"FBC" (space) message & send to 7575

نئے پاکستان کا بیانیہ

گزشتہ دِنوں پاکستانی میڈیا پر نواز شریف اور ان کے ہمنوائوں کا خود شکستگی والا بیانیہ چھایا رہا‘ ایسے میں پاکستان کے ''عالمی بیانیے‘‘ خصوصاً انڈیا کے حوالے سے ہونے والی کایا کلپ دیکھنے کو ملی۔ خاص طور پر اس کا اظہار وزیر اعظم کے قومی سلامتی اور سٹریٹیجک پالیسی پلاننگ کے لیے معاون خصوصی ڈاکٹر معید یوسف کے دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو سے ہوا۔ اس میں انہوں نے پاکستان کے اس نئے اور جرأت مندانہ جوابی بیانیے کی بخوبی وضاحت کرتے ہوئے دو دہائیوں سے دونوں ممالک کے مابین موجود مسائل کے بارے بیان پر انڈیا کی اجارہ داری کو توڑ دیا۔
اس حوالے سے ڈاکٹر معید یوسف نے پاکستانی موقف کی تشریح کے لیے بالکل 'صحیح‘ فورم چنا۔ انہوں نے یہ انٹرویو انڈیا کے معتبر اخبار نویس کرن تھاپر کو دیا‘ جن کو ساری دُنیا میں دیکھا جاتا ہے۔ کرن تھاپر کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو یہ پہلی بار تھا کہ ''اگست 2019 میں (مقبوضہ) کشمیر میں کی جانے والی آئینی تبدیلیوں کے بعد پاکستانی سرکار کا کوئی نمائندہ‘‘ انڈین میڈیا سے بات چیت کر رہا تھا۔ اس جملے سے ہی آپ اس لمحے کی اہمیت جان سکتے ہیں خاص طور پر اس حوالے سے کہ یہاں پاکستان ایک نئے ''پالیسی‘‘ مقصد کا تعین کر رہا تھا، انڈیا کے مقابلے میں کھڑا ہونا۔
ایمانداری کی بات یہ ہے کہ جب اِس قسم کی صورتحال پیدا ہو تو پاکستان میں مشاہدہ کرنے والے اصحاب بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جب پاکستانی حکام سے بھارتی (یا عالمی میڈیا) نے انٹرویو کیا اور اس کے نتیجے میں اس ملک کے حصے میں مزید شرمندگی ہی آئی۔ اس پس منظر میں کرن تھاپر کے ساتھ ڈاکٹر معید یوسف کی بات چیت کا اعلان ماضی قریب سے واقف لوگوں کیلئے بے چینی کا سبب بننا ہی تھا؛ تاہم روایت کے برخلاف اس انٹرویو نے ''نیا‘‘ پاکستان کے کرارے اور جرأت مندانہ بیانیے کو آشکار کیا، جو علاقائی دہشتگردی کے حوالے سے انڈیا کی منافقت کا پردہ چاک کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن کیلئے درکار اقدامات کا احاطہ بھی کرتا تھا۔ خوشگوار امر یہ تھا کہ اس انٹرویو میں باہمی مسائل کے حوالے سے روایتی پسپائی، علاقے میں جاری تشدد کے حوالے سے معذرت خواہانہ جواز تراشی، کشمیر کے حوالے سے بزدلی یا افغانستان کے حوالے سے آزمائش کا شائبہ تک دکھائی نہ دیا۔ مختصر یہ کہ یہ انٹرویو اس بیانیے سے بالکل مختلف تھا جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں پاکستان کی جانب سے دیکھنے کو مل رہا تھا۔
انٹرویو کا آغاز کشمیر سے ہوا اور تھاپر نے پوچھا کہ انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو ''عالمی آئینی تبدیلیاں کی ہیں ان پر پاکستان اس قدر ہیجان‘‘ کا شکار کیوں ہوا؟ پُرجوش و تیار ڈاکٹر معید یوسف نے نشاندہی کی کہ کیسے انڈیا نے کشمیر میں ''اپنے ہی خلاف گول‘‘ کر لیا ہے اور یہ کہ اگست 2019 کے اقدامات نہ صرف کشمیریوں کی طویل مدتی منشا کے خلاف ہیں بلکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں، باہمی معاہدوں اور عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہیں‘ اور کشمیر میں انڈیا کے پیداکردہ عدم استحکام کے نتیجے میں‘ جسے کشمیر کی مقامی قیادت نے بھی مسترد کردیا‘ آج انڈیا دنیا کے سامنے ایک ''بدمعاش ریاست‘‘ بن کر کھڑا ہے۔
اگلی بات: کلبھوشن یادیو۔ میزبان، کرن تھاپر، نے الزام لگایا کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر من و عن عملدرآمد نہیں کر رہا۔ اس سوال کیلئے تیار ڈاکٹر معید نے نشاندہی کی کہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ پاکستان کو تین کام کرنے کو کہتا ہے: 1) قونصلر رسائی؛ 2) سزا پر نظرثانی اور اس کا دوبارہ جائزہ؛ 3) اس وقت تک سزا پر عملدرآمد معطل کرنا۔ پاکستان نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ یادیو کو وقت مقررہ پر پھانسی نہیں دی گئی۔ بغیر کسی ''روک ٹوک‘‘ دو بار اسے قونصلر رسائی فراہم کی گئی جبکہ تیسری ملاقات کیلئے پیشکش ''طویل مدت سے موجود‘‘ ہے (جو یادیو کرنا نہیں چاہتا‘ اس کے بجائے وہ رحم کی اپیل کرنا چاہتا ہے) اس کے علاوہ پاکستان نے ایک خصوصی قانون بنایا جس کی تحت اس کی سزا پر اپیل کی موثر سماعت ممکن ہو سکے۔ اس کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی اپیل متعلقہ ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے اور اس التوا کی ذمہ داری انڈیا پر عائد ہوتی ہے جس نے ابھی تک پیروی کیلئے وکیل کی تقرری نہیں کی۔ ڈاکٹر معید نے نشاندہی کی کہ قانونی عمل مکمل کرنے میں رکاوٹ انڈیا ہے‘ جو اس خطے میں دہشتگردی کی سرپرستی کرتے ہوئے ''رنگے ہاتھوں پکڑا گیا‘‘ اور جتنے مرضی ''پینترے‘‘ بدلے جائیں یہ حقیقت اب چھپ نہیں سکتی۔
اگلی بات: ممبئی حملہ اور پاکستان کی اس واقعے میں مبینہ شمولیت۔ کرن تھاپر نے بارہا اصرار کیا کہ اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث لوگوں کو ابھی تک سزا نہیں سنائی گئی۔ اس کے ردعمل میں ڈاکٹر یوسف نے نشاندہی کی کہ ان کیسز کے منطقی انجام تک پہنچنے اور مبینہ طور پر ملوث اشخاص کی سزائوں میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کا عدم تعاون ہے‘ جس نے پاکستان کی جانب سے بارہا درخواستوں کے باوجود درکار ثبوت مہیا کرنے سے انکا ر کیا یا تاخیر کی، ان ثبوتوں کی عدم دستیابی ان مقدمات کے منطقی انجام تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ ہے، اور اس تاخیر و انکار کی وجہ یہ ہے کہ بھارت اس معاملے کو ''زندہ‘‘ رکھنا چاہتا ہے۔
خطے میں سرحد پار دہشتگردی کے نکتے پر ڈاکٹر یوسف نے (پہلی بار) حیران کن باتیں کیں۔ انڈیا کے ''یکطرفہ‘‘ پروپیگنڈا کو رد کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ (1) تحریک طالبان کا چار دوسری دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ انضمام ہوا تاکہ پاکستان میں دہشتگردی پھیلائی جا سکے‘ اس کیلئے سرمایہ افغانستان میں موجود ''انڈین سفارت خانے‘‘ نے مہیا کیا۔ (2) ملک فریدون جو آرمی پبلک سکول پشاور پر ''حملے کا ماسٹر مائنڈ‘‘ تھا اور حملے کے وقت جلال آباد میں موجود تھا اس وقت بھی ''انڈین قونصلیٹ‘‘ سے رابطے میں تھا جب حملہ جاری تھا۔ بعد ازاں اس کا دہلی میں علاج کیا گیا‘ اور یہ کہ پاکستان کے پاس حملہ آوروں کی ''آٹھ ایسی کالوں کا ریکارڈ موجود ہے‘‘جو انہوں نے اپنے ہینڈلرز کے نمبروں پر کی تھیں۔ (3) انڈیا ''افغانستان میں موجود تھنک ٹینکس کو استعمال کرکے بلوچستان کے شورش پسندوں کو پیسہ دیتا ہے،‘‘ اور اس عمل میں وہ افغان حکومت کو بھی بدنام کرتا ہے۔ (4) ''بی ایل اے کمانڈر‘‘ اسلم اچھو‘ جو کراچی کے چینی قونصلیٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا‘ ''براہِ راست را کے اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں تھا،‘‘ اور اس کی بیماریوں کا علاج دہلی میں ہوتا رہا۔ (5) گوادر کے پی سی ہوٹل پر حملہ آور ہونے والا شخص حملے کے دوران ''را کے اپنے ہینڈلرز‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھا۔
آخری بات: انڈیا پاکستان تعلقات میں پیش قدمی۔ باہمی تعلقات کے قلب میں دو مسائل ہیں۔ دہشتگردی‘ مسئلہ کشمیر۔ تو ڈاکٹر معید کے بقول باہمی تعلقات میں بہتری کی جانب بڑھنے کیلئے پاکستان کی دو شرائط ہیں: 1 ''پاکستان کے خلاف دہشتگردی روکی جائے۔ 2 ''کشمیر کا فوجی محاصرہ ختم کیا جائے‘ ڈومیسائل قانون واپس لیا جائے‘‘ اور یہ کہ ''کشمیریوں‘‘ کو بہرحال اس عمل کا حصہ بنایا جائے‘ اور ان چیزوں پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔
قومی سلامتی پر وزیر اعظم کے مشیر کا یہ انٹرویو خطے میں انڈیا کی پھیلائی گئی دہشتگردی کے حوالے پاکستانی نقطہ نظر کو صراحت سے پیش کرنے والا دو دہائیوں میں پہلا انٹرویو تھا۔ اس سے عالمی تعلقات کی غلام گردشوں میں جارحانہ سفارتی عہد کا ایک نیا دور طلوع ہوا‘ اور اس کیلئے پی ٹی آئی حکومت، ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور قومی سلامتی کے افسر اعلیٰ، ڈاکٹر معید، قابل تعریف ہیں۔ یہ نیا پاکستان ہے۔ وہ پاکستان جو عالمی سطح پر نکو بن کر نہیں رہے گا۔ ایسا ملک جس کے گلے میں دہشتگردی کا طوق ڈال دیا گیا۔ ایسا ملک جو اپنے نقطہ نظر اور اپنی کامیابیوں پر بنا خوف و خطر ڈٹ جائے۔ اللہ کرے یہ پاکستان اس جیو سٹریٹیجک عہد میں کامیابی سے آگے بڑھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں