"FBC" (space) message & send to 7575

میں اقوام متحدہ کو یہ بتانے آیا ہوں

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران کی یادگار تقریر پر زیادہ باتیں کی جا سکتی ہیں‘ نہ خوشی منائی جا سکتی ہے۔ یہ ایک مؤثر‘ جذباتی تقریر تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حقیقت کی ترجمان تھی۔ مجھے نہیں یاد کہ کسی پاکستانی لیڈر بلکہ کسی مسلمان لیڈر نے اتنے بڑے عالمی سٹیج پر کبھی اتنا مؤثر، متوازن اور جذباتی خطاب کیا ہو۔
سچ بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کو ایسا موقع بہت کم ملا ہے کہ وہ اپنے کسی سیاسی لیڈر پر فخر کر سکیں۔ عرصے سے ہم ایسے نااہل لیڈروںکے عادی ہو چکے ہیں جنہیں ٹیلی پرومپٹر پر لکھی تقریر پڑھنے میں بھی مشکل پیش آتی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مدتوں پہلے ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے قومی عزت اور وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی عالمی فورم پر خطاب کیا تھا۔ مگر وہ کوئی اور زمانہ تھا۔ ان لیڈروں کو عمران خان جیسے مشکل حالات کا سامنا نہیں تھا کہ ملک مالی مشکلات کا شکار ہو‘ قوم کرپشن کی دلدل میں دھنسی ہو، مذہب کے نام پر گردنیں کاٹی جا رہی ہوں، عالمی برادری ہماری اس حالت زار پر بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہو اور ہمارا دشمن نفرت اور فاشزم کی آئیڈیالوجی پر عمل پیرا ہو۔
ایسے حالات میں کسی کو بھی عمران خان سے کسی معجزاتی کرشمے کی توقع نہیں تھی۔ آخر چند روز پہلے ہی تو ہم نے امریکی صدر کو مودی کی سیاسی ریلی میں شریک دیکھا تھا اور دنیا انسانی حقوق کی پاسداری کے بجائے ایک ارب بیس کروڑ انسانوں کی مارکیٹ کے سامنے سرنگوں ہونے کو بے چین تھی۔ اور پھر کیا ہوا؟
عمران خان نے ماحولیاتی تبدیلی سے اپنی تقریر کا آغاز کیا، پاکستان کا ایک ایسا مسئلہ جس کیلئے انہوں نے خیبر پختونخوا میں ایک ارب درختوں کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ انہوں نے کرہ ارض کو درپیش اس سنگین مسئلے پر اپنی تشویش کا اظہار مناسب سمجھا اور یہ بھی بتایا کہ پاکستان اس اہم مسئلے سے نمٹنے کیلئے کیا اقدامات کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایسے موضوعات ہی زیر بحث آتے ہیں۔
پھر ان کی تقریر کا رخ اپنے ملک کے ایک گمبھیر مسئلے یعنی منی لانڈرنگ کی طرف مڑ گیا اور انہوں نے بجا طور پر یہ نشاندہی کی کہ کس طرح ترقی پذیر ممالک کی اشرافیہ ملکی دولت لوٹ کر مغر بی ممالک میں اپنے اکائونٹس میں منتقل کر رہی ہے‘ جس سے مقامی معیشت کمزور ہونے کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ تک بتایا کہ اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد انہوں نے بڑی محنت سے منی لانڈرنگ کے ذریعے خریدی گئی جائیدادوں کا پتا چلایا مگر ان ممالک کے قوانین نے انتہائی مشکل بنا دیا کہ ہم یہ غیر قانونی دولت واپس لے کر ملکی ترقی کیلئے خرچ کر سکیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا منی لانڈرنگ کے ذریعے جمع کی گئی یہ دولت منشیات سے بنائی گئی اور دہشتگردی میں استعمال ہونے والی دولت سے چھوٹا جرم ہے کیونکہ یہ ترقی پذیر ممالک کے بدنصیب عوام کے خلاف جرم کا ارتکاب کرکے حاصل کی جاتی ہے؟
پھر ان کی تقریر کا رخ اسلامو فوبیا کی طرف مڑگیا اور بتایا کہ کس طرح مغربی لیڈروں نے ''اسلامو فوبیا اور انتہا پسند اسلام‘‘ جیسی اصطلاحیں ایجاد کرنے میں کردار ادا کیا۔ انہوں نے مسلم حکمرانوں کو بھی معاف نہیں کیا جنہوں نے کبھی مغرب کو یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ اسلام ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے اور کس طرح اسلاموفوبیا اسلامی دنیا کوایک کونے میں دھکیل رہا ہے۔
مگر ان کی تقریر کا حاصل کشمیر اور وہاں مودی حکومت کا ظلم و ستم اور جبر و استبداد تھا (ان کا جنرل اسمبلی میں آنے کا مقصد ہی یہی تھا) یہ کشمیر ہی تھا جس نے عمران خان کی تقریر کو ایک تاریخی خطاب بنا دیا‘ جسے بر صغیر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بھارتی الیکشن سے پہلے اور بعد میں مودی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنی حکومت کی کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد کشمیر کا کیس پیش کرتے ہوئے عمران خان کا موڈ جارحانہ ہوتا گیا۔ انہوں نے آر ایس ایس کے نفرت انگیز نازی نظریات آشکار کیے، یہ بتایا کہ کس طرح کسی جرم کے بغیر 80 لاکھ انسانوں کو گھروں میں مقید کر دیا گیا‘ جہاں پیلٹ گنوں اور گولہ بارود سے لیس 9 لاکھ فوج کی بربریت اپنے عروج پر ہے اور کس طرح گزشتہ تیس برسوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور سکیورٹی فورسز نے گیارہ ہزار سے زائد کشمیری خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ پھر انہوں نے جعلی فوجی آپریشنز، کشمیر ی عوام کی جدوجہدِ آزادی کی مقامی تحریک کو عسکری قوت سے کچلنے کا ذکر کیا، کلبھوشن یادیو اور پاکستان میں بھارتی شر انگیزی کا حوالہ دیا، شملہ معاہدہ اور دیگر دو طرفہ معاہدوںکی خلاف ورزی کا ذکر کیا اور اقوام عا لم کو بتایا کہ بھارت کس طرح کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی ضمانت دینے والی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے سے مسلسل انکاری ہے۔
یہ ایک زبردست تقریر تھی جس میں ناقابل تردید حقائق بیان کئے گئے۔ سب سے اہم بات‘ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی عالمی فورم پر بھارت کے خلاف اتنا مضبوط کیس پیش کیا جا رہا تھا۔ یہ ایک ایسا تیر تھا جو ہر وقت سیکولر اور متحمل مزاج بھارت کا راگ الاپنے والوں کے دل میں پیوست ہو گیا۔ یہ ناقابل تردید حقائق پر مبنی ایک فی البدیہہ تقریر تھی۔
کشمیر میں بھارت کے امیج اور فاشسٹ پالیسیوں کو اس وقت شدید نقصان پہنچا جب عمران خان نے آر ایس ایس‘ جس کے مودی تاحیات ممبر ہیں‘ کی نظریاتی بنیادوں کا پردہ چاک کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے کس طرح اپنی ریاست میں نازیوں کی برائون شرٹ پہنے ہوئے آر ایس ایس کے غنڈوں کو ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے آر ایس ایس کے بانیوں کا حوالہ دیا کہ وہ سب نازی ازم کے حامی تھے جو نہ صرف نسلی برتری اور نسل کشی پر یقین رکھتے تھے بلکہ اس کا پرچار بھی کرتے تھے۔ انہوں نے پوری دنیا کو چیلنج کیا کہ ان کے بیان کردہ حقائق کی ہر طرح کی تصدیق اور چھان بین کی جا سکتی ہے۔
نظر آ رہا تھا کہ پوری دنیا ان کی باتیں پوری توجہ سے سن رہی ہے۔ عمران خان کی تقریر کے فوراً بعد آر ایس ایس کے بانیوں کی سرچ گوگل کی ٹاپ فائیو سرچز میں سے ایک بن گئی۔ دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر لوگوں نے ایم ایس گوالکر اور وی ڈی سوارکر جیسے لوگوں کی تاریخ اور نظریات چھان مارے جن کی آر ایس ایس آئیڈیالوجی مہاتما گاندھی کے قتل کا باعث بنی تھی۔ یہ پتا چلا بلکہ بار دگر پتا چلا کہ مودی کے نظریاتی آبائواجداد نے ہٹلر اور مسولینی کے ساتھ اپنی محبت کو کبھی خفیہ نہیں رکھا تھا۔ سوارکر نے ہٹلر کے مینی فیسٹوز لکھے اور اس کے نسلی برتری کے نظریات اور یہودیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کے حق میں تقاریر بھی کی تھیں۔ حتیٰ کہ جواہر لعل نہرو نے دسمبر 1947ء میں صوبائی حکومتوں کے سربراہوں کے نام اپنے خط میں لکھا تھا ''ہمارے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں کہ آر ایس ایس نجی فوج جیسی ایک تنظیم ہے‘ جو بالکل نازی نظریات کی روشنی میں کارروائیاں کر رہی ہے حتیٰ کہ اسی کی وضع کردہ تکنیکس پر عمل کر رہی ہے‘‘۔ یہی نازی آئیڈیالوجی معاشی ترقی کے بھیس میں بھارتی اقلیتوں خصوصاً کشمیریوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔
ان حالات میں عمران خان نے دنیا سے ایک سیدھا سادا سوال پوچھا ''عالمی برادری اس سلسلے میں کیا کرنے والی ہے؟ کیا اسے ایک ارب بیس کروڑ انسانوں کی مارکیٹ کو مطمئن اور خوش کرنا ہے یا اسے انصاف اور انسانیت کے ساتھ کھڑے ہونا ہے؟‘‘۔ جب انہوں نے اپنے آپ سے یہی سوال پوچھا تو ان کا واضح جواب تھا کہ اگر مجھے موت یا ہتھیار ڈالنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو ہم زندگی کی آخری سانس تک لڑیں گے۔ اپنے اس عہد صمیم کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے دنیا کو متنبہ کیا کہ ''جب ایٹمی ہتھیار رکھنے والی کوئی قوم آخری سانس تک لڑتی ہے تو اس کے اثرات ان کی سرحدوں تک محدود نہیں رہتے، پوری دنیا کو اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ 
عمران خان نے اقوام متحدہ سے کہا‘ اس سے پیشتر کہ ہم اس ''سمت‘‘ میں جائیں اسے وہی کردار نبھانا ہو گا جس مقصد کے لیے اسے بنایا گیا تھا۔ ان کے اپنے الفاظ یہ تھے ''میں یہاں اقوام متحدہ کو یہ بتانے کے لیے آیا ہوں کہ آپ نے ہی کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کی ضمانت دی تھی‘ وہ آج اسی یقین دہانی کے نتائج بھگت رہے ہیں اور یہ وقت 1939ء کی طرح کسی کو خوش کرنے کا نہیں ہے بلکہ یہ کوئی عملی اقدام کرنے کا وقت ہے‘‘۔
وزیر اعظم نے تین عملی اقدامات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ''اول: بھارت فوری طور پر 55 دنوں سے عائد غیر انسانی کرفیو اٹھائے۔ دوم: وہ تمام سیاسی قیدیوںکو رہا کرے خاص طور پر ان 13000 لڑکوں کو جنہیں ان کے گھروں سے اٹھایا گیا ہے۔ سوم: عالمی برادری کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دے‘‘۔
جس دو ٹوک انداز میں ان تین مطالبات کا اظہار کیا گیا ہے یہی پاکستان کی کشمیر پالیسی ہے۔ وزیر اعظم کے خیالات کو اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہی تین مطالبات مودی، اس کی آر ایس ایس، مسلمان لیڈرشپ اور عالمی برادری کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔
شاید اس تقریر اور اقوام متحدہ سے وزیر اعظم کے مطالبات کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ ممکن ہے اس کے بعد کشمیر میں بھارتی مظالم اور عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے فروغ میں مزید اضافہ ہو جائے، شاید ایک ممکنہ جنگ اور اس کی تباہی سے بچنا ناممکن ہو جائے۔ لیکن یہاں ایک لمحے کے لیے رک کر یہ دیکھیں کہ ایک انسان کس طرح دنیا کے سامنے کھڑا ہوا اور پوری جرات کے ساتھ اسے سچ کا آئینہ دکھایا۔ آپ کو یہ دیکھ کر خوش ہونا چاہئے کہ وہ شخص کوئی اور نہیں وزیر اعظم پاکستان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں