"FBC" (space) message & send to 7575

کیا فرق پڑتا ہے؟

ہر بار جب آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپ پاکستانی سیاست کی بد ترین شکل دیکھ چکے ہیں تو آپ پر انکشاف ہوتا ہے کہ نہیں اس سے بھی زیادہ مہیب معاملات منصہ شہود پر آ سکتے ہیں۔ یعنی ہر دفعہ عشق کے کچھ امتحان باقی ہوتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جمہوری لبادے کے اندر ایسا ڈریکونین ڈھانچہ چھپا ہوا ہے جس کی بنا اقربا پروری‘ بھتہ خوری‘ زمینوں پر قبضے اور سفاکانہ قتل پر رکھی گئی ہے۔ ایک جمہوری سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے کراچی میں قتل و غارت کے جو میدان گرم کر رکھے تھے وہ ایک کھلی حقیقت ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں ماڈل ٹائون سانحے جیسے واقعات دیکھے؛ تاہم یہ سب کچھ جتنا بھی بھیانک ہو اس کا موازنہ عزیر بلوچ کے کرتوتوں سے نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں ایک لمحے کو رکیے اور عزیر بلوچ کے حوالے سے آنے والی جے آئی ٹی رپورٹ کے معاملے میں پیپلز پارٹی اور علی زیدی جو سیاست کھیل رہے ہیں اُس پر نظر ایک ڈالیے۔ لیکن بھی حقیقت ہے کہ پی پی اور علی زیدی‘ دونوں میں اس حوالے سے کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا کہ عزیر بلوچ نے سینکڑوں لوگوں کو لیاری کی گلیوں میں قتل کیا اور اپنے اور اپنے پشت پناہوں کے لیے کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا اور ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضہ کیا۔
وہ حقائق جو اس جے آئی ٹی کے ذریعے سامنے آئے ہیں (یاد رہے کہ ایک جے آئی ٹی رپورٹ سندھ حکومت کی جانب سے آئی اور دوسری جے آئی ٹی رپورٹ علی زیدی کی جانب سے لائی گئی۔ کالم میں دی گئی کچھ تفصیلات علی زیدی والی رپورٹ سے لی گئی ہیں اور دفعہ 164 کے بیان میں سے کچھ واقعات شامل کئے گئے ہیں) ان کے مطابق 2009 میں ہوئے ایک پولیس مقابلے کے دوران رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد عزیر بلوچ نے اس کے گینگ کا کنٹرول سنبھالا اور اسی گینگ کے ذریعے اس نے لیاری میں دہشت کا راج قائم کیا جبکہ کچھ لوگوں نے ہتھیاروں اور پیسوں کے ذریعے عزیر بلوچ کی مدد کی۔ اس حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ (جو کوئی تیز رفتار کرائم ناول محسوس ہوتی ہے) کا طائرانہ سا جائزہ بھی یہ بات کھول دیتا ہے کہ عزیر بلوچ کو اگر پیپلز پارٹی کے کچھ کلیدی عہدیداران کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ اپنی اکثر (اگر ساری نہ بھی کہی جائیں) مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھ پاتا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے ایک اور اہم کام جو عزیر بلوچ سر انجام دیتا تھا وہ زمینوں پر قبضے کا تھا۔ اس بارے میں جے آئی ٹی رپورٹ میں خود عزیر کا اپنا بیان شامل ہے کہ کیسے اس نے بلاول ہائوس کراچی کے ارد گرد کے رہائشیوں کو ڈرا دھمکا کر مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر بیچ دیں۔ اسی رپورٹ میں عزیر بلوچ کے واسطے سے ہمیں شرجیل میمن کے کردار کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے۔ عزیر بلوچ کے اپنے اعتراف کے مطابق شرجیل میمن اکثر اسے کال کیا کرتے تھے کہ وہ طاقت سے زمین پر قبضہ کر کے بھتہ وصولی کریں‘ اس کا کچھ حصہ عزیر بلوچ رکھ لیتا‘ باقی شرجیل میمن اور ان کے سیاسی آقائوں تک پہنچا دیا جاتا تھا۔
عزیر بلوچ کیلئے سہولت کاری کیسے کی گئی اور کیسے اسے قانون اور عدالت کی گرفت سے بچائے رکھا گیا‘ ایسا کام تو پولیس کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے پولیس افسر‘ جن میں کچھ سینئر افسران بھی شامل تھے‘ اس کا ہاتھ بٹانے میں مصروف تھے۔ حقیقت میں یہ بات بہ آسانی کہی جا سکتی ہے کہ سندھ حکومت میں یہ پولیس افسران اپنی پوسٹنگ اور نوکری کے تحفظ کیلئے عزیر بلوچ کو مدد اور اس کی سرپرستی یقینی بناتے تھے۔ اس حوالے سے عزیر بلوچ نے اعتراف کیا کہ 2010 میں سی سی پی او کراچی وسیم احمد نے اسے (عزیر بلوچ) کو ایس ایس پی فاروق اعوان کے گھر آنے کو کہا‘ جہاں سی سی پی او نے اسے کہا کہ غفار ذکری اور اس کے گینگ کے افراد کو مارو۔ جواب میں عزیر بلوچ نے مطالبہ کیا کہ کلری اور بغدادی تھانے میں ایس ایچ او اس کی مرضی کے تعینات کیے جائیں اور سی سی پی او صاحب نے بڑی خوشی سے اس کی اجازت دے دی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہی وسیم احمد صاحب کو بعد ازاں زرداری حکومت نے نوازتے ہوئے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کر دیا‘ اس تعیناتی کی وجہ بطور سی سی پی او کراچی میں ان کی کارکردگی کو قرار دیا گیا۔
عزیر بلوچ ماہانہ بنیادوں پر پولیس افسران کو بھتہ دیا کرتا تھا‘ خاص طور پر ان میں وہ ادائیگیاں بھی شامل ہیں جو ماہانہ بنیادوں پر ایس ایس پی فاروق اعوان کو کی جاتی تھیں۔ یہ رقم وہ بھتہ تھا جو سارے لیاری میں پھیلے جوئے کے اڈوں سے اکٹھا کیا جاتا تھا۔ ایس ایس پی فاروق اعوان اور اس کا بھائی شہادت اعوان عزیر بلوچ کو استعمال کر کے معصوم لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان سے بھتہ لینے کے کام میں بھی ملوث تھے۔ ''بڑے صاحب‘‘ اور ان کی پارٹی کے لیے دیگر بہت سی خدمات کے عوض عزیر بلوچ کو کیا ملتا تھا؟ یقینا ایک چیز تو تھی سیاسی تحفظ۔ بے شمار پیسہ اور ان سب پر مستزاد بہت سی کلیدی پوزیشنوں پر تعیناتیاں‘ جو پیپلز پارٹی کی حکومت عزیر بلوچ کی مرضی سے کرتی تھی۔ اس حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ بتاتی ہے کہ قادر پٹیل نے آغا سراج درانی کے ذریعے محمد رئیسی کو (عزیر کی تجویز پر) ضلع لیاری کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کروایا۔ اس کے علاوہ اس کے اپنے اعتراف کے مطابق عزیر بلوچ نے سعید خان کو چیئرمین فشریز تعینات کرانے کا بندوبست کیا اور اس کے ذریعے عزیر بلوچ کو ماہانہ 20 لاکھ روپے اور ایک خاتون سیاست دان کو ایک کروڑ روپیہ ملتا تھا۔ یہ رقم اس بارہ سے پندرہ لاکھ ماہانہ کے علاوہ تھی جو ماہی گیر کشتیوں کے مختلف مالکان سے حاصل کی جاتی تھی۔
اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف موجود ہے کہ ذوالفقار مرزا اور پیپلز پارٹی کے قیادت کے مابین اختلافات پیدا ہو جانے پر آقائوں کو خوف پیدا ہو گیا کہ کہیں پارٹی لیاری میں عزیر بلوچ اور اس کی ''طاقت‘‘ سے محروم نہ ہو جائے۔ اس کے نتیجے میں عزیر بلوچ کے اپنے اعتراف کے مطابق ''سینیٹر یوسف بلوچ کے ذریعے پیغامات بھجوائے گئے کہ وہ پی پی پی کو نہ چھوڑے اور سندھ حکومت میں گریڈ ایک سے چودہ تک کی پانچ سو اسامیوں کا کوٹہ اسے الاٹ کیا گیا۔ ان میں سے 103 اسامیاں محکمہ تعلیم سندھ‘ تین سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ‘ 45 ایف سی ایس اور 45 کے ایم سی میں تھیں‘‘۔ عزیر بلوچ کے اپنے اعترافات کی روشنی میں دیکھا جائے تو کیا اس بات کی کوئی اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ جے آئی ٹی رپورٹ کون منظر عام پر لے کر آیا ہے یا اس میں موجود معلومات کیسے اکٹھی کی گئیں؟ کیا سینکڑوں افراد کو قتل کر نے کے جرم کا اعتراف کرنے والا عزیر بلوچ ہمارے نزدیک صرف اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور علی زیدی اسے ایک دوسرے پر گند اچھالنے کے لیے استعمال کریں؟ کیا اس ساری تفتیش سے صرف یہی کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہی وہ مدعا ہے جس پر بطورِ قوم ہمیں اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے یا اس رپورٹ کی روشنی میں ہم کچھ مختلف نوعیت کے سوالات اٹھا سکتے ہیں؟
کیا عزیر بلوچ نے واقعی‘ جیسا اس نے اعتراف کیا ہے‘ کراچی میں سینکڑوں لوگوں کو قتل نہیں کیا؟ کیا عزیر بلوچ نے‘ اپنے اعتراف کے مطابق‘ معصوم لوگوں سے بھتہ وصول کر کے اسے پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت تک نہیں پہنچایا؟ کیا عزیر بلوچ نے‘ اعترافی بیان میں یہ تسلیم نہیں کیا کہ اُس نے قبضہ گروپوں کو سارے سندھ میں زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے مدد فراہم کی؟ اگر ان سوالات میں سے ایک کا جواب بھی ''ہاں‘‘ میں ہے تو اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ علی زیدی کو یہ جے آئی ٹی رپورٹ کیسے موصول ہوئی یا یہ تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد کچھ لوگ کون سا جواز گھڑ کر خود کو بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں