"FBC" (space) message & send to 7575

منافقت کی سیاست

گزشتہ چند ہفتے‘ پاکستانی سیاست میں‘ انکشافی ہفتے تھے۔ ان دنوں میں ہمارے سیاسی نظام کی حقیقت طشت از بام ہو گئی اور وہ تمام حربے کھل کر سامنے آگئے جن سے کام لے کر سیاست دان ہمارے جذبات کے ساتھ کھیل کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ گزشتہ چند برس پر غور کریں تو جو چیز بالکل واضح اور شفاف طریقے سے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام‘ اس کا بیانیہ اور اس کے مقاصد اخلاقی جواز کھو چکے ہیں‘ اور یہ کہ عام لوگ جو ہمارے مروجہ سیاسی نظام کے تقدس پر یقین رکھتے ہیں‘ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔آئیے ان واقعات پر ایک نظر ڈالیں جو گزشتہ چند دنوں میں ہمارے سامنے آئے ہیں۔
جیسا کہ تمام متعلقہ فریقین نے تسلیم کیا ہے ‘ کہ اس مہینے کے آغاز میں سیاسی قیادت کو فوج کی اعلیٰ سطحی قیادت نے غیر رسمی بات چیت کیلئے بلایا تھا۔اس دعوت کی بظاہروجہ یہ تھی کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کیلئے درکار آئینی ترمیم کیلئے سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔بھارت کے ساتھ جاری کشمکش کے تناظر میں سی پیک کے گیٹ وے کومحفوظ بنانے کی خواہش منطقی ہے اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ قومی اہمیت کے معاملات پر فوج اور سیاسی قیادت مل کر ان کا حل نکالیں۔ نیشنل ایکشن پلان‘ کراچی میں امن و امان کی صورتحال اور کشمیر کے معاملات پرایسے اجلاس ماضی میں متعدد بار ہو چکے ہیں۔تاہم کچھ وجوہ کی بنیاد پر اس اجلاس میں شامل ہونے والے فریقین نے اس کو خفیہ رکھنا چاہا۔ میرے خیال میں اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ حکومت اس لیے اجلاس کو خفیہ رکھنے کی خواہاں تھی کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ لوگوں کو پتا چلے کہ ادارے قومی سلامی کے معاملے پر متحارب سیاسی فریقوں سے رابطے میں ہیں۔عسکری قیادت اس لیے اس اجلاس کا راز افشا نہیں کرنا چاہتی تھی کہ سیاسی /پارلیمانی امور میں ان کی عدم مداخلت کے بیانیے کو اس سے زک پہنچتی تھی اور حزب اختلاف‘ جو حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے سے کبھی نہیں چوکتی‘ وہ اس اجلاس کے بارے میں اس لیے بات نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اس کا بیانیہ اس سے متاثر نہ ہو۔لیکن بظاہر ‘ اب سامنے آنے والے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ دورانِ اجلاس عسکری قیادت نے حزبِ اختلاف سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی مجوزہ کل جماعتی کانفرنس ملتوی کر دیں اور اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم وہ اس کانفرنس کے دوران ریاست مخالف بیانیے کی ترویج بالکل نہ کریں۔ مندرجہ بالا تجاویز پر حزب اختلاف کے رہنمائوں نے کیا ردعمل دیا یہ واضح نہیں‘ تاہم 17ستمبر کو پاکستان بار کونسل کی میزبانی میں اور بعد ازاں 20ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سرکردگی میں ہونے والی ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں ہم نے دیکھا کہ نہ صرف حکومت بلکہ قومی اداروں کو بھی شدت سے نشانہ بنایا گیا۔
اس کانفرنس کے بعد مریم نواز نے بیان دیا کہ وہ اس خیال کی مخالف ہیں کہ سیاسی قیادت عسکری قیادت سے ملاقاتیں کرے‘خصوصاً اس ماحول میں۔ اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ مریم نواز نے اپنی جماعت کے صدر اور سیاسی اتحادیوں کے مؤقف کے خلاف واضح پوزیشن اختیار کی‘ لیکن بعد میں یہ بات کھل گئی کہ سچ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔فوج سے ملاقات کرنے والی سیاسی قیادت پر تنقید کرنے والی مریم نواز کے بیان کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان سامنے آیا کہ محمد زبیر نے آرمی چیف سے دو بار ملاقات کی اور ان ملاقاتوں میں سیاسی و قانونی معاملات زیر بحث آئے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ملاقاتیں ''این آر او‘‘ حاصل کرنے کے لیے تھیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق‘ اس کے جواب میں آرمی چیف نے (ڈی جی آئی ایس آئی بھی اس موقع پر موجود تھے) محمد زبیر کو بتایا کہ مریم اور ان کے والد کے سیاسی معاملات پارلیمان میں جبکہ ان کے قانونی مسائل عدالتوں میں ہی حل ہوں گے۔ جوبھی ہو آرمی کو اس طرح کے معاملات میں گھسیٹا نہیں جانا چاہیے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے انکشاف نے مسلم لیگ (ن) کے سویلین بالادستی کے بیانیے کے نیچے سے زمین کھینچ لی اور مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے خاص طور پر اور لوگوں نے بالعموم یہ سوال پوچھنا شروع کر دیا کہ جب پردوں کے پیچھے نواز لیگ کے سویلین سپرمیسی کے چیمپئن ''ڈیل ‘‘ کرنے کیلئے بے چین ہیں تو ایسے میں نواز شریف اور ان کی بیٹی کیوں انہیں اکساتے ہیں کہ وہ اداروں سے ''لڑیں‘‘؟ کیوں یہ لوگ اپنے کارکنان کو مشکلات میں دھکیلتے ہیں‘ صرف اس لیے کہ اپنی عوامی حمایت کو اپنے ذاتی/مالی فائدے کے لیے استعمال کر سکیں؟ لوگوں کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کا مقصد کیا ہے جبکہ پردوں کے پیچھے خود انہی اداروں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کاوشیں ہو رہی ہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہمارے سیاسی نظام میں سچائی اور اخلاقیات کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے۔ جب مریم نواز بیان دیتی ہیں کہ ''پاکستان سے باہر کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں‘‘ تو لوگ اسے ہضم کر لیتے ہیں اور ان کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ جب نواز شریف پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے اپنے اثاثوں کے بارے میں جواز دیتے ہیں اور بعد ازاں سپریم کورٹ میں اسے ایک ''سیاسی تقریر‘‘ کہہ دیتے ہیں تو بھی ان کے حامی ان کو معاف کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب جعلی ٹرسٹ ڈیڈ‘ جو ایسے فونٹ میں لکھی گئی جو اُس معاہدے کے وقت دستیاب ہی نہ تھا‘ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں پیش کی جاتی ہے‘ تب بھی لوگ یہ بات کسی نہ کسی طرح ہضم کر جاتے ہیں۔ جب شہباز شریف اعلان کرتے ہیں کہ وہ زرداری کو گھسیٹیں گے اور بعد ازاں اپنے ذاتی احتساب سے نجات پانے کیلئے ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں‘ تب بھی لوگوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جب آصف زرداری اور فریال تالپور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا عزیر بلوچ سے کوئی تعلق نہیں‘ حالانکہ تمام ثبوت و شواہد اِن تعلقات کو ثابت کر رہے ہیں‘ تب بھی ایک کے حامی اس حقیقت سے منہ موڑ لیتے ہیں‘جب رائو انوار رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے تو پی پی پی کی قیادت اس سے تعلقات سے انکار کر دیتی ہے‘ وہ جنہوں نے ''عمران زرداری بھائی بھائی‘‘ کی مہم چلائی تھی‘ اب خود آصف زرداری اور ان کے درباریوں کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ جنہوں نے بلدیہ فیکٹری جلائی وہ اب بھی حکومت کے اتحادی ہیں۔جن لوگوں نے پاکستان مخالف نعرے لگائے وہ بھی اقتدار میں آ چکے ہیں۔ ماڈل ٹائون کے چودہ شہدا آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ عابد باکسر اور اس کے سیاسی سرپرستوں کو کوئی سزا نہیں ملی۔ سینکڑوں بچے زیادتی کا نشانہ بن گئے‘ لیکن یہ معاملہ ہمارے سیاسی افق پر کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اور موٹر وے ریپ کیس کا مرکزی ملزم‘ ابھی تک پکڑا نہیں گیا ۔
سچ تو یہ ہے کہ ہماری گورننس‘ سیاسی‘ عدالتی نگرانی کا نظام‘ کچھ بھی درست طور پر کام نہیں کر رہا۔ سیاست اورگورننس کا عوامی معاملات سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ یہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا مقابلہ ہے‘ جس میں کسی کا دامن صاف نہیں۔ وہ واحد معاملہ جس پر سیاستدان یک جا ہوتے ہیں وہ ان کی ذاتی سلطنتوں کی حفاظت کا معاملہ ہے‘ سیاسی تقاریر‘ انتخابی وعدے‘ نظریاتی اعتقادات اور اخلاقیات کی ہماری سیاست میں کوئی گنجائش نہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما یہ حقیقت بھانپنے میں ناکام ہیں کہ اس ملک کے لوگ ان کے اصل چہرے دیکھ سکتے ہیں اور اس عمل میں انہیں یہ علم بھی ہو جاتا ہے کہ ہمارے آئینی‘ جمہوری وعدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ یہ اپنی افادیت اور قانونی جواز کھو چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایک نئے نظام سے اس کو بدلا جائے تاکہ بہتر گورننس اور نئی قیادت سامنے آ سکے۔ دوسری صورت میں‘ عوام کے پاس دوسری چوائس نہیں رہے گی‘ سوائے اسکے کہ وہ اقتدار کی غلام گردشوں میں گھس جائیں اور اپنا حق طلب کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں