"FBC" (space) message & send to 7575

کس گناہ کے سبب وہ قتل کی گئی؟

لاہور کی ایک موٹروے پر بچوں کے سامنے ماں کے ساتھ زیادتی کے ہولناک سانحے پر پاکستان کے لوگ جس کرب، خوف اور غصے سے گزر رہے ہیں‘ اسے کسی بھی طور لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ افسردہ تر کر دینے والی بات یہ ہے کہ اس دل دہلا دینے والے سانحے سے چند روز قبل ہی ایک اور دلخراش سانحہ ہوا کہ پانچ برس کی مروہ کو ریپ کرکے، سر پر اینٹیں مار کر‘ آگ لگا دی گئی‘ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی روایتی روش کے مطابق صرف میڈیا کو دکھانے کے لیے ڈنگ ٹپائو قسم کے 'اقدامات‘ کرتے ہی دکھائی دیے۔ متعلقہ اداروں کی ماضی میں کارکردگی کو سامنے رکھا جائے تو ایسے واقعات کے بعد میڈیا پر مچنے والی ہاہاکار اور سکرینوں پر دکھائی دینے والے تیزی طراری کا چکر پورا ہوتے ہی سب کچھ لپیٹ لپاٹ کر ماضی کے کباڑ خانے میں پھینک دیاجاتا ہے اور اس حوالے سے کوئی ادارہ جاتی اصلاح یا قانونی اقدامات نہیں ہو پاتے کہ ہم اپنے معاشرے میں بچوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے ڈھانچے میں کوئی بنیادی تبدیلی کریں۔
کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ایسے واقعات کو‘ خصوصاً مروہ کے ریپ اور اس کے قتل کے سانحے کو‘ سماجی بُنتر میں وقوع پذیر ہونے والا کوئی اکیلا دکیلا واقعہ قرار دے کر ہمیں ہماری مشترکہ ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرے۔ بچوں پر تشدد کی روک تھام پر کام کرنے والے ایک غیرسرکاری ادارے (این جی او) کے مطابق 2019 میں بچوں سے جنسی زیادتی کے دو ہزار آٹھ سو چھیالیس کیس اخبارات میں رپورٹ ہوئے۔ ان کی اوسط نکالی جائے تو یہ آٹھ کیس فی دن بنتے ہیں! اور یہ صرف وہ کیس ہیں جن کی خبر اخبارات تک پہنچی۔ اخبارات میں رپورٹ ہونے والے ان کیسوں کی شرح کو مدنظر رکھ کر آپ ایسے جرائم کی حقیقی تعداد کا خود اندازہ لگا لیں۔
افسوس کی اصل بات یہ ہے کہ اِتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کسی ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کوئی سیاسی جماعت یا ریاستی مشینری اس صورتحال کا سدباب کرنے کے لیے حرکت میں نہیں آئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سال 2020 کے پہلے نصف میں بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے کیسز کی اوسط تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ این جی او ساحل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق یہ مواد 84 اخبارات سے مرتب کیا گیا ہے، اور اس میں چاروں صوبے، اسلام آباد کی وفاقی حدود، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ جون 2020 تک بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے چارسو ستانوے کیس اخبارات میں رپورٹ ہوئے‘ 57 فیصد پنجاب میں‘ 32 فیصد سندھ اور 6 فیصد خیبر پختون خوا میں۔ یہ تازہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس عرصہ میں اسلام آباد میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے پینتیس کیس سامنے آئے۔ بلوچستان میں بائیس، آزاد جموں و کشمیر میں دس اور گلگت بلتستان میں ایک کیس سامنے آیا۔ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 5 برس سے لے کر 16-18 برس کی عمر کے حلقے میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں جنسی تشدد کا زیادہ شکار ہیں؛ لیکن 6-10 سے لے کر 11-15 برس کی عمر کے حلقے میں لڑکے اس جنسی تشدد کا زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔ رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے 62 فیصد دیہی علاقے جبکہ 38 فیصد شہری علاقوں میں رونما ہوئے۔ ان میں سے 53 فیصد لڑکیاں اور 47 فیصد لڑکے ہیں۔ کم از کم ایک سو تہتر بچوں کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ جنسی حملے کی کوششوں کے دو سو ستائیس کیس رپورٹ ہوئے‘ اور اگر یہ سب اعدادوشمار آپ کا دل بھینچ لینے کے لیے کافی نہ ہوں تو یہ بھی سن لیجیے کہ اس عرصہ میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے اڑتیس معصوم مارے بھی گئے۔
اس افسوسناک صورتحال کیلئے کئی طرح کے سماجی و قانونی نکات کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے جن میں ہمارے فرسودہ سماجی رویے، تفتیش کا ناقص ڈھانچہ اور ٹوٹا پھوٹا نظامِ عدل نمایاں ترین ہیں‘ اور بد ترین امر یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے‘ خصوصاً جب سے قصور میں زینب کے قتل کا دلخراش وقوعہ ہوا ہے‘ کسی بھی ادارے میں کسی بھی پہلو سے کوئی اصلاحاتی و بہتری کا عمل دیکھنے میں نہیں آیا اور اس کے نتیجے میں ان وحشیانہ جرائم میں ملوث لوگ اس بدتر ادارہ جاتی نظام میں باآسانی رخنے تلاش کرکے بار بار جرم کا ارتکاب کرتے نظر آتے ہیں۔
اس کی ایک مثال دیکھیے کہ ہفتے کی رات جب پنجاب حکومت نے اپنی تفتیش کا اعلان کیا تو پتا چلا کے دو مشتبہ اشخاص جو موٹروے گینگ ریپ کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہیں (اس حوالے سے سائنسی طور پر نوے فیصد یقینی صورتحال سامنے آ چکی ہے)، ان میں سے مرکزی ملزم (عابد علی نامی) 2013 میں بہاول نگر میں ایک عورت اور اس کی بیٹی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا بھی ملزم ہے؛ تاہم یہ بات بالکل قابل پیشگوئی ہے کہ وہ ہمارے تفتیشی اداروں اور ہمارے نظام عدل کو جُل دینے میں کامیاب ہو گیا ہوگا اور اس سے جرم کرنے کا اس کا حوصلہ مزید بڑھ گیا ہوگا۔ واضح طور پر ہمارے گورننس کے نظام میں ایسے افراد کا ریکارڈ مرتب کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ مختلف تھانوں اور اضلاع میں منقسم اس نظام میں ایسے مشکوک افراد کی شناخت اور ان کی سرگرمیوں کو کھوجنے کا کوئی ایک مرکزی نظام تو موجود ہی نہیں ہے‘ اور یوں عابد علی جیسے مجرم جس نے بہاولنگر میں جرم کا ارتکا ب کیا وہ باآسانی شہر بدل کر پہلے شیخوپورہ اور پھر لاہور چلا آیا‘ جہاں اس کے ماضی کے جرائم کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا اور یوں مقامی پولیس کیلئے کوئی جواز نہ تھاکہ وہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی۔
اس نااہلی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مجرمانہ غفلت ہے۔ پھر یہ فطری امر ہے کہ ایسے معاملات پر عوام شور مچاتے ہیں اور رد عمل سامنے آتا ہے۔ لوگوں میں پھیلا انتشار اور ان حوالوں سے ہونے والا احتجاج پھر سارے پاکستان کی گلیوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ کسی ایک قتل کے خلاف سامنے آنے والا ردعمل نہیں ہوتا۔ یہ ان لوگوں کی آہیں اور احتجاج ہے جو طویل عرصے سے اس ملک کے سیاسی و انتظامی عدم انصاف کا شکار ہیں۔ یہ لوگ صرف موٹروے گینگ ریپ یا مروہ کے اندوہناک واقعے پر احتجاج نہیں کرتے۔ یہ لوگ زینب کے لیے بھی احتجاج کناں ہیں۔ یہ لوگ ماڈل ٹائون میں مارے جانے والے چودہ مظلومین کے لیے، شاہزیب خان کے لیے اور قندیل بلوچ کے لیے، کوئٹہ میں عبدالمجید اچکزئی کی گاڑی تلے کچلے جانے والے کانسٹیبل کے لیے، نواز شریف کے قافلے تلے کچلے جانے والے بچے کے لیے، کوئٹہ و پارا چنار میں مارے جانے والوں کے لیے، پنجاب میں لواطت کا شکار ہونے والوں، سندھ میں تیزاب گردی اور تھر میں بھوک سے مرتے بچوں کے لیے، جوزف کالونی کے متاثرین کے لیے، کراچی میں بوری میں بند لاشوں کے لیے اور ان سینکڑوں مزدوروں کے لیے بھی نوحہ کناں ہیں جنہیں بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلا دیا گیا۔
ہو سکتا ہے ہمارے سیاسی اقتدار کی غلام گردشوں میں ان نوحہ زن عوام کی آہ و بکا کوئی اثر نہ رکھتی ہو۔ ہو سکتا ہے ہمارے گورننس کے نظام میں تلافی کی کوئی صورت نہ ہو۔ ہو سکتا ہے ہم پر خاموشی سے لمحہ لمحہ سسک سسک کر مرنے جیسا کوئی عذاب مسلط ہو۔ ہو سکتا ہے وہ چند آوازیں جو جرأتِ اظہار رکھتی ہیں وہ اس بے حس دیوار میں کوئی دراڑ نہ ڈال سکیں۔ اگر صورتحال مندرجہ بالا رخ اختیار کر چکی ہے تو پھر آئیے اپنا مقدمہ اس آخری عدالت میں پیش کریں جس سے کسی کو مفر نہیں۔ اس یوم حساب کو جس کے بارے میں کہا گیا ''اور جب اس بچی سے‘ جو زندہ دفنا دی گئی ہو‘ پوچھا جائے گا کہ کس گناہ کے سبب وہ قتل کر دی گئی۔‘‘ (قرآن81: 8-9)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں