"FBC" (space) message & send to 7575

’’انڈو پیسفک‘‘ کی موت

گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کے لیے عالمی سطح اور خطے میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی کی تشکیل ایک بڑا دردِ سر بنی رہی ہے۔ گیارہ ستمبر کے تناظر اور اس کے بعد ہونے والی افغان جنگ کانتیجہ یہ نکلا کہ عالمی قوتوں نے پاکستان کوگلوبل دہشت کے عدسے سے ہی دیکھنا شروع کر دیا۔ پاکستان کو خود اپنے اندر بھی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہونا پڑا۔صورتحال اس وقت اور بھی بدتر ہو گئی جب پاکستان کے دشمنوں نے (جن کی قیادت انڈیا کر رہا تھا) واشنگٹن میں مستقل مہم چلا کر وہاں پاکستان کے بارے میں وہ ویژن راسخ کر دیا جو خود ان ملکوں میں ہمارے بارے میں موجود تھا۔ یہ کہا جانے لگا تھا کہ امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے اب پالیسی جنوبی ایشیائی یا برصغیر کے تناظر میں نہیں بنتی بلکہ واشنگٹن درجہ بدرجہ اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ پاکستان کو صرف افغانستان کے تناظر میں دیکھنے لگا تھا۔2008ء میں امریکہ کی پاکستان سے متعلق پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی اُس وقت دیکھنے کو ملی جب اس علاقے میں صدر اوباما کے نمائندہ خصوصی رچرڈ ہالبروک نے ''ایف پاک‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی تاکہ افغانستان و پاکستان کو یکساں سیاسی و عسکری صورتحال کا شکار قرار دے کر اس خطے میں ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے لیے مشترکہ پالیسی تشکیل دی جائے۔ انڈیا اب پینٹا گان کے ''کواڈلٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ‘‘ (جسے مختصراً کواڈ بھی کہا جاتا ہے) کا حصہ تھا۔2007 ء میں تخلیق پانے والے اس فورم میں آسٹریلیا‘ انڈیا‘ جاپان اور امریکہ شامل تھے۔ یہ تمام ممالک مل کر بحرالکاہل اور بحر ہند پر راج کر سکتے تھے یا کم از کم وہ اسی طرح کی منصوبہ سازی میں مصروف تھے۔
سچ کہتے ہوئے ہچکچانا نہیں چاہیے کہ اپنی ان ناکامیوں کے لیے ہم صرف انڈیا کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی پاکستانی حکومتوں کی ڈھلمل پالیسی نے بھی انڈیا کی اس کامیابی میں کردار ادا کیا۔ مشرف کے بعد کے برسوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے خارجہ محاذ پر بہت ہی آلکسی کا مظاہرہ کیا۔ ایسے حکمرانوں سے اس سے زیادہ کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی تھی جو واشنگٹن میں لابی کرنے والی فرموں کی خدمات اس لیے حاصل کرتی تھیں کہ ان کی ذاتی تشہیر و قبولیت بڑھائی جائے نہ کہ قومی مفاد کو بڑھاوا دینے کے لیے ۔ یہ سب کچھ جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں تبدیل ہوا۔ ہم سیدھی بات کرتے ہیں‘ یہ سب کچھ پشاور کے آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد بننے والی فضا میں تبدیل ہوا‘ جب پاکستان آرمی نے اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی اور اس میں کامیابی حاصل کی۔ اب ہمیں یہ احساس بھی ہوا کہ ہم عالمی سطح پر انڈیا کو کھل کھیلنے کے لیے کتنی جگہ فراہم کر چکے ہیں اور اس کے بعد عالمی سطح پر اپنی اس کھوئی ہوئی جگہ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک پالیسی تشکیل دی گئی۔خطے میں نئے اتحاد قائم کرنے کے ذریعے اور خصوصاً سی پیک منصوبے کی شکل میں۔
پاکستان خارجہ محاذ پر ابھی اپنی نئی پالیسی کے حوالے سے جھوجھ رہا تھا تو انڈیا نے اپنا عالمی ایجنڈا مزید آگے بڑھایا۔ خصوصاً اب وہ اس خطے میں خود کو امریکہ کے ''تزویراتی شراکت کار‘‘ کے طور پر پیش کر رہا تھا۔ اس بات کی تہہ میں موجود پیغام تک پہنچنے کے لیے اس بات کو دوسرے انداز میں بیان کرتے ہیں وہ اس خطے میں خود کو ایسی قوت کے طور پر پیش کر رہا تھا جو چین کے مقابل کھڑی ہو سکتی تھی اور امریکہ کے نئے تزویراتی اتحادی کے طور پر انڈیا افغانستان‘ بحرہند اور اس سے بھی آگے تک اپنے لیے مفادات کا خواہاں تھا۔اس حوالے سے ٹھوس قدم 30 مئی2018 ء کو سامنے آیا جب اُس وقت کے امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اعلان کیا کہ پینٹا گان کی پیسفک کمانڈ کو اب نئے نام ''انڈو پیسفک کمانڈ‘‘ سے پکاری جائے گی اور پیسفک یعنی بحرالکاہل میں انڈیا کو بڑا کردار سونپا جائے گا تاکہ چین کی راہ روکی جا سکے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ دہلی نے پینٹا گان کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ وہ نہ صرف بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے متوازی قوت ہے۔ مگرکیا انڈیا اس خطے میں چین کی متوازی قوت بن سکتا ہے؟ گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے ان سوالات کے جواب مہیا کر دئیے ہیں ۔ چین بھارت کی مفروضہ سرحدوں کو روندتا ہوا اس کے زیر قبضہ لداخ کے علاقے میں داخل ہو گیا اور نہایت اہمیت کی حامل پانگ گونگ ندی اور گلوان وادی پر دعویٰ کر دیا۔ اس کے جواب میں انڈیا کوئی مزاحمت نہیں کر سکا۔ انڈیا نے چوں تک نہیں کی‘ اور مزاحمت کی کوئی رمق دیکھنے کو نہیں ملی۔تازہ اطلاع کے مطابق چینی فوج کے ساتھ ٹکراؤ میں بھارت کے تین فوجی بھی مارے گئے ہیں۔دستیاب رپورٹوں کے مطابق چینی لداخ میں کسی بھی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر گھس گئے اور انہیں حقیقتاً انڈین آرمی کی جانب سے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور تب سے لے کر اب تک انہوں نے اس علاقے کی واپسی کے لیے کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ چینی اقدامات سے حوصلہ پا کر نیپال نے بھی انڈیا کی حدود میں موجود علاقے پر دعویٰ ٹھونک دیا ہے اس کے علاوہ ناگا لینڈ کے مشرقی علاقے بھی انڈیا کی گرفت سے پھسلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ صورتحال کو بد ترین بنانے والی اطلاعات یہ ہیں کہ چینی مسلسل اس خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہے ہیں اور ان کی فوجی موجودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے‘یعنی بحر ہند تک کے علاقے میں‘جس میں گوادر بھی شامل ہے‘ اب چینی اثر و رسوخ نمایاں تر صورت اختیار کر رہا ہے اور انہیں انڈیا کی جانب سے کسی بڑے چیلنج یا مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انڈیا کے نزدیک بہت سے ممالک مثلاً سری لنکا‘ میں چینیوں نے طویل مدتی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور یہاں وہ ایسے اثر و رسوخ کے حامل بن چکے ہیں کہ وہ ان علاقوں میں انڈین نیوی کی راہ روک سکتے ہیں۔
انڈیا کی جانب سے کواڈ کے اپنے شراکت داروں کو ان سب معاملات میں پھنسانے کی اب تک کی تمام کوششیں صدا بصحرا ہی ثابت ہوئی ہیں۔آسٹریلوی وزیر اعظم کو ایک بے معنی سی فون کال کے علاوہ اس خطے میں چینی اثر و رسوخ کو ''روکنے‘‘ کے لیے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کوئی بھی ٹھوس قدم اٹھانے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔اب اس ساری صورتحال میں انڈو پیسفک کے آئیڈیا کا انجام کیا ہوگا؟ واشنگٹن اور ساری دنیا میں موجود سنجیدہ پالیسی ساز حلقے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ انڈیا اگر اپنے علاقے ہی (جن پر وہ دعویٰ رکھتا ہے) چین سے واپس لینے میں ناکام ہے تو کیا اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ سائوتھ چائنا سی میں اپنے جنگی جہاز بھیجے گا؟ یا بحر ہند کے نیلے پانیوں تک انڈین جہاز پہنچ پائیں گے؟ کیا اس کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ سی پیک روٹ میں رکاوٹ ڈال سکے حالانکہ وہ سکم تک چینیوں کو محدود رکھنے میں ناکام رہا ہے؟اور اگر انڈیا چین کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتاخصوصاً اب ‘ جب امریکہ کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘تو انڈو پیسفک حکمت عملی کس کام کی ہے؟ ان حالات میں انڈیا توا مریکہ کے لیے صرف ایک بوجھ ہے۔ نہ صرف یہ چین کو روکنے میں ناکام رہا بلکہ اس نے تو اس بیانیے کی حقیقت بھی کھول کر رکھ دی ۔انڈیا کا جھوٹ پکڑا گیاہے۔ اور بغیر طاقت کا کوئی بڑا مظاہرہ کئے چین نے انڈیا کو اس کی اصل اوقات یاد دلا دی ہے‘ کہ انڈیا جنوبی ایشیا کا ایک ترقی پذیر ملک ہے نہ کہ انڈو پیسفک خطے کا ایک کھلاڑی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں