"FBC" (space) message & send to 7575

آنے والی جنگ؟

کورونا وائرس کے اس غیریقینی دور میں ایک چیز ایسی ہے جس پر کچھ یقین کے ساتھ زور دیا جا سکتا ہے۔ ایک نئی جنگ، ایک نئی گریٹ گیم‘ ایک نیا عالمی نظم جیسے معاملات تو پہلے ہی موجود ہیں۔ آنے والے مہینوں اور سالوں میں جنوبی ایشیا، بشمول بحرالکاہل، وہ ممکنہ میدان ہوگا جہاں اگلی گریٹ گیم کھیلی جائے گی۔ جدید تاریخ، اس کے اتحاد اور اس کے فلیش پوائنٹس صرف سو سال پر محیط ہیں۔ بیسویں صدی کے موڑ پر دنیا ایک ناقابل شناخت‘ مختلف جگہ تھی۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ واضح طور پر آسٹروہنگیرین ایمپائر، برطانوی سلطنت، خلافتِ عثمانیہ، اور اقتدار کے فرانسیسی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ روس، چین، یہاں تک کہ امریکہ بھی، عارضی اہمیت کے حامل ان بکھرے ہوئے اتحادوں کے ساتھ ملوث تھے‘ لیکن صرف سرحدوں کے کناروں تک۔ پہلی جنگ عظیم نے پرانے عالمی نظم کو مکمل طور پر ختم کر دیا لیکن 'ایجنڈا‘ ابھی نامکمل تھا۔ جرمنی نے اپنی فوجی طاقت کا کچھ حصہ برقرار رکھا۔ جاپان کا حجم کم نہیں کیا گیا تھا‘ اور مغربی نصف کُرّے پر امریکی تسلط تب اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔ اس نامکمل ایجنڈے کی وجہ سے دنیا کو ایک بار پھر جنگ کا سامنا کرنا پڑا، دوسری جنگ عظیم۔ یہ کہیں زیادہ فیصلہ کن تھی۔ اس بار جرمنی اور جاپان کی شکست 'غیر مشروط‘ تھی۔جنگ کی بربادیوں کے ڈھیر پر کی گئی تقسیم کے نتیجے میں جدید مشرق وسطیٰ نے جنم لیا۔ اس جنگ نے امریکہ کو مغرب میں بھی ایک غالب طاقت بنا دیا اور اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ جیسے اداروں کی تشکیل ہوئی۔
مغرب نے اپنی فتح کا جشن تو منایا، اپنی خواہش کے مطابق بین الاقوامی سرحدوں کی تشکیلِ نو بھی کی‘ لیکن لوہے کا پردہ سوویت یونین کے جھنڈے تلے یورپ کے آدھے حصے پہ پڑ گیا۔ اس بار، تمام بڑے فوجی اسلحہ خانوں میں جوہری طاقت کی موجودگی کے ساتھ ایک 'آل آؤٹ‘ صورتحال کسی کے مفاد میں نہیں تھی۔ اس کے بجائے معاشی آلات، بین الاقوامی تجارتی بلاکس اور کوریا، ویتنام اور افغانستان میں پراکسی جنگوں کے ذریعے ایک 'سرد جنگ‘ لڑی گئی۔1980 کی دہائی کے دوران افغانستان میں سوویت افواج کی شکست، اور نومبر 1991 میں دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور ایک یک قطبی دنیا کی شروعات ہوئی۔ رومن سلطنت کے خاتمے کے بعد سے پہلی بار پوری دنیا پر امریکہ کا 'غلبہ‘ ہو گیا۔ 1990 کی دہائی کے دوران غیرمعمولی واقعات نے امریکہ کیلئے بلاتعطل آسودگی کا آغاز کردیا۔ اس کی فوجی طاقت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا‘ اس کی معاشی رسائی بلا روک ٹوک تھی اور اس کا سیاسی سرمایہ لامتناہی لگ رہا تھا۔
بہت سے ممالک‘ جنہوں نے پہلے سوویت بلاک کا ساتھ دیا تھا، نے اپنی وفاداری کو تبدیل کرنا شروع کر دیا‘ اور ان میں پہلا بھارت تھا۔ 1990 کی پوری دہائی کے دوران بھارت نے اپنے بین الاقوامی موقف کو امریکہ کے ساتھ منسلک کرنے پر کام کیا‘ اور نائن الیون کے بعد، جب امریکہ نے افغانستان میں اپنی یک قطبی طاقت آزمانے کا فیصلہ کیا تو بھارت امریکی کیمپ میں شامل ہو گیاتاکہ وہ خود کو جنوبی ایشیا اور اس سے آگے کے علاقوں تک امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر بنا سکے۔ امریکی سپانسرشپ کے تحت بھارت نے خود کو خطے میں چین کے مقابل دیکھنا شروع کیا‘ اور اس عمل میں، اس نے پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی اور اسے عالمی دشمن نمبر1 کی حیثیت سے پینٹ کیا۔ درحقیقت، کچھ سال پہلے، اس حکمت عملی نے باضابطہ طور پر امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کر دی تھی، جس میں 'ایف پاک‘ کو ایک خطہ قرار دیا گیا، جبکہ چین کا مقابلہ کرنے پر مرتکز 'انڈوپیسیفک‘ پالیسی میں بھارت کو سٹریٹیجک پارٹنر بنا لیا گیا تھا۔ اس حکمت عملی نے تقریباً دودہائیوں تک بھارت کیلئے غیرمعمولی حد تک بہترین کام کیا۔
امریکہ کے ساتھ اپنی سٹریٹیجک پارٹنرشپ کے نشے میں چور، اور مسلم دنیا کی ناقص قیادت (بشمول پاکستان کی کئی دہائیوں کی تنہائی) سے دلیری پاکر بھارت نے پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کرکے، افغانستان کی این ڈی ایس کے اندر تک رسائی حاصل کرکے، اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو کالعدم قراردے کر ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیا؛ تاہم، حال ہی میں، کچھ غیرمعمولی ہونا شروع ہوا ہے۔ جب چین ابھرکر سامنے آیا اور روس میں ایک متحد روس ولادیمیر پوٹن کی قیادت میں اپنی طاقت مجتمع کرنے لگا تو امریکہ کی یک قطبی دنیا کا سحر ٹوٹنے لگا۔ دوست اور دشمن، جو ایک یک قطبی دنیا کے تحت زندگی گزار رہے تھے، اب ان کے پاس دوسرے بین الاقوامی آپشنز بھی آگئے‘ جن کی طرف وہ متوجہ ہوسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں امریکہ شام، لبنان اور خلیج کی ایمپائرز کے بڑے حصوں میں وہ تبدیلیاں نہ لا سکا‘ جو وہ لانے کا خواہشمند تھا۔ شاید انتہائی فیصلہ کن طور پر اب افغانستان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے ایک نئی صورتحال کا باعث بن رہا ہے۔ یہاں امریکی اتحادیوں سے مراد بھارت ہے۔ یہاں تک کہ جب امریکہ کی غیر متزلزل سیاسی طاقت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی تو بھی سب سے بڑی فوجی طاقت ہونے کا اس کا واہمہ قائم رہا۔ ''دنیا میں سب سے بڑی اور اب تک کی بہترین‘‘ فوجی سلطنت (صدر ٹرمپ کا بیان) کے اس نظریے کی بنیاد پر امریکہ نے ایران کو بھی جنگ میں الجھانے کی کوشش کی۔ کیسے؟ پہلے اس نے دہران میں آرامکو تنصیبات پر حملے کے بعد سعودیہ اور ایران کے مابین فوجی تنازع کے خدشات کو بڑھاوا دیا‘ اور جب یہ حربہ کامیاب نہ ہوا تو، امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کی بلاجواز شہادت کے ذریعے ایران پر براہ راست حملہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ امریکہ کو اس کی بالکل توقع نہیں تھی۔ امریکہ کے اس اقدام نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کو مستحکم ہونے کے بجائے کمزور کر دیا‘ یوں اس خطے کے ممالک متبادل اتحادیوں (جیسے چین اور روس) کی طرف دیکھنے لگے۔
کووڈ19 کی آمد ہوتی ہے۔ تبدیلی کی ان آندھیوں کے بیچ، جب دنیا ابھی طاقت کے توازن میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے‘ کورونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ امریکیوں کو امید تھی کہ یہ بیماری صرف چین، یا اس کے ہمسایہ ممالک تک محدود رہے گی‘ تاہم، بالکل اس کے برعکس ہوا۔ چین، جہاں سے یہ وائرس شروع ہوا تھا، نے اپنے ہاں پھیلاؤ پر تیزی سے قابو پا لیا‘ اور امریکہ اور اس کے سٹریٹیجک اتحادیوں کی زیر قیادت 'آزاد دنیا‘ سب سے زیادہ نقصان اٹھا چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا گھمنڈ چین کو مورد الزام ٹھہرانے کی طرف راغب ہوا۔ امریکہ کی پیروی میں بھارت اور اس کے میڈیا نے بھی وبائی وائرس کو 'ووہان وائرس‘ کہنا شروع کردیا۔ چین کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، امریکہ اور اس کے اتحادی تائیوان کی حمایت میں، اور ‘ایک چین‘ پالیسی کے خلاف کمزور بیانات جاری کرتے رہے۔ بحرالکاہل میں فوجی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک نئی جنگ کیلئے ہے۔ گزشتہ سرد جنگ کے برعکس، اس (معاشی اور فوجی) کشمکش کا فوکس بحرالکاہل پر ہوگا‘ یا انڈوپیسیفک پر۔
تقریباً راتوں رات، جنوبی ایشیا کے سٹیکس تبدیل ہو چکے ہیں۔ بھارت جو تھانیدار بننے کی کوشش میں تھا‘ اب پچھلے پیروں پر ہے اور اپنے گھر کے پچھواڑے میں پہلے سے زیادہ مضبوط چین کے ساتھ تنازعات سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ بحرالکاہل کے ساتھ ساتھ یہ خطہ بھی اب مستقبل قریب کیلئے عالمی سیاست میں مرکزی حیثیت اختیار کرنے والا ہے۔ چین کے معاشی مفادات خوشحال پاکستان، اور سرگرم سی پیک روٹ سے منسلک ہیں۔ حتیٰ کہ جب امریکہ افغانستان سے واپس جا رہا ہے‘ تو اس کے علاقائی مفادات، اپنے پراکسی بھارت کے ذریعے کام کرتے ہوئے 'پاکستان کو غیر مستحکم کرنا‘ اور 'سی پیک میں رکاوٹ ڈالنا‘ ہو سکتے ہیں‘ اور اس حوالے سے پاکستان اور بھارت میں جو تنازع پیدا ہو گا وہی آنے والے سالوں میں جنوبی ایشیا میں نئی گریٹ گیم کا بھی تعین کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں