"FBC" (space) message & send to 7575

سٹریٹ چلڈرن کا ’’احساس‘‘

انسانی شعبے کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے حوالے سے عمران خان صاحب کے بنیادی تصور پر عمل درآمد کے لئے پی ٹی آئی کی حکومت نے ''احساس‘‘ پروگرام شروع کیا ہے۔ یہ پروگرام‘ جس کے بارے میں وزیر اعظم نے اپریل میں اپنا پالیسی بیان جاری کیا تھا‘ عدم مساوات میں کمی، عوام پر سرمایہ کاری اور پس ماندہ اضلاع کی ترقی کے لئے چار شعبوں اور 115 پالیسی اقدامات کا احاطہ کرتا ہے۔ خاص طور پر اس کے چار ستون ہیں۔ اول: وسائل پر سے اشرافیہ کا قبضہ چھڑانا اور ایسے سرکاری نظام کی تشکیل جو سماجی مساوات پیدا کرے، دوئم: عوام کے پسے ہوئے طبقے کے مفادات کا تحفظ، سوئم: ملازمت اور روزگار کے مواقع، چہارم: انسانوں پر سرمایہ کاری۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ''احساس‘‘ پروگرام میں ہمارے معاشرے کے سب سے زیادہ نظر انداز ہونے والے طبقے یعنی ''سٹریٹ چلڈرن‘‘ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ پاکستان کے تمام شہروں اور قصبات میں، ہر چوک، پُر رونق مارکیٹس، پارکنگ سٹینڈز اور مساجد کے باہر بھیک مانگنے والے بچوں کے مناظر اس قدر عام ہو چکے ہیں کہ انہیں دیکھ کر اب عوام کو اپنے دلوں میں کوئی کسک بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ہر سگنل پر ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں کی کھڑکیوں سے لٹکتے بچوں کو ہم محض ایک مصیبت سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ وہ جو دل میں قدرے رحم کا جذبہ رکھتے ہیں اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر چند سکے نکالتے ہیں‘ شانِ بے نیازی سے ان بچوں کی طرف اچھال دیتے ہیں اور اسے اس دن کی نیکی شمار کر لیتے ہیں۔ جیسے ہی سگنل سبز ہوتا ہے ہم تیز رفتاری سے اپنی پُر آسائش دنیا کی طرف بھاگتے ہیں اور پھر بھولے سے بھی ہمیں غربت کی چکی میں پسنے والے ان معصوم بچوں کا خیال نہیں آتا۔
یہ کم عمر بچے‘ جو ابھی تک اپنی زندگی کے تلخ حقائق سے یکسر بے خبر ہیں‘ ملکی آئین اور قانون کے تحت بہر حال ہمارے ہی بچے ہیں۔ وہ ہمارے سماج اور ہمارے ضمیر کی اولاد ہیں۔ اپنی اس حالت زار کے وہ خود تو ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ در اصل ان افتادگانِ خاک کے ساتھ ہمارے رویے کی عکاسی ہے۔
یہ بچے کس کی ذمہ داری ہیں؟ کیا محض اتفاق سے کسی مفلس گھرانے میں پیدائش پر بد قسمتی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے؟ کیا اس معاشرے میں مواقع، تعلیم حتیٰ کہ خوراک اور رہائش محض مخصوص لوگوں کا پیدائشی حق رہ گیا ہے؟ کیا بطور سماج، بطور انسان اور بطور شہری ہمارے اوپر ان کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ کیا اس خود غرض معاشرے کو یہ بچے اور ان کی سیاہ نصیبی کبھی نظر نہیں آئے گی؟ کیا ہمارا قانون اور اس پر عمل درآمد کرانے والے ادار ے ان بچوںکو اس مفلوک الحالی سے نکالنے میں ہمیشہ اسی طرح بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے؟ یا کبھی ہم ریاستی وسائل اور انفرادی کوششوں سے سڑکوں اور بازاروں میں بھٹکتے ان بچوں کو بد نصیبی کے شکنجے سے نجات دلانے کے لئے کوئی رستہ نکالیں گے؟ 
دستوری جمہوریت میں ہر طرح کا قانون اور پالیسی John Rawls کے الفاظ میں Veil of Ignorance یعنی ''جہالت کے پردے‘‘ میں لکھے جاتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق کسی بھی قسم کا لیگل فریم ورک وضع کرنے سے پہلے ہمیں یہ ضرور سوچ لینا چاہئے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ اس معاشرے میں کون کس گھر میں پیدا ہو گا؟ مثلاً پاکستان میں پیدا ہونے والا بچہ لڑکا بھی ہو سکتا ہے لڑکی بھی، غریب بھی اور امیر بھی، مسلمان بھی اور غیر مسلم بھی، وہ پنجابی یا بلوچی بھی ہو سکتا ہے۔ اس مفروضے کی روشنی میں ہمارا قانون اس طرح وضع ہونا چاہئے کہ اسے اس بات سے کوئی سروکار نہ ہو کہ کون، کیا ہے اور کس گھرانے میں پیدا ہوا ہے‘ مگر دستور کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اسے ہر طرح کا تحفظ اور آسائش میسر ہونی چاہئے۔ بالفاظ دیگر قانون کو ایسے افراد کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اپنانا چاہئے جو بد قسمتی سے اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتے۔
ایک حد تک ان سٹریٹ چلڈرن کے تحفظ کے لئے چند سال پیشتر حکومت پنجاب نے The Punjab Destitute And Neglected Children Act 2004 پاس کیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت پنجاب میں غریب اور ٹھکرائے ہوئے بچوں کے تحفظ اور بحالی کے لئے زبردست پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت ایک چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بورڈ تشکیل دیا گیا‘ جسے ایک بورڈ آف گورنر (اس ایکٹ کے سیکشن 6) کے تحت چلائے گا اور وزیر اعلیٰ پنجاب، بچوں کے حقوق کا وزیر یا مشیر، وزارت داخلہ، سماجی بہبود، تعلیم اور صحت کے صوبائی سیکرٹریز اس بورڈ کے ممبرز ہوں گے۔ بورڈ آف گورنرز کے ماتحت ایک ڈائریکٹر جنرل اس بورڈ کو چلائے گا اور یہ سب مل کر چائلڈ پروٹیکشن کے ادارے قائم کریں گے، بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشاندہی کریں گے اور چائلڈ پروٹیکشن کورٹس میں ان جرائم کے خلاف مقدمات چلائیں گے۔ یہ ایکٹ حکومتی اہل کاروں کو ایسے غریب اور مفلوک الحال بچوں کو تلاش کرنے کے بعد انہیں چائلڈ پروٹیکشن والے اداروں کے سپرد کرنے کی ذمہ داری بھی تفویض کرتا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد اب یہ ریاستی حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کو (آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت) مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ اس امر کی ضمانت دی جا سکے کہ ان بچوں کی زندگیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہالت، جرائم اور غربت کے گھن چکر میں نہیں پھنسی رہیں گی۔ 
قانون اور آئین کے مینڈیٹ کے باوجود ابھی تک کسی بھی حکومت نے ان بھٹکتے ہوئے بچوں کے تحفظ کے لئے کوئی بھی قابل ذکر اقدامات نہیں کئے۔ یہ ایسے خاندان ہیں (اگر انہیں خاندان کہا جا سکتا ہو تو) جنہوں نے بچوں کے بھیک مانگنے کو ایک پیشہ بنا دیا ہے۔ ان بچوں میں اغوا شدہ بچے بھی ہوتے ہیں‘ جنہیں کئی سنگدل لوگ دانستہ اذیت ناک طریقے سے اپاہج اور معذور بنا دیتے ہیں تاکہ لوگ ان پر ترس کھا کر زیادہ سے زیادہ بھیک دیں۔
اگر بطور شہری ہمیں یہ علم ہے کہ ایسے بچے کہاں پائے جاتے ہیں تو سرکاری ادارے‘ جن کی قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے کہ ایسے بچوںکے تحفظ اور فلاح و بہبود کو یقینی بنائیں‘ بھی یقیناً جانتے ہوں گے کہ ایسے بچے کہاں ہوتے ہیں۔
تو پھر ایسے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے ریاست کی بے حسی اور کاہلی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ ان حالات میں ایک ناگزیر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریاست اور ہمارا معاشرہ قانون اور انسانی ضمیر کے مینڈیٹ کو نافذ کرنے میں نہ صرف ناکام ہو چکے ہیں بلکہ مسلسل ناکامی سے دوچار ہو رہے ہیں۔ ہم شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ ہمارے بچے نہیں ہیں اور ان کے مصائب ہمارے مصائب نہیں ہیں‘ یہ کہ ان کی مشکلات اور اذیتوںسے ہم پر یا ہمارے مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ہماری انسانیت اور ہمارے قوانین کی ناکامی محض کسی قانونی ذمہ داری سے انحراف ہی نہیں ہے‘ یہ انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔ اس نا قابلِ معافی جرم پر شاید ہم اپنے قانون کی نظر میں جواب دہ نہ ہوں مگر تاریخ کی عدالت میں اور روز قیامت اللہ کے حضور بہر صورت مجرم قرار پائیں گے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو ان بچوں کی حالت زار پر توجہ دینی چاہئے اور احساس پروگرام کو بھی اپنا دائرہ کار ان افتادگانِ خاک تک بڑھانا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں