"FBC" (space) message & send to 7575

سیکولر انڈیا کی موت

کورونا وائرس کی عالمی وبا اور ساری دنیا میں اس کے پھیلائونے سماج کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا کے طاقتور ملکوں میں گورننس اور صحت کا نظام منہ کے بل جا گرا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اس وبا سے ایک لاکھ سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ''آزاد دنیا‘‘ کے رہنمائوں کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اس لاچاری کے لیے کسے موردِ الزام ٹھہرائیں؟ امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ چین کو موردِ الزام ٹھہرا سکے اور گاہے وہ کووڈ 19کو ''ووہان وائرس‘‘بھی کہتا ہے‘ لیکن اس کا یہ سودا اب تادیر بِکنے والا نہیں ۔کسی مجسم دشمن کی عدم موجودگی کے سبب مغربی سماجوں کا رخ خود اپنی جانب ہو گیا ہے۔ اٹلی‘ جو اب تک یورپ کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے‘میں یورپی یونین میں شمولیت پر سوال اٹھ رہے ہیں اور اس اتحاد میں اس کے شامل رہنے کے فیصلے کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو ؟ اس بین الملکی اتحاد کا اطالویوں نے اچار ڈالنا ہے جس نے ان کے بد ترین وقت میں سوائے اپنی سرحدیں اطالویوں پر بند کرنے کے ‘ کچھ نہ کیا۔ امریکیوں کے پاس تو ایسا کوئی اتحاد بھی نہیں جس پر وہ اپنا غصہ نکال سکیں‘؛چنانچہ انہوں نے اپنے طیش کا رُخ عالمی سطح پر گورننس کے اداروں کی جانب موڑ لیا ہے ۔ اس وقت ان کا ہدف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیمیں ہیں۔ وہ تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ اب سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہمیں ڈبلیو ایچ او یا اقوام متحدہ جیسی تنظیموں کی ضرورت ہی کیا ہے؟بقول امریکی صدر ڈبلیو ایچ او کیوں اس وائرس کو ''ووہان وائرس‘‘ قرار نہیں دے رہا؟اس کی فنڈنگ روک دی جائے۔
یہ سب کچھ تو اپنی جگہ‘ لیکن دنیا بھر میں کورونا وائرس نے کسی بھی ملک یا خطے میں سماجی تانے بانے اس طرح نہیں بکھیرے جیسے اس نے انڈیا میں تباہی مچائی ہے۔ مودی حکومت اپنی نصف کے قریب آبادی کے لیے اس وائرس کو فرقہ ورانہ رنگ دے چکی ہے‘ اور یہ ملک بڑی تیزی سے عدم برداشت اور خود کشی کی ڈھلوان پر لڑھک رہا ہے۔ یہ وہ ڈھلوان ہے جس سے پاکستانی خوب آگاہ ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ انڈیا کی وجودی خود کشی کا آغاز کورونا وائرس کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے سے نہیں ہوا‘ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ اس نقطے پر یہ فصل پوری طرح پک گئی ہے اور اب ہندوتوا کا سالہا سال سے جاری نسلی منافرت کا ایجنڈا اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔ 
گزشتہ صدی کے اختتام پر ایک روا دار اور طاقتور ہندوستانی سماج ایشیا میں کوئی بڑی شے بننے کی جانب گامزن تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان عدم برداشت‘ شدت پسندی اور سماج کے مختلف طبقات کے مابین جاری لڑائیوں میں الجھا ہوا تھا۔ ساری دنیا انڈیا میں موجود مواقع کی وجہ سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ دنیا کیلئے کشمیر ایک بھولا بسرا سوال بن چکا تھا‘ حتیٰ کہ انڈیا کے مرکزی علاقوں میں آباد مسلمان بھی وادی میں جاری ظلم و ستم کی جانب سے منہ موڑ کر'' انڈین ڈریم‘‘ میں اپنا حصہ ڈالنے کی جانب راغب ہو چکے تھے۔ پاکستان کو دہشت گردوں اور عدم برداشت کی جنت بنا کر پیش کرنے کا دائو خوب چل رہا تھا۔ نئی امریکی انڈین تزویراتی ساجھے داری کا جادو سر چڑھ کا بول رہا تھا۔پھر مودی آ گیا۔ کسی زمانے میں گجرات کے قصاب کے طور پر جانے جانے والے مودی نے خود کو ''انکریڈیبل انڈیا‘‘ کی علامت کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ لیکن حقیقت میں یہ صرف مارکیٹنگ کا ایک حربہ تھا‘ صرف مارکیٹنگ۔ بڑی مہارت سے مودی کا حقیقی چہرہ چھپانے کے لیے اس پر جمہوری نظریات کا رنگ روغن کیا گیا۔ مودی کے ہندوتوا کے نظریات حملہ آور ہونے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کر رہے تھے اور پھر دوسری بار منتخب ہونے کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران یہ لمحہ بھی آن پہنچا۔ پلوامہ حملے کے ڈرامے کی آڑ میں مودی نے گزشتہ برس فروری میں پاکستان پر حملے کی بڑھک ماری۔ اس نے دائیں بازو کے انتہا پسند نظریات رکھنے والے ہندوئوں کو ان کا من پسند نعرہ دے کر ان میں ایک نئی روح پھونک دی اور یہی سودا انہیں بیچ کر اس نے مئی2019ء میں انتخابات جیت لیے۔اس کامیابی نے ہندوتوا کے غنڈوں کا حوصلہ مزید بڑھا دیا اور وہ اپنی نفرت انگیز آئیڈیالوجی کی ترویج کے لیے بڑھ چڑھ کر میدان میں کود پڑے۔ اگلا مرحلہ تھا کشمیر کے نیم آزاد سٹیٹس کی واپسی کا اور اگست 2019 ء میں یہ بھی ہو گیا۔ اس کے بعد تو مودی کی ہندوتوا کی رتھ سرپٹ دوڑتی دکھائی دی۔ انڈیا کے دائیں بازو کے فاشسٹ نظریات ساری دنیا کے سامنے عیاں ہو گئے‘ حتیٰ کہ انڈیا کے اندر سے بھی فہم و دانش رکھنے والوں نے مودی کی پالیسی پر کھلے عام سوال اٹھانے شروع کر دیے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ مسلمان‘ عیسائی حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندو تک اب اپنی ریاست کو عوام دشمن سمجھتے ہیں۔
لیکن فاشسٹ مودی نے یہیں پر بس نہ کی۔اس سے اگلا پڑائو متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کا تھا۔اس قانون کے تحت انڈیا میں مسلمان تارکین وطن سے ان کی شہریت چھن گئی۔ سارے انڈیا میں لاکھوں لوگ اس قانون کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ مودی نے اپنی جماعت کے غنڈوں کوکھلی چھوٹ دے دی کہ وہ مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں دہشت زدہ کریں۔یوں انڈیا کے اندر اور ساری دنیا میں فہم و دانش رکھنے والے لوگوں نے محسوس کرنا شروع کر دیا کہ مودی نسل پرست‘ مسلمان و اقلیت مخالف ہے‘ اس کے اقدامات کے نتیجے میں سارے انڈیا میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں خصوصاً جو کچھ دہلی میں ہوا‘ لاکھوںکی تعداد میں اقلیتی آبادی (خصوصاً مسلمان) اپنے گھر بار سے محروم ہو گئے کیونکہ ہندو توا کے پرچارک غنڈوں نے ان کی املاک کو جلادیا تھا۔ ابھی مودی اپنی ان چالوں کے اثرات سے ہی نہیں نکل پایا تھا کہ کورونا وائرس انڈیا کے دروازے پر آن پہنچا اور اچانک انڈیا کی غربت‘ بے گھری‘ بے روزگاری اور کمزور سماجی ڈھانچہ ساری دنیا کے سامنے عیاں ہو گیا۔ابھی یہ سب کچھ چل ہی رہا تھا کہ مودی حکومت نے ایک اور بڑی حماقت کر ڈالی: صرف چار گھنٹے کے نوٹس پر سارے انڈیا کو بند کرنے کا فیصلہ۔ اس کے بعد جو چیز دیکھنے میں آئی وہ محنت کش طبقے کی ہجرت تھی۔ لاکھوں خاندان رہائش اور خوراک سے محروم ہو گئے‘ اور انہوں نے سارے انڈیا میں سینکڑوں میل کا سفر پا پیادہ طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ہجرت کی ویڈیوز دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسے ہجوم میں تو کورونا وائرس جنگل میں آگ کی طرح پھیلا ہو گا۔ دنیا انگشت بدنداں ہو کریہ سب دیکھ رہی تھی کہ مودی حکومت کس طرح یہ یقینی بنا رہی ہے کہ کورونا وائرس انڈیا کے غریب طبقات کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لے۔
سارے انڈیا میں کورونا وائرس کے پھیلائو کے بعد مودی کی نسلی امتیاز والی حکومت نے وہ حربہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس میں وہ ید طولیٰ رکھتے ہیں: انہوں نے اپنے مسائل کو سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈالنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اس کام کے لیے دہلی میں تبلیغی اجتماع کو ہدف بنا یا‘ جس میں شامل ہونے والوں میں سے کئی لوگوں کا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔اس کی آڑ میں مودی کی فاشسٹ حکومت نے اس وبا کا سارا الزام مسلمانوں کے سر منڈھنے کا فیصلہ کر لیا ۔دائیں بازو کا انڈین میڈیا تو اس کام کے لیے لگتا تھا تیار بیٹھا ہے‘ راتوں رات اس کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار آگیا تھا جس کی مدد سے وہ انڈیا کے باسیوں کو باہم دست و گریبان کرانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے انڈیا سے جو خبریں اور بیانیہ سامنے آ رہا ہے وہ ناقابلِ یقین ہے۔ جب مودی دوسری مدت کے لیے منتخب ہوا تو ہر کسی کو اس کا یقین تو تھا ہی کہ وہ دائیں بازو کی پالیسیاں نافذ کرے گا‘ تاہم کسی کے وہم و گمان میں بھی شاید نہ ہو کہ وہ انڈیا کو فاشزم کی انتہا پر لے جائے گا۔مودی کے فاشزم نے جمہوریت‘ آئین پسندی اور مساوات کے تمام پہلوئوں کو دائو پر لگا دیا ہے۔ بی جے پی کے سینیٹر سبرامینین سوامی کے الفاظ میں‘ جو اس نے ایک عالمی خبر رساں ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہے : ''اقلیتی آبادی انڈیا میں برابر کے شہری حقوق نہیں رکھتی۔مساوی حقوق جیسی کوئی شے نہیں ہوتی‘‘ اور یہ نقطہ نظر ہر پہلو سے سیکولر انڈیا کی موت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں