"FBC" (space) message & send to 7575

انسدادِ دہشت گردی

گزشتہ ہفتے داتا دربار لاہور کے قریب خود کش حملے کے نتیجے میں بارہ افراد شہید اور چوبیس شدید زخمی ہو گئے۔ یہ علاقہ شاید لاہور کا سب سے گنجان آباد علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حملہ جو داتا دربار میں داخلے کی نگرانی پر مامور پولیس اہلکاروں پر کیا گیا‘ دراصل پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں پر آخری وار ہے۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں ان عناصر کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا‘ جو پاکستان میں ریاست مخالف یا پُر تشدد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
اس حملے کے بعد لاہور سیف سٹی پروجیکٹ کے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ممکنہ مجرموں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ثبوت اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے سانحے کی تفتیش کے لئے ایک جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے جس میں پولیس، سی ٹی ڈی، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے شامل ہیں۔ وزارت داخلہ نے مزید گیارہ تنظیموں پر پابندی کا اعلان کر دیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل درآمد کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہائی لیول میٹنگز ہوئی ہیں اور اس معاملے میں مکمل ہم آہنگی پائی گئی اس ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد کیا جائے گا۔
یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ دہشت گردی کا معاملہ خاصا پیچیدہ صورت اختیار کر چکا ہے۔ دہشت گردی کئی منہ والا ایسا اژدھا ہے جسے تلوار کے ایک وار سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس عفریت کے خاتمے کے لئے پیہم کوششیں کرنا ہوں گی‘ جو کی بھی جا رہی ہیں۔ تین عشروں سے جاری دہشت گردی کی اس لعنت کے بارے میں ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ کس حد تک ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ ہم نے مختلف ناموں اور تنظیموں کی آڑ میں چھپے ان دہشت گردوں کا نام لینے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔
پاکستان میں اب تک جتنی دہشت گردی ہوئی ہے‘ اس کو پانچ کیٹیگریز (درجہ بندی) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول: ریاست پاکستان کے خلاف مذہبی اور نظریاتی دہشت گردی (جیسے تحریک طالبان اور القاعدہ) دوم : فرقہ واریت پر مبنی دہشت گردی ‘ سوم : فرقہ واریت، صوبائیت پر مبنی جنگ (ایم کیو ایم اور بلوچ لبریشن آرمی کے عسکری ونگ) چہارم : سرحد پار عسکری تنظیمیں‘ پنجم: مذہبی‘ سماجی اور نظریاتی عدم برداشت کے پیروکار عناصر ( نفرت پھیلانے والے ادارے‘ تنظیمیں اور عناصر)
کوئی بھی جامع قومی انسداد دہشت گردی حکمت عملی وضع کرتے وقت ہمیں ان تمام کیٹیگریز (درجہ بندی) کے خلاف ریاستی اور سماجی اقدام کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ ریاستی پالیسیوں کی دوغلے پن کی طویل اور دھندلی تاریخ (مثلاً تزویراتی گہرائی کا ڈاکٹرائن ) اور آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد جس طرح کا سیاسی عزم دیکھنے میں آیا اس کو پیش نظر رکھیں تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب سیاسی عزم اور فوجی آپریشنوں کی طاقت اور عزم میں ہم آہنگی پیدا ہو گئی ہے؛ چنانچہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ لگ رہا تھا کہ ہمارے سماج سے دہشت گردی جیسے کینسر کے خاتمے کے لئے ایک مؤثر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
جہاں اس نیشنل ایکشن پلان کے بعض اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں (فوجی ایکشن سے متعلق) وہاں ہماری سیاسی قیادت عسکری تنظیموں کے خلاف ویسا اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے‘ جو حالات و واقعات کا تقاضا تھی۔ ہمارے نظام عدل میں پائی جانے والی قانونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر دہشت گردی کے ملزموں کے بچ نکلنے سے حالات اور بھی سنگین ہو گئے ہیں۔
اس حوالے سے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں بہتری، پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ 2014ء کے اجراء اور پھر اکیسویں ترمیم (اس کے ساتھ آرمی ایکٹ 1952ء میں ترمیم) لا کر قانون ساز اداروں نے عسکری تنظیموں کے ارکان کو گرفتار کرنے، مقدمات چلانے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے موزوں فریم ورک فراہم کر دیا ہے‘ مگر صرف قوانین ہی سزا نہیں دے سکتے۔ چنانچہ یہ بات روز روشن کی مانند عیاں اور واضح ہے کہ جب تک انتظامیہ کے گرفتار کیے ہوئے ملزم قانون کے شکنجے سے بچ نکلتے رہیں گے، قانون ساز اداروں کے اقدامات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے۔
اس لئے انسداد دہشت گردی کے بیانیے کا دست و بازو بن کر عدلیہ کو چاہئے کہ وہ دہشت گردی کے مقدمات میں سزا دینے کے لئے تازہ اور نئے معیار وضع کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ شہادت کے پرانے معیار (مثلاً عینی گواہ کی شہادت) جو عام قوانین کے نظائر سے اخذ کئے گئے ہیں‘ آج کے جدید دور میں دہشت گردی کے مقدمات کے فیصلے کرنے میں استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ اس وقت جب دہشت گردی کے واقعے کی منصوبہ سازی کسی علاقے میں ہوتی ہے، مالی وسائل کوئی دوسرا شخص فراہم کرتا ہے اور اس پر عمل درآمد کوئی تیسرا فرد کرتا ہے‘ یعنی جب مختلف افراد اپنا اپنا کردار نبھاتے ہوں تو دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ کو ایسے قانونی معیار کی رو سے سزا دینا نا ممکن ہو جاتا ہے‘ جس معیار سے کسی اللہ دتہ نامی دیہاتی کے مقدمے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
مزید یہ کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں دہشت گرد دیہاتی اور شہری مراکز میں گھسے بیٹھے ہوں تو ان اسلحہ برداروں کے خلاف کسی عینی گواہ کی شہادت پیش کرنا ممکن نہیں رہتا۔ فی الحال ملٹری کورٹس کا قیام ہی‘ جس کی سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اپنے اکیسویں ترمیم کے فیصلے میں توثیق کر چکی ہے‘ دہشت گردوں کو سزائیںدینے کا ممکنہ حل نظر آتا ہے۔ مگر طویل مدتی اقدام کے طور پر ہمیں اپنا قانون سازی کا فریم ورک اور نظام عدل اس طرح وضع کرنا ہو گا کہ یہ امر یقینی ہو جائے کہ ہمیں اپنی آئینی اخلاقیات کو پھر سے ایسے خوفناک اقدامات سے داغ دار نہ کرنا پڑے۔ 
اسی طرح ہمیں اپنے پولیس کے نظام کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔ نو آبادیاتی تقاضے نبھانے والے پولیس کے موجودہ ڈھانچے کی نہ تو اس طرح تربیت کی گئی ہے اور نہ ہی اسے ایسے اسلحے سے لیس کیا گیا ہے کہ وہ دور حاضر کی جدید دہشت گردی کا قلع قمع کر سکے۔ 
اسی طرح وہ پولیس فورس جو اضلاعی اور صوبائی حدود میں منقسم ہے‘ اس کے پاس انٹیلی جنس شیئرنگ کا کوئی مشترکہ میکانزم موجود نہیں ہے۔ اسی طرح پولیس اور دوسری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین بھی معلومات کی شیئرنگ کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اس مقصد کے لئے نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (NACTA) تشکیل دی گئی تھی تا کہ مختلف ایجنسیوںکی جمع کردہ معلومات ایک مرکز پر اکٹھی کی جا سکیں اور پھر ان کی روشنی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مربوط کوششیں بروئے کار لائی جا سکیں؛ تاہم اپنے قیام سے لے کر اب تک نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی اپنے وجود کی بقا اور مقام حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہی مصروف ہے تاکہ وہ اپنا وہی با معنی کردار ادا کر سکے جس کے لئے اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ کسی فوری قومی ضرورت کے وقت نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کی کمزور کارکردگی دراصل ہمارے ہاں پائے جانے والے افسر شاہی جمود اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین اپنے دائرہ کار کے تعین کی کشمکش کی نشاندہی کرتی ہے۔
داتا دربار کے باہر ہونے والے خود کش دھماکے سے اس امر کی یاد دہانی ہوتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ابھی ہمیں مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سفر اسی وقت طے ہو گا جب ہمارے عسکری، سویلین، سیاسی اور انصاف فراہم کرنے والا نظام اور ادارے اجتماعی اور مربوط کوشش کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں