"FBC" (space) message & send to 7575

پولیس گردی کے مسلسل واقعات

پنجاب میں پولیس کے ظالمانہ طرز سلوک کے پے در پے واقعات اتنے تکلیف دہ ہیں کہ ان پر تفصیل سے بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ اذیت ناک بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو ہماری زندگی کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں (قانون نافذ کرنے والے ادارے) عوام انہی سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ صرف چند ہفتے قبل صلاح الدین پولیس کی حراست میں تشدد سے مارا گیا۔ ایک اور واقعہ میں امجد علی (اب مرحوم) کی 9 مشتبہ لوگوں کے ساتھ ایک ویڈیو وائرل ہوئی‘ جن پر گوجرانوالہ پولیس تشدد کر رہی تھی۔ ایک ہفتہ بعد عامر مسیح کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی جس میں انکشاف ہوا کہ وہ پولیس کے زیر حراست تشدد سے مارا گیا۔ ایک اور ویڈیو میں پولیس کے ''سافٹ امیج ‘‘ کے لئے ایک اے ایس آئی کی آئی جی پنجاب کے دفتر کے باہر ایک عمر رسیدہ خاتون کے ساتھ بد تمیزی کرتے ہوئے کی ویڈیو منظر عام پر آ گئی۔ حافظ آباد میں ایک پچاس سالہ مزدور محمد انور پر مقامی پولیس نے شدید تشدد کیا۔
پولیس کلچر نے کس طرح اس ادارے کا ایک افسوس ناک امیج پروان چڑھایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شروع دن سے ہی یہ بربریت ہماری پولیس فورس کا خاصہ رہی ہے یا یہ حالیہ دنوں میں اس نہج کو پہنچی ہے؟ کیا پولیس میں کسی قسم کی اصلاحات کا عمل جاری ہے‘ جو پولیس کے اس طرز عمل کا خاتمہ کر سکتی ہوں یا ہم تمام حدود پھلانگ کر پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکے ہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ معاملات کی اس زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے اور ہم اپنی سلامتی کے محافظوں میں پروفیشنل ازم اور انسانیت متعارف کرانے کے لئے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے شہری قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کی موجودگی میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں؟ بالکل نہیں! کیا کسی بھی علاقے میں پولیس کی موجودگی سے ہماری زندگی کو در پیش خوف میں کوئی کمی محسوس ہوتی ہے؟ یقینا نہیں! کیا اس سے اس بات کو تقویت نہیں پہنچتی کہ پاکستان کے عوام کو تشدد کی دو شکلوں سے تحفظ کی ضرورت ہے؟ اول : عسکریت پسندوں کا تشدد۔ دوم : قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تشدد۔
اگر ماڈل ٹائون کا قتل عام، ساہیوال سانحہ، صلاح الدین پر تشدد یا رائو انوار کے فرار جیسے (دہشت گردی کے) اکا دکا واقعات ہوتے تو محکمہ پولیس کو کسی حد تک رعایت دی جا سکتی تھی؛ تاہم ایسے واقعات کے تسلسل اور مجرموں کے خلاف تادیبی کارروائی نہ ہونے سے پاکستان میں ایسے اداروں کی جانب سے ہونے والے اختیارات کے نا جائز استعمال کی ایک اور ہی کہانی سامنے آتی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حال ہی میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار برسوں میں (جنوری 2014ء سے مئی 2018ئ) پولیس مقابلوں میں 3345 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دس راہ گیر بھی مارے گئے اور ان مقابلوں میں 53 لوگ زخمی ہوئے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک صوبے تک محدود نہیں ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پنجاب پولیس کے تمام تر ظالمانہ اقدامات کے باوجود جنوری 2014ء سے مئی 2018ء کے دوران پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ لوگوںکو مارنے میں سندھ پولیس سر فہرست رہی ہے۔
اس پولیس گردی کی وجوہات کیا ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ پولیس فورس مسلسل عام شہریوں کے لئے خوف پھیلانے والے ادارے کے طور پر سامنے آئی ہے نہ کہ عام شہریوں کی سلامتی اور آزادی کے آئینی حق کے محافظ کے طور پر؟ ایسا کیوں ہے کہ خیبر پختون خوا کے سوا تمام صوبوں کی پولیس فورس ایک انتہائی پرانے قانون کے تحت کام جاری رکھے ہوئے ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے صوبے ابھی تک 1861ء کے پولیس ایکٹ کے تحت ہی کام کر رہے ہیں‘ جسے نوآبادیاتی حکمرانوں نے مقامی رعایا کو مغلوب رکھنے کے لئے متعارف کرایا تھا ؟ کیا وجہ ہے کہ پنجاب میں پندرہ سال گزر جانے کے باوجود 2002ء کے پولیس ایکٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہو سکا ؟ کیا وجہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے واضح حکم کے باوجود پولیس ایکٹ 2002ء کے تحت شہری نگرانی کا میکنزم (پبلک سیفٹی کمیشن اور پولیس کمپلینٹ اتھارٹی) ابھی تک تشکیل نہیں دیا جا سکا؟ کیا وجہ ہے کہ مشرف حکومت سے لے کر پی پی اور مسلم لیگ نون اور پھر پی ٹی آئی کی حکومت تک سب نے وہ تمام قانونی اقدامات کرنے سے انکار کر دیا‘ جن کی بدولت پولیس ایک ایسا آزادانہ ادارہ بن جاتی جو کہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا (نہ کہ سیاسی لیڈروں کو)؟
اس بات سے قطع نظر کہ کوئی شخص پاکستان میں امن و انصاف کے معاملے کو کس انداز سے دیکھتا ہے، امن و امان کے تناظر میں، انسداد دہشت گردی کے تناظر میں، فوج داری نظام عدل کے تناظر میں، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں خصوصاً اس مکالمے میں پولیس کا کردار مرکزی نوعیت کا حامل ہے۔ پولیس کا نیٹ ورک ہمارے پورے سماج پر محیط نظر آتا ہے جہاں وہ اکثر ہمیں معمولی نوعیت کے گھریلو جھگڑوں سے لے کر عالمی شہرت یافتہ دہشت گردوں کی گرفتاری اور قومی حادثات کی روک تھام تک جیسے امور میں الجھی اور ان کے سدباب میں مصروف نظر آتی ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے امن و امان سے لے کر انسداد دہشت گردی کے ماہرین تک سب بیک زبان یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا موجودہ پولیس سٹرکچر اتنا تربیت یافتہ اور مسلح نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں روزانہ کی بنیاد پر فروغ پانے والے تشدد کے خلاف لڑ سکے۔ پھر یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ کئی مرتبہ پولیس مسئلے کے حل کے بجائے مسئلے کا حصہ ہوتی ہے۔ آزادی کے وقت ریاست پاکستان کو ورثے میں ملنے والی پولیس کا ڈھانچہ کچھ اس طرح ہے کہ وہ صرف مقامی سطح پر کسی ہجوم کو روکنے، چوری ڈاکے اور ذاتی تنازعات جیسے روایتی جرم کی تفتیش یا گرفتاری کا کردار نبھا سکتی ہے۔ در حقیقت ہماری پولیس نوآبادیاتی عہد جیسے ہجوم کنٹرول کرنے (صلاح الدین جیسے لوگوں پر تشدد) کی ڈیوٹی میں اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ اس کے پاس انسداد دہشت گردی کی جدید تکنیک سیکھنے یا بروئے کار لانے کا ادراک اور وقت ہی موجود نہیں ہے۔
پولیس گردی کے حالیہ واقعات میں اضافے سے ہمیں اپنی پولیس فورس اور اس کے کلچر کے بارے میں کئی تلخ حقائق کا پتہ چلا ہے۔ ایک ایسا کلچر جو اپنے اقدامات کے نتائج سے بالکل بے بہرہ ہے۔ اس پولیس کلچر کا علاج بیرونی مداخلت یا قانونی اقدامات سے نہیں ہو سکتا۔ داخلی کلچر کی درستی کی ذمہ داری خود پولیس کے اپنے کندھوں خصوصاً محکمہ پولیس کے سینئر افسروں پر عائد ہوتی ہے۔ 
دنیا بھر میں سویلین پولیس فورس کی طاقت اور قانونی ساکھ کا انحصار اس کی مورال اتھارٹی پر ہوتا ہے۔ عوام پولیس کی ہدایات کی پیروی کسی ذاتی خوف کی بنا پر نہیں بلکہ کسی ٹریفک وارڈن، کانسٹیبل یا سینئر پولیس افسر کی بات کو اپنے ملکی قانون کے احترام کی وجہ سے سنتے ہیں‘ اور ان کا یونی فارم جس ریاست کی نمائندگی کرتا ہے اس کے احترام کے لئے سنتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں پولیس اپنی یہ مورال اتھارٹی بالکل کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستانی عوام ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہیں تو دوسری جانب وہ اپنی پولیس کے ساتھ بھی نبرد آزما محسوس ہوتے ہیں جس کا طرز عمل کسی طور قانون ہاتھ میں لینے والوں سے مختلف نہیں ہے۔ یہ طرز عمل جتنا نا قابل برداشت ہے اتنا ہی قابل نفرت بھی ہے۔ محکمہ پولیس میں موجود با ضمیر افسروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پروفیشن کے احترام کی بحالی اور عوام کی اجتماعی سلامتی کے حقیقی اور ہمدرد محافظ کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے آگے بڑھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں