"FBC" (space) message & send to 7575

صدی کا سب سے بڑا فریب

28 جنوری کوصدر ڈونلڈٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی ہمراہی میں وہ اعلان کیا جو بقول اُن کے ''ڈیل آف دی سینچری‘‘ ہے۔ یہ امریکہ کا نیا منصوبہ ہے جس کا مقصد ہے کہ ''اسرائیل کو وہ تحفظ مل جائے جس کی اُسے ضرورت ہے اور فلسطینیوں کو وہ ریاست مل جائے جس کے وہ آرزو مند ہیں‘‘۔مگربد قسمتی سے یہ عمدہ بیان بازی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کا اعلان کردہ منصوبہ اس بات کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ درحقیقت یہ صدی کا سب سے بڑا فریب ہے‘ ایک ایسا فریب جو فلسطینی عوام کے لیے آزادی کے وعدے کی تکذیب کرے گا اور دہائیوں سے جاری امریکی سفارت کاری کا پہیہ اُلٹا گھمادے گا۔آئیے اس فریب کو سیاق و سباق میں دیکھتے ہیں:۔
مقدس صحائف میں تاریخ کے آغاز ہی سے یروشلم ابراہیمی ادیان کا محوررہا ہے۔تمام الہامی کتب تورات‘ انجیل اور قرآن مجیدمیں ایسے حوالے موجود ہیں جو یروشلم اور اولادِ اسرائیل کی بابت ہیں ۔ یروشلم کے حصول کے لیے ان گِنت لڑائیاں بھی لڑی جا چکی ہیں اور یروشلم کی چاہ میں بے شمار لوگوں نے اپنا جانیں نچھاور کی ہیں‘جبکہ تمام توحید پرست مذاہب کی الہامی پیشگوئیوں میں یروشلم موجود ہے۔ حضرت موسیٰ ؑکی قوم سے یروشلم کا ''وعدہ‘‘ کیا گیا‘ حضرت عیسیؑ کو یروشلم میں مصلوب کیا گیا اور ہمارے نبی اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کو شب ِمعراج مسجد الحرام سے مسجد اقصی (یروشلم) لے جایا گیا ‘اس کی وضاحت سورہ بنی اسرائیل میں موجود ہے۔
آج چار ارب لوگوں کے لیے‘جو کسی نہ کسی حوالے سے ابراہیمی مذاہب سے منسلک ہیں‘یروشلم عقیدے اورتاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی اسلام کا یروشلم سے لین دین شروع ہو گیا تھا۔ اسلامی ریاست کے کارپردازوں کے لیے یہ شہر نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا اورپھر636ء میں حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے میں‘یروشلم کا محاصرہ کر لیا گیا ۔اُس وقت یہ شہر بازنطینی سلطنت کے پادری آرچ سوفرونیس کے زیر نگیں تھا۔ اگلے برس یعنی 637ء میں بازنطینیوں نے مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور مسلمانوں نے یروشلم شہر اور سرزمین فلسطین کا اختیار سنبھال لیا۔اگلے چار سو پچاس برس تک یروشلم شہراور ارد گرد کی فلسطینی سرزمین پر مسلمانوں کے اقتدار کو کسی نے چیلنج نہیں کیا‘ 1099ء میں پہلی صلیبی جنگ تک‘ جب یورپ سے تعلق رکھنے والے رومن کیتھولک صلیبیوں نے یروشلم پر قبضہ کر لیا اور تقریباً ارض موعود کے تمام مسلمان و یہودی باسیوں کو تہہ تیغ کر ڈالا۔شہر پر عیسائی اقتدار و اختیار سو برس سے بھی کم عرصہ چلا اور 1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کا محاصرہ کر کے Balian of Ibelin کو مجبور کر دیا کہ وہ مسلمان فاتحین کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ اہم بات یہ تھی کہ اس تسخیر کے دوران خون نہیں بہایا گیا‘ مسلمان حکمرانوں نے شہر کے تمام یہودی اور عیسائی باسیوں کو اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو یہیں رہ جائیں یا اپنی مرضی سے شہر چھوڑ کر جانا چاہتے ہوں تو جا سکتے ہیں۔ یہ اس شہر پر مختلف اسلامی سلطنتوں کے تحت‘ اسلام کے آٹھ سو سالہ اقتدار کا نقطہ آغاز تھا اور اس کے ساتھ ہی صلاح الدین کے نام کی مہر یہودی‘عیسائی یادداشت پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئی۔
تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے دورِ جدید تک آ جاتے ہیں‘ خصوصاً پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں مسلمان خلافت کی شکست اور دوسری جنگ عظیم کے بعد 1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام تک۔آج کے دور میں مشرقِ وسطیٰ کی جو شکل نظر آتی ہے اُس کی سرحدیں دونوں عظیم جنگوں کے فاتحین‘ مغربی اتحادی قوتوں کی من مانی سے تشکیل دی گئی ہیں۔ کمزور مسلمان ریاستیں ‘ پراگندہ حکمران جو نئے ورلڈ آرڈر کے ساتھ چلنے پر راضی تھے۔یروشلم کے حصول کے لیے کچھ کمزور سے کوششیں کی گئیں‘ لیکن سب بے سود۔ اس سرزمین کے باسیوں کو بے گھری پر مجبور ہوکر اجنبی سرزمینوں اور مہاجر کیمپوں میں جانا پڑا‘ جہاں رہ کر وہ زیتون کے درختوں کی سرزمین‘ یروشلم‘ پر واپسی کے خواب دیکھتے ہیں۔ اس نسلی منافرت نے عرب اسرائیل جنگوں اور فلسطینی نوجوانوں کی انتفادہ تحریکوں کی راہ ہموار کی۔اس خون آشام تنازعے کا مرکز ایک چھوٹا سا شہر ہے‘ یروشلم۔
ایذا رسانی کے اس سارے دور میں‘ امریکہ کی جانب سے مسلسل دبائو کے باوجود عالمی سطح پر کبھی بھی یروشلم شہر پر اسرائیل کے مکمل دعوے کو قبول نہیں کیا گیا۔ مغربی یروشلم پر اسرائیل نے اپنے قیام کے تقریباً فوری بعد‘ 1948ء میں قبضہ کر لیا تھا۔بعد ازاں 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور 1980ء میں اس کا الحاق کر لیا گیا۔اس عمل کو عالمی برادری نے کبھی قبول نہیں کیا۔مگر اُس وقت سے اب تک اسرائیل مشرقی یروشلم کے اندر اور اس کے قرب و جوار میں کلیدی جگہوں پر کئی یہودی بستیاں قائم کر چکا ہے‘ جن کا مقصد سارے شہر پر اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنا ہے۔یہ بستیاںعالمی قوانین کے تحت غیر قانونی ہیں۔
فلسطینیوں کا یہ مستقل مطالبہ ہے کہ مشرقی یروشلم کو ان کی (مستقبل کی ریاست) کا دارالخلافہ قرار دیا جائے۔ تقریباً تین لاکھ تیس ہزار فلسطینی مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں جبکہ یہودی آبادکاروں کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہے۔ اس معاملے کی حساس نوعیت‘ عالمی قوانین کے تحفظ اور اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے احترام میں‘ جن میں فلسطینیوں کے حق کی توثیق کی گئی تھی‘ کسی قابلِ ذکرملک نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم نہیں کیا‘ یہ صورتحال ٹرمپ کے بر سرِ اقتدار آنے تک برقرار تھی‘ تاہم2017ء میں ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے اُس منصوبے کا اعلان کیا‘ جس کا مقصد اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنا تھا‘ یعنی یروشلم کو حقیقی اسرائیلی دارالخلافہ کے طور پر تسلیم کرنا۔ اس طرح کے کسی احمقانہ قدم کی توقع آپ ٹرمپ جیسے شخص ہی سے کر سکتے ہیں جو تاریخ‘ سیاست اور مذہبی حساسیت سے نابلد ہو ‘جو یروشلم سے وابستہ ہے۔ اگر امریکی صدر تاریخ کے گھڑیال کو تیزی سے چلانا اور دوسری بار منتخب ہونے کے لیے ''ترغیب‘‘ فراہم کرنا چاہتا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑا ہے۔ اگر یہ امریکہ کے اندر موجود Evangelical ووٹ حاصل کرنے کی کوشش ہے تو یہ اور بھی زیادہ احمقانہ بات ہے کہ چند ووٹوں کے لیے تہذیبوں کے مابین معرکہ شروع کرا دیا جائے۔
2017ء میں ٹرمپ کے اعلان کی عالمی سطح پر مذمت دیکھنے میں آئی‘تاہم مسلمان ممالک‘ جن میں اکتالیس ملکوں کا فوجی اتحاد بھی شامل ہے‘اس معاملے پر کسی بھی سطح پر کوئی ہلچل پیدا کرنے میں ناکام رہے۔مسلمان ممالک کی اس غیر فعالیت سے شہہ پا کر گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے ''ڈیل آف دی سینچری‘‘ کا اعلان کر دیا۔ اس میں‘ بی بی سی کے مطابق نیتن یاہو کو وہ سب کچھ دے دیا گیا جس کے وہ خواہاں تھے اور فلسطینیوں کو بہت تھوڑا حصہ ملا۔ مختصر یہ کہ اس منصوبے کے نتیجے میں فلسطینی'' گریٹر اسرائیل‘‘ میں مہاجر بن کر رہ جائیں گے اور ان کی ایک اور یتیم نسل اسرائیلی بندوقوں کے سائے میں پروان چڑھے گی‘مگر کچھ وجوہات کی بنا پر مشرق وسطیٰ ‘ اپنی تمام تر دولت‘ تیل اور فوجی قوت کے باوجود امریکہ کے اس صیہونی منصوبے کو قبول کرنے پر آمادہ دکھائی دیتا۔ یقینا یہ منصوبہ(ڈیل آف دی سینچری) امریکہ ‘ اسرائیل منصوبے کا حصہ ہے‘ لیکن کیااسلامی دنیا کی غیر فعالیت کا نتیجہ بھی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں