جائے گا۔ نیز یہ کہ ریاست جھک جائے گی۔ مگر یہ بھی نہ ہوا، نواز شریف اور پاکستانی سیاست میں اس کے ناگزیر ہونے کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہو گیا۔
جب احتسابی عمل کا رخ سندھ کی جانب مڑا تو یہ دعویٰ کیا گیا کہ ریاست ایک وقت میں اپنے کئی دشمنوں کے ساتھ برسر پیکار نہیں ہو سکتی۔ ایسا کوئی بھی اقدام فوراً پی پی پی اور مسلم لیگ نون کو متحد کر دے گا۔ سندھ کارڈ کھیلا جائے گا اور ریاست اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائے گی۔ ہمیں آصف علی زرداری خود بتا چکے تھے کہ احتسابی ادارے کے چیئرمین کی کیا مجال کہ مجھ پر مقدمہ چلائے۔ اور ایسے کسی اقدام کا نتیجہ ''اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ جیسے ردعمل کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اب زرداری کے خلاف کارروائی شروع ہوئے اتنا وقت گزرنے کے باوجود ایک پتا بھی نہیں ہلا۔
یہ حقیقت تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ ملا کی ہماری سڑکوں پر اور ہمارے اپنے خلاف طاقت کا بھانڈا بھی پچھلے کچھ برسوں میں پھوٹ چکا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں جاری یہ خون آشام سفر بھی اب نتائج دینا شروع ہو گیا ہے۔ وہ دن بھی تھے جب دہشت گردی کے واقعات ہماری روزمرہ زندگی کے مکالمے کا حصہ تھے مگر اب یہ سلسلہ تھم چکا ہے۔ مختلف تنظیمیں جو اللہ کے نام پر خون کی ندیاں بہا رہی تھیں‘ اب ان کا مکمل قلع قمع کر دیا گیا ہے۔ کوئٹہ اور کراچی میں فرقہ وارانہ تشدد پر بھی قابو پا لیا گیا ہے۔ اور اب ان کے بہی خواہوں کے لئے بھی ہمارے معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں رہی‘ حتیٰ کہ تمام بڑی مذہبی‘ سیاسی جماعتوں کو گزشتہ الیکشن اور سیاسی میدان میں یکسر مسترد کر دیا گیا۔ حال ہی میں جب ایک تنظیم نے احتجاج کی آڑ میں تشدد کرنے کی کوشش کی تو سرکاری اداروں نے انہیں فوری طور پر آڑے ہاتھوں لیا‘ اور کسی کی جانب سے کوئی رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
اس سلسلے میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت (اور فوج) نے کالعدم تنظیموں کے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کے نئے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ان کی طاقت کا جو ہوّا ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں نظر آتا تھا‘ اب بہت حد تک ماند پڑ چکا ہے۔ اب یہ بت بھی پاش پاش ہو چکا ہے کہ مذہبی جماعتیں ریاست کو یرغمال بنا سکتی ہیں۔
پاکستان اور اس کی سیاسی حکومت کے بارے میں جو یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ بین الاقوامی فورسز (امریکہ) کی محتاج ہے‘ مکمل طور پر غائب ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان عالمی فورسز کے چہیتے نہیں تھے۔ یقینا وہ نواز شریف یا ان جیسے افراد سے یکسر مختلف ہیں‘ جن کے ہمارے اتحادیوں کے ساتھ دیرینہ ذاتی اور کاروباری تعلقات استوار تھے۔ پھر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ وزاعظم عمران خان حکومت کو عالمی اور سفارتی حمایت حاصل ہے۔ کیوں؟ کیونکہ غیر ملکی فورسز سے سندِ جواز اور ضمانت لینے کا زمانہ لد چکا ہے۔
گو کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی اتنی قابل رشک نہیں ہے‘ مگر یہ Made in Pakistan حکومت ضرور ہے۔ یہ کسی این آر او یا کسی کنڈولیزا رائس کی گارنٹی کی پیداوار نہیں ہے‘ لہٰذا یہ تصور کہ پاکستان میں حکومت سازی کے لئے عالمی طاقتوں کی آشیرباد یا کسی شاہی خاندان کے ساتھ کاروباری تعلقات ہونا ضروری ہیں‘ اب مکمل طور پر دم توڑ چکا ہے۔ ان تمام تر آزمائشوں اور ہنگاموں‘ اور ملکی فورسز کی تمام تر سیاسی رسہ کشی کے باوجود اب نئے پاکستان کی قسمت کے فیصلے یہیں پر ہوں گے۔
ان تمام تصوراتی بتوں کے پاش پاش ہونے سے ہی ہمیں 23 مارچ کو ایک نئے جوش اور ولولے سے منانے کا جواز مہیا ہوا ہے۔ آج کے بعد ہماری خطائیں بھی اور ہمارے کارنامے بھی ہمارے اپنے ہوں گے۔ اگر ہم مسلسل ترقی کے سفر پر روانہ ہو گئے تو ہم خود کو شاباش دینے میں حق بجانب ہوں گے اور اگر ہم نے ماضی کی سنگین غلطیاں بار بار دہرانے کا سلسلہ جاری رکھا تو کسی اور کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ لہٰذا آئیں ہم اپنے سفر کا آغاز اس دیرینہ دعا کے ساتھ کریں‘ جس کی بازگشت اس سر زمین کی لاکھوں زبانوں پر سنائی دے رہی ہے‘ اور وہ دعا ہے... پاکستان زندہ باد! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں