"FBC" (space) message & send to 7575

جج ارشد ملک کی داستان

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ہوشربا داستان نے پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ کو مزید پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اس نے نہ صرف ہمارے عدالتی نظام کے دل میں خنجر گھونپا ہے بلکہ انصاف کی حقیقت کو بھی سب کے سامنے آشکار کرکے رکھ دیا ہے کہ کس طرح ہمارے منصف بیرونی سیاسی اور ادارہ جاتی دبائو کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
جج ارشد ملک سے متعلق حقائق ابھی واضح ہو کر ہمارے سامنے نہیں آئے اور اس کے لئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کس کا موقف درست ہے‘ مریم نواز کی ویڈیو یا جج صاحب کا حلفیہ بیان‘ مگر ایک حقیقت بالکل غیر متنازعہ ہے کہ جج ارشد ملک کوئی بھی عدالتی منصب سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں اور ان کے خلاف اپنی غیر جانب داری کے حلف نامے کی خلاف ورزی کے جرم میں قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔
ہم پہلے متعلقہ فریقین کے بیان کردہ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔ مریم نواز کی دھماکہ خیز پریس کانفرنس میں بیان کردہ حقائق کی مختصر کہانی کچھ یوں ہے کہ جج ارشد ملک نے اپنے پرانے دوست اور مسلم لیگ نون کے ایک کارکن ناصر بٹ سے رابطہ کر کے ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا‘ جس میں وہ ریاست کے مخصوص افراد کی طرف سے دبائو میں آ کر نواز شریف کو سزا سنانے پر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے تھے۔ جج صاحب کی اپنی رہائش گاہ پر یہ ملاقات ہوئی جس میں ناصر بٹ کے علاوہ ان کے سٹینو گرافر نے بھی شرکت کی۔ خفیہ طریقے سے ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج صاحب اپنے ہی فیصلے کیخلاف اپیل کے نکات ڈکٹیٹ کرا رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو سزا دینے کا کوئی ثبوت یا جواز نہیں تھا۔
سب سے اہم بات یہ تھی کہ جج صاحب نے انکشاف کیا کہ بعض افراد نے ان کے ماضی سے متعلق ایک ویڈیو انہیں دکھائی اور انہیں مجبور کیا کہ وہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیں۔ جج صاحب مجبوراً راضی ہو گئے مگر ان کے ضمیر پر اس بات کا بہت زیادہ بوجھ ہے؛ چنانچہ ناصر بٹ کے ذریعے جج صاحب اپنے غلط فیصلے کی درستی میں نواز شریف کی مدد کر کے اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں۔ 
ان الزامات کے جواب میں جج ارشد ملک نے اپنے دفاع میں دو بیانات جاری کئے ہیں۔ اول اتوار کے دن یعنی مریم نواز کی پریس کانفرنس کے ایک دن بعد ایک مختصر سا پریس ریلیز کہ ویڈیو میں ہونے والی گفتگو میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ جج صاحب نے انکشاف کیا کہ وہ راولپنڈی کے ناصر بٹ اور ان کے بھائی افضل بٹ کو جانتے ہیں اور یہ کہ نواز شریف کے مقدمے کی سماعت کے دوران انہیں رشوت کی پیشکش کی گئی اور تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ جج صاحب مزید کہتے ہیں کہ وہ ان حربوں کے سامنے دبائو میں نہ آئے اور اپنے اس دعوے کی تصدیق کے لئے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ریکارڈ میں دستیاب شہادتوں کی روشنی میں نواز شریف کو ایک مقد مے میں بری کر دیا تھا‘ اور ایک مقد مے میں سزا سنائی تھی۔ اپنے بیان کے آخر میں وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی تھرڈ پارٹی کی طرف سے کسی قسم کے بالواسطہ یا بلا واسطہ دبائو میں نہیں تھے۔ اور یہ کہ انہوں نے اس مقدمے میں صرف اور صرف میرٹ پر فیصلہ دیا تھا۔
اس کمزور اور ناقص پریس ریلیز کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایکٹنگ چیف جسٹس جناب جسٹس عامر فاروق نے بلایا اور اس ملاقات کے بعد انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی ملاقات کی۔
گیارہ جولائی کے دن ہی جج ارشد ملک نے اپنا حلفیہ بیان پیش کیا جس میں انہوں نے اپنے دعوے کے حق میں تفصیلی حقائق بیان کئے۔ اس حلفیہ بیان میں جسے اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر نواز شریف کی اپیل کا حصہ بنا دیا گیا ہے انہوں نے اپنی پس پردہ کہانی کے نئے کرداروں سے بھی متعارف کرایا ہے۔ ان کے موقف کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ فروری 2018ء میں جج ارشد ملک کی احتساب عدالت میں تقرری کے فوراً بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے ان سے رابطہ کیا۔ ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ اس نے مسلم لیگ نون کی حکومت کی ایک با اثر شخصیت کے ذریعے انہیں احتساب عدالت کا جج لگوایا ہے۔
اس کے کچھ عرصے بعد اگست 2018ء میں (نواز شریف کے وکیل کی درخواست پر) فلیگ شپ ریفرنس اور ہل میٹل ریفرنس جج ارشد ملک کی عدالت میں ٹرانسفر کر دیئے گئے۔ جج صاحب کے دعوے کے مطابق جب ان مقدمات کی سماعت ابھی ہو رہی تھی تو نواز شریف کے قریبی ساتھیوں نے متعدد بار اپروچ کر کے ترغیبات اور دھمکیوں کے ذریعے انہیں اور دوسرے ملزم کو مقدمے سے بری کرنے کے لئے کہا۔ ارشد ملک کا دعویٰ ہے کہ مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ انہیں ایک سماجی تقریب میں ملے اور انہیں وارننگ دی کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ کرنے کی صورت میں انہیں بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس کے بعد جب ابھی دلائل جاری ہی تھے کہ ناصر جنجوعہ نے نواز شریف کی طرف سے انہیں مالی پیشکش کی اور اس موقع پر ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس یورو کی شکل میں دس کروڑ روپے موجود ہیں جن میں سے دو کروڑ روپے کے مساوی یوروز اس وقت بھی باہر کھڑی اس کی گاڑی میں پڑے ہیں۔
جج صاحب کے دعوے کے مطابق انہوں نے رشوت کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تو نواز شریف کی بریت کے لئے ناصر بٹ نے انہیں مل کر جسمانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں۔ جج ارشد ملک کے حلفیہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دسمبر 2018ء کے آخری ہفتے میں مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد بھی ناصر بٹ اور خرم یوسف انہیں ملے‘ اور پوچھا کہ کیا ناصر جنجوعہ نے انہیں ملتان والی ویڈیو دکھائی ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد میاں طارق اور اس کا بیٹا ان کے پاس آئے اور انہیں ان کی خفیہ اور ساز باز سے ریکارڈ کی ہوئی غیر اخلاقی سرگرمیوں پر مبنی ویڈیو دکھائی۔
اس ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرتے ہوئے ناصر جنجوعہ نواز شریف کی تسلی کے لئے جج ارشد ملک کا ''ایک آڈیو پیغام‘‘ ریکارڈ کرنا چاہتے تھے‘ جس میں وہ کہہ رہے ہوں کہ میں نے کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر انتہائی دبائو میں نواز شریف کو سزا سنائی ہے۔ حلفیہ بیان کے مطابق اس ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرتے ہوئے ناصر بٹ نے انہیں اپنے ہمراہ جاتی امرا جانے کا مطالبہ کر دیا؛ چنانچہ 06-04-2019 کو جج ارشد ملک جاتی امرا گئے جہاں نواز شریف نے خود ان کا استقبال کیا۔ جب جج ارشد ملک نے ثبوت کی بنا پر اپنے فیصلے کا دفاع کرنے کی کوشش کی تو نواز شریف نے اس پر سخت ناگواری کا اظہار کیا۔ اس اظہار ناراضی کے ازالے کے لئے ناصر بٹ نے مطالبہ کیا کہ وہ اس سزا کے خلاف اپیل کی تیاری میں ان کی مدد کریں۔ یہی وہ ملاقات اور امداد تھی جس کا مواد مریم نواز کی پریس کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا۔ 
اس حلفیہ بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جج ارشد ملک 28-05-2019 کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے گئے۔ مدینہ میں قیام کے دوران یکم جون کو ناصر بٹ انہیں وہاں ملے اور مجبور کر کے انہیں حسین نواز سے ملانے کے لئے لے گئے۔ حسین نواز بڑے جارحانہ موڈ میں تھے اور انہوں نے انہیں پچاس کروڑ روپے کی پیشکش کی اور کہا کہ اس کے بدلے میں انہیں اس بنا پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا ہو گا کہ ''وہ بغیر کسی ثبوت اور شہادت کے دبائو میں آ کر نواز شریف کو سزا سنانے پر اپنے ضمیر پر مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔
اپنے حلفیہ بیان میں جج ارشد ملک دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور جب ناصر بٹ اور خرم یوسف نے یہی پیشکش دہرائی تو بھی اسے مسترد کر دیا۔ 06-07-2019 کو مریم نواز کی پریس کانفرنس اسی پیشکش کو ٹھکرائے جانے کے بعد کی گئی ہے۔
اس امر سے قطع نظر کہ کوئی مریم نواز کے ویڈیو کے بارے میں دعوے یا جج ارشد ملک کے حلفیہ بیان میں اپنائے گئے موقف کو کس طرح دیکھتا ہے اس حقیقت سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے کہ جج ارشد ملک کا طرز عمل بالکل بلا جواز ہے۔ خاص طور پر ایسے مقدمے میں جسے سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس اعجازالاحسن براہ راست مانیٹر کر رہے تھے۔

 

کچھ بھی ہو ان کے اپنے حلفیہ بیان کے مطابق ان کے پاس ناصر بٹ، ناصر جنجوعہ، مہر جیلانی، خرم یوسف، حسین نواز اور نواز شریف سے ملنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس بات کا بھی کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ جج ارشد ملک نے ان تمام واقعات سے مانیٹرنگ کرنے والے معزز جج صاحب کو آگا ہ کیوں نہیں کیا؟ جس وقت وہ ان ملاقاتوں اور گفت و شنید میں مصروف تھے ان کے پاس اسی عرصے میں ان مقدمات کی سماعت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ دبائو کے تحت ہی سہی ان کے پاس اپنے فیصلے کے خلاف اپیل کی تیاری میں مدد کرنے یا ڈکٹیٹ کرانے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ ان گھٹیا نوعیت کے واقعات کے متاثرہ فریق ہونے کے بعد ان کے پاس کام کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
کئی حوالوں سے جج ارشد ملک کی کہانی نواز شریف کی کہانی سے مختلف نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر جج صاحب کے بیان کردہ تمام حقائق کو درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی جج صاحب نے اپنے حلف سے روگردانی کی ہے، شائستگی کی تمام حدود عبور کی ہیں، ہمارے نظام عدل کا مذاق اڑایا ہے ۔ بہرحال جج صاحب کا بیانیہ کسی بھی صورت قانون اور فطری انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔
جج ارشد ملک کو کام سے روک دینا تو کم سے کم اقدام ہے۔ انہوں نے اس مقدمے اور ملکی عدلیہ کے وقار کو جتنا نقصان پہنچا دیا ہے محض عہدے سے ہٹانے سے اس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ نواز شریف اور ان کی فیملی کے ساتھ کیا ہوتا ہے (ان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر ہی ہو گا) جج ارشد ملک کو ان تمام کے لئے ایک مثال بنا دینا چاہئے جو ہمارے نظام عدل کے کار پردازوںکو ڈرانے دھمکانے یا بلیک میل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
صرف اسی صورت نواز شریف کو ملنے والی سزا اور ہمارے مجموعی نظام عدل کی ساکھ برقرار رہ سکتی ہے۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں