"FBC" (space) message & send to 7575

تبدیلی کی ہوائیں

ریاستہائے متحدہ امریکہ میں قیادت کی تبدیلی پوری دنیا میں اپنا رنگ ظاہر کرنے لگی ہے۔ الگ تھلگ رہنے کو پسند کرنے والے اپنے پیش رو سے جوہری تفریق کرتے ہوئے نئے صدر جو بائیڈن نے اپنے (نرم اور سخت) اثر کو اپنی سرحدوں سے باہر تک پھیلانے کا عزم کر رکھا ہے۔ ٹرمپ کے بعد کا امریکہ بین الاقوامی سٹیج پر کتنا موثر ہو گا، یہ دیکھا جانا ابھی باقی ہے‘ تاہم مشرق میں چین اور روس کے ابھر کر سامنے آنے کے ساتھ، یہ امکان نہیں رہا کہ عالمی سطح پر طاقت کی سیاست میں واشنگٹن ویسے ہی تسلط اور غلبے سے لطف اندوز ہوتا رہے گا‘ جیسا دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد سے وہ ہوتا آیا ہے۔
لیکن امریکہ اگر عالمی سیاست میں ماضی کی اپنی عظمت کی بلندیوں کو دوبارہ حاصل کرنے سے قاصر رہا تو پھر بھی مستقبل قریب میں اس کا اثر و رسوخ نظر انداز کرنے والا نہیں ہو گا‘ خاص طور پر ان ممالک اور حکومتوں کے لیے جنہوں نے اپنی ساری بوگیاں ٹرمپ کی بینڈ ویگن کے ساتھ منسلک کر رکھی ہیں‘ یعنی نیتن یاہو کا اسرائیل، مودی کا بھارت‘ اور محمد بن سلمان کا سعودی عرب۔ آئیے اس دعوے کا مزید تجزیہ کرتے ہیں۔
'ہاودی مودی‘ اور 'نمستے ٹرمپ‘ مہم پہلے ہی مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔ بھارت کے سکھ کسانوں، دلتوں اور تارکین وطن سے متعلق انسانی حقوق کی پامالیوں میں امریکی محکمہ خارجہ کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ کشمیر کے بارے میں بائیڈن کے انتخابی بیانات نے مودی‘ شاہ‘ ڈوول‘ تینوں کی باتوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ یوگا کے اسباق کی جگہ 'اکھنڈ بھارت‘ بنانے کے بیانات نے لے لی ہے۔ اقلیتوں کے خلاف زیادہ جامع موقف کے اظہار نے بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی جگہ لے لی ہے۔ کشمیر میں انٹرنیٹ اور میڈیا کا رابطہ آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے‘ اور چین کے ہاتھوں جانوں و زمین کا نقصان اٹھانے کے بعد بائیڈن کی جانب سے مدد کی کوئی امید پیدا نہ ہونے پر بھارتی فوج نے پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر 2003 کے سیزفائر معاہدے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسرائیل میں، ابراہام معاہدوں‘ جن کے تحت مسلم مشرق وسطیٰ فلسطینی شہدا کی قبروں پر پائوں رکھتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے والا تھا، کی باتیں عوامی میڈیا سے غائب ہو چکی ہیں۔ اپنے اوپر لگنے والے جرائم کے الزامات اور دوبارہ انتخاب کے معاملات کی وجہ سے نیتن یاہو کا اپنا مستقبل یقینی نہیں رہا ہے۔ جیرڈ کشنر کی عدم موجودگی میں اور پردے کے پیچھے سے ٹرمپ کی جانب سے فراہم کی جانے والی مدد کے بغیر اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ نیتن یاہو زیادہ دیر تک اپنی صہیونی برانڈ سیاست چلا سکیں گے۔ وہ لوگ تو پہلے ہی ٹرمپ پر شرط (دائو) لگانے کے اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں‘ جنہوں نے ابراہام معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ متحدہ عرب امارات کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کے لیے ابراہام معاہدوں کی غیر تحریر شدہ شرط... یعنی امریکہ کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو ایف 35 ریپٹرز جیٹ طیاروں کی فروخت... پر صدر جو بائیڈن پہلے ہی نظر ثانی کر رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ گہرا دھچکا لگاتے ہوئے صدر بائیڈن نے اسرائیل، متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب سے پوچھے بغیر ایران سے سلسلہ جنبانی شروع کر دیا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
لیکن واقعات کا سب سے ڈرامائی موڑ، جس کے مشرق وسطیٰ پر تباہ کن اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے، صدر بائیڈن کا جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سی آئی اے کی رپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ ہے۔ یاد رہے کہ جمال خاشقجی کو 2018 میں ترکی میں سعودی قونصل خانے کے دورے کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کی تفصیلات‘ جن کے مطابق ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے تھے اور جو پھر کبھی بازیافت نہیں ہو سکے‘ انتہائی بھیانک ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ واقعات سعودی قونصل خانے میں پیش آئے، جن کے نتیجے میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے بہت زیادہ چیخ و پکار کی گئی‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ در حقیقت، گزشتہ دو سے زیادہ برسوں کے دوران بین الاقوامی برادری میں سے بہت سوں نے ماضی کا سفر کیا‘ یہ جاننے کے لیے کہ خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا‘ اور اس کے قتل کا حکم کس نے دیا تھا۔
جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کا بطور صدر انتخاب ہوا تو وہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی تیار کردہ خاشقجی رپورٹ جاری کر دیں گے‘ اور گزشتہ ہفتے جمعہ کے روز سعودی شاہ سے فون پر بات کرنے کے بعد، صدر بائیڈن نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دیا۔
کئی بڑے حصوں پر مشتمل اس جاری کردہ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ''سعودی عرب کے ولی عہد نے استنبول‘ ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کو پکڑنے یا قتل کرنے کیلئے ایک آپریشن کی منظوری دی تھی‘‘۔ وہاں کیا ہوا ہو گا یہ سمجھنا آسان ہے اور واضح بھی۔اب سوال یہ ہے کہ اس سے آگے حالات و واقعات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں؟ اس حوالے سے تین ممکنہ منظرنامے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں ڈویلپ ہو سکتے ہیں۔
پہلا منظرنامہ: کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دونوں سٹریٹیجک شراکت داروں‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کچھ کشیدہ ہو جاتے ہیں، لیکن اس سے خاطر خواہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ تمام فریق اسے خاشقجی کی داستان کا آخری باب بننے دیتے ہیں۔ امکان تو نہیں کہ ایسا ہو، لیکن ایسا ہو بھی سکتا ہے۔
دوسرا: دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے کہ متعلقہ شخص کا ولی عہد رہنا اب مملکت کے مفاد میں نہیں ہے۔ بادشاہ اپنے جانشین کے انتخاب پر از سرِ نو غور کرے۔
تیسرا:اسرائیل ایم بی ایس پر یہ نیا دباؤ ابراہام معاہدوں پر سعودی عرب کے دستخطوں پر گفت و شنید کے لیے استعمال کرتا ہے اور اگر سعودی عرب اس کی اس التجا کو تسلیم کر لیتا ہے تو بدلے میں، اسرائیل ایم بی ایس کو ضمانت دینے کے لیے واشنگٹن میں (اور دنیا بھر میں کہیں بھی) اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے۔ مسلم دنیا کے نقطہ نظر سے یہ بد ترین ممکنہ نتیجہ ہو گا‘ کیونکہ اس کی وجہ سے فلسطینی کاز کو بری طرح گزند پہنچے گا اور فلسطینیوں کی 80 سالہ جدوجہد کمزور پڑ جائے گی۔
بین الاقوامی طاقت کی سیاست میں یہ ہنگامہ خیز زمانہ ہے۔ بہت سے لوگوں کا استدلال ہے کہ ہم ایک ''نیا عالمی نظم‘‘ تشکیل دے رہے ہیں۔ ایک ایسا نظم جو یک قطبی نہیں ہے، نہ ہی اس کا جھکائو مغرب کی جانب ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک کثیر قطبی معاشرہ ہو گا جس میں طاقت کا توان بھی متوازن ہی ہو گا
ان حالات میں، پاکستان کو محتاط انداز میں قدم آگے بڑھانا ہوں گے، اور اکیسویں صدی کے نئے میٹرکس کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں اپنے گہرے تعلقات کو توازن بخشنا ہو گا۔ ہم اپنے آپ کو مشرق، مشرق وسطیٰ اور مغرب کے مابین ایک پُل کی حیثیت سے رکھ سکتے ہیں، جو معلومات، سامان، خدمات اور سرمائے کے تبادلے کے لیے ایک راہ داری مہیا کرتا ہو‘ لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہو گا جب سب سے پہلے چھوٹی موٹی سیاست سے اپنی جان چھڑا لی جائے اور قومی توجہ حاصل کی جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں