"FBC" (space) message & send to 7575

’ایف آئی آر‘ پر نظرثانی کی ضرورت

گزشتہ دو دہائیوں سے، پاکستان کے قانونی نظام کو فرسودہ کریمنل جسٹس لاز اور نفوذ پذیر نظامِ انصاف کے نتیجے میں ہونے والی سزائوں میں کمی کی وجہ سے مسلسل تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ تنقید، جو ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی کے حالیہ جائزے میں بھی نمایاں رہی، ریاست پاکستان کی جانب سے بالقصد توجہ کے ارتکاز اور اصلاحات کی متقاضی ہے۔ خاص طور پر، کریمنل جسٹس لاز میں اصلاحات کے بارے میں بحث... خصوصاً انسداد دہشت گردی کے قوانین... دہشت گرد ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے سے متعلق دو مخصوص ایشوز کی توثیق سے شروع ہوتی ہے: (1) مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مشتبہ دہشت گرد ملزمان کو پکڑنے‘ انہیں سلاخوں کے پیچھے رکھنے اور ان سے تفتیش کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ (2) حتیٰ کہ جب اس طرح کے دہشت گرد ملزمان کو عدالت کے سامنے لایا جاتا ہے، تو کافی شواہد کی کمی یا نامناسب تفتیش کی وجہ سے انہیں کوئی سزا نہیں ہوتی۔ ان دو مسائل میں سے پہلا یعنی مشتبہ افراد کی گرفتاری، حراست اور تفتیش زیادہ تر آپریشنل نوعیت کا ہے، قانون سازی کی دفعات سے کم اور قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کی صلاحیت اور آپریشنل مہارت سے زیادہ معاملہ کرنے والا۔ یوں اس معاملے میں بہتری لانے کیلئے ایک طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایسی حکمت عملی جو ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت اور صلاحیت بڑھانے پر محیط ہو۔ مذکورہ دو مسائل میں سے دوسرا‘ یعنی مشتبہ افراد پر اس انداز میں مقدمہ چلانا جس کے نتیجے میں انہیں معنی خیز سزا مل سکے‘ قانون سازی کے ذریعے اصلاحات کے زمرے میں آتا ہے‘ جن کی تشریح کی جا سکے اور جن پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔ اس دوران جبکہ قانون سازی کی دفعات‘ جو کریمنل لا کے معاملات کو یقینی طور چلائیں‘ کے بارے میں مباحثے اور غوروخوض جاری رہیں گے‘ مقدمے کے ایک پہلو پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ پہلو ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) کی اہمیت اور اسکی صداقت ہے۔ پس منظر کے لحاظ سے، یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ایف آئی آر، تصوراتی طور پر، محض متعلقہ ریاستی ایجنسی کو کسی قابل شناخت جرم کے وقوع پذیر ہونے کی ابتدائی اطلاع دینا ہے، جس کا مقصد اس معاملے کی تحقیقات کو آگے بڑھانا ہے۔ خاص طور پر، کریمنل پروسیجر کوڈ 1898 کے سیکشن 154 کے مینڈیٹ کے مطابق، اس طرح کی 'ابتدائی معلومات‘ متعلقہ پولیس حکام کو پہنچائی جانی چاہئیں، مختصر تحریر کی صورت میں، اور شکایت کنندہ کے دستخطوں کے ساتھ۔ ایف آئی آر تقریباً تمام واقعات میں ان اجزا پر مشتمل ہوتی ہے: واقعہ کہاں رونما ہوا؟ کس طرح جرم کی طرف راغب کیا گیا، مشتبہ مجرموں کی تفصیل یا شناخت کے بارے میں کچھ دعویٰ اور مبینہ جرم کے ارتکاب میں ملزمان کا 'کردار‘ کیا ہے۔
ایف آئی آر کا نظام برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت متعارف کرایا گیا تھا۔ ایف آئی آر (تاریخی طور پر) مجرمانہ حملوں کے مقدمے میں ایک ناقابلِ تنسیخ مقام نہیں رکھتی تھی۔ اعلیٰ عدلیہ کے متعدد فیصلوں میں کہا گیا کہ ایف آئی آر کا بنیادی مقصد صرف پولیس کو ایک قابل شناخت جرم کے بارے میں آگاہ کرنا ہے، اور یہ ضروری نہیں کہ کسی جرم کے ارتکاب سے متعلق ''تمام‘‘ تفصیلات ایف آئی آر کے مرحلے پر ہی فراہم کر دی جائیں۔ اس سلسلے میں، سینئر پولیس حکام اور وکلا کئی دہائیاں پہلے کی کہانیاں بیان کرتے ہیں، جب ایک مختصر (دو یا تین سطروں کی) ایف آئی آر، بغیر کسی تفصیل یا شواہد کے، ایک مقدمے کے آغاز کا باعث بن سکتی تھی‘ جس کے نتیجے میں قتل کے کسی ملزم کو سزا ملتی تھی‘ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ، پاکستان بھر میں ٹرائل کورٹس (بشمول انسداد دہشت گردی کی عدالتیں)، نے ایف آئی آر کے مندرجات اور اس کی صداقت کو خاصی اہمیت (ثبوتوں کے حوالے سے) دینا شروع کر دی۔ ٹرائل کورٹ سے ظاہر ہونے والی اور بعد میں اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے توثیق شدہ علم قانون کی ایک سطر، ملزمان کے واقعات اور شناخت یا کردار کے بارے میں اہم تفصیلات کو ایف آئی آر میں شامل کرنے کی ترغیب دیتی ہے، تاکہ جرم ثابت ہونے پر مجرم کو معقول سزا دی جا سکے۔ جیسے جیسے ثبوتوں کی عدالتی تشریح ارتقا پذیر ہوئی، ٹرائل کورٹس نے استغاثہ سے تقاضا کرنا شروع کر دیا کہ وہ اپنے مقدمے کو قانونِ شہادت اور اسلامی احکامات (خاص طور پر قتل جیسے جرائم سے متعلق) کے محدود تناظر میں ثابت کرے۔ جلد ہی گھناؤنے جرائم میں ملزم کو سزا دینے کے لیے عینی شاہدین کے بیانات ضروری قرار پائے اور فطری ربط یہ تھا کہ جرم کی جگہ سے ان کی قربت کو دیکھتے ہوئے عینی شاہدین کو بھی ایف آئی آر میں از خود شامل کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریورس انجینئرنگ کے عمل کے ذریعے پراسیکیوشن اور پولیس، شکایت کنندہ کی مدد سے، ایسی ایف آئی آر بنانے پر مجبور ہوئے جس میں (جھوٹے) عینی شاہدین کے بھی کھاتے کھولے گئے ہوں‘ جس کے بغیر سزا کے عدالتی معیارات پورے نہیں ہو سکتے تھے۔ اور، جیسا کہ بیشتر جھوٹی شہادتوں کے لیے سچ ہے، اس طرح دفاعی مشیروں کے لیے 'تیار کردہ‘ عینی شاہدین کے بیانات میں تضادات کی نشان دہی کرنا آسان ہو گیا۔ قدرتی طور پر، اس طرح کے تیار کردہ شواہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ سزاؤں کی تعداد کم ہو گئی، مقدمے کے عبوری مراحل میں ملزمان کے ایک بڑے حصے کو ضمانت مل جاتی۔ پاکستان بھر میں قتل کے جرم سے متعلق زیادہ تر ایف آئی آرز کا ایک سرسری مطالعہ سے واقعات کے ایک ہی نمونہ سامنے آتا ہے‘ جس میں ملزم نے (اپنے دوستوں کے ساتھ) مقتول پر فائرنگ کرنے سے پہلے اسے للکارا، اور یہ پورا واقعہ ارد گرد کھڑے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ لوگ اگر سارے نہیں تو زیادہ تر قاتل یا شکایت کنندہ کے رشتے دار ہوتے ہیں۔ ان ایک ہی طرح کے واقعات میں دفاع کرنے والے اور استغاثہ کی طرف سے‘ سبھی اپنے کردار اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ایک ایسے کھیل میں جو سچائی کی کسی پیمائش کے بجائے سزا کے قواعد کے مطابق ہوتا ہے۔ اس طرح پراسیکیوٹری سسٹم دو مسابقتی خیالات کے مابین یرغمال سا بنا محسوس ہوا: اس بات کا کہ ایک ایسی ایف آئی آر بنائی جائے جس میں سزا کے معیارات کو پورا کرنے کے لیے کافی ثبوت اور گواہ شامل ہوں، اور ایف آئی آر کی کمزوریوں کا شکار ہونا جو کہ فطری طور پر غلط ہے۔ کریمنل سسٹم‘ اس کے معیارات، اس کے طریقہ کار اور اس کے اطلاق کے بارے میں بحث کے ساتھ، لازمی طور پر ایف آئی آر کو دی گئی حرمت کے بارے میں دوبارہ غور کرنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر قتل، عصمت دری کے تقریباً وبھی واقعات، اور یقینی طور پر دہشت گردی کی کارروائیاں، عینی شاہدین کی بالکل نظروں کے سامنے نہیں کی جا سکتی ہیں۔ جدید دور میں، جرم زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے اور اس کا سراغ لگانا آسان نہیں رہا۔ متعلقہ قانون کی پراسیکیوٹوریل اور جوڈیشل ایپلی کیشن میں اب اسی تبدیلی کی ضرورت ہے‘ اور اس عمل میں، اس حرمت کے بارے میں دوبارہ غور کرنا جو ہمارا انصاف کا نظام ایف آئی آر کو دیتا ہے، شاید پہلا قدم ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں