"FBC" (space) message & send to 7575

مقبوضہ کشمیر کا قانونی سانچہ

مقبوضہ وادی کے غم زدہ اور مظلوم عوام کے لیے حمایت کا اظہار کرتے ہوئے 5 اگست 2019 ء کو جو کچھ ہوا اس کی آئینی بنیادوں کا جائزہ لینا اور انہیں سمجھنا اہم ہے کیونکہ کشمیر کے غیر قانونی الحاق سے وابستہ قطعی قانونی مسائل کو سمجھنا‘ اس مسئلے کا تعمیری حل تجویز کرنے کے لیے ایک ضروری شرط ہوگی۔ بھارت کے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے ساتھ کشمیر کا غیر قانونی الحاق ایک صدارتی حکم (CC.O. 272) کے ذریعے کیا گیا‘ جس نے جموں و کشمیر کے آئین کو منسوخ کر دیا اور بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی تنسیخ کر دی۔
سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کیا تھا اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 وہ شق تھا جس نے جموں و کشمیر کے خطے کو خصوصی خود مختارانہ حیثیت دی اور بھارت کے ساتھ اس کے عبوری الحاق کی بنیاد بنائی۔ یہ آرٹیکل 1949ء میں نافذ ہوا اور اس نے جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو اپنے قیام کے بعد یہ اختیار دیا کہ وہ انتخاب کرے کہ بھارتی آئین کی کون سی دفعات اس علاقے پر لاگو کی جا سکتی ہیں‘ اور مذکورہ اسمبلی کو یہ بھی اجازت دی گئی کہ بھارتی آئین کو منسوخ کر دے اور اس کے بجائے مکمل خود مختاری کے اپنے اقدامات کا انتخاب کر لے۔ اس فریم ورک کے اندر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی سے مشاورت کے بعد 1954ء میں بھارت کی طرف سے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 35A متعارف کرایا گیا۔ اس آرٹیکل نے کشمیر کی مقامی مقننہ کو خطے کے مستقل باشندوں کی وضاحت کرنے اور بھارتی آئین کے ان آرٹیکلز کا تعین کرنے کی اجازت دی جو کشمیر پر لاگو ہوں گے۔ علاوہ ازیں آرٹیکل 35 اے کے تحت کشمیر کو مالیات‘ دفاع‘ خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں اپنے قوانین بنانے کی اجازت دی گئی۔ آرٹیکل 35 اے‘ جسے مستقل رہائشی قانون کہا جاتا ہے‘ باہر کے لوگوں کو کشمیر میں زمین خریدنے یا مستقل طور پر آباد ہونے سے منع کرتا ہے‘ جبکہ کشمیری خواتین کو ریاست سے باہر کے کسی شخص سے شادی کرنے کی صورت میں جائیداد کے حقوق برقرار رکھنے سے بھی روکتا ہے۔ ان آئینی دفعات کی روشنی میں جموں و کشمیر کے خطہ کا اپنا آئین‘ اپنا جھنڈا‘ اپنی شہریت تھی‘ داخلی انتظامی امور میں خود مختاری تھی‘ اور یہ باہر کے لوگوں کو جائیداد کے حقوق سے روکتی بھی تھیں۔
اس آئینی انتظام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کشمیر پر بھارت کا آئینی کنٹرول صرف ایک حد تک رہے اور اس طرح کے معاملات میں‘ جیسا کہ کشمیر کے لوگوں نے (اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے) تسلیم کرنے کا انتخاب کیا تھا۔ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے استعمال کیے جانے والے کشمیریوں کے اس 'انتخاب‘ نے خطے میں ہندوستان کی موجودگی کی واحد اخلاقی اور آئینی بنیاد بنائی۔ بھارت کے آئینی فریم ورک کے اندر آرٹیکل 370 اور اس کے نتیجے میں مرتب ہونے والے اثرات کو (تکنیکی طور پر) جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی اجازت سے ہٹایا جا سکتا ہے لیکن 1957 ء میں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا‘ اس طرح آرٹیکل 370 اور اس کے اثرات مستقل طور پر مرتب ہو گئے۔ دراصل یہ کوئی ہمدردانہ تجزیہ یا رائے نہیں ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے 2018 میں فیصلہ سنایا کہ آرٹیکل 370 نے ''مستقل حیثیت حاصل کر لی ہے جس کی وجہ سے اس کی منسوخی ناممکن ہے‘‘ ۔
بہرحال صدارتی احکامات کی ایک سیریز کے ذریعے ریاستی حکومت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے مودی کی دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت نے آرٹیکل 370 کی زبان کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور 2018ء میں لفظ ''آئین ساز اسمبلی‘‘ کو ''قانون ساز اسمبلی‘‘ کے ساتھ بدل دیا لیکن اگر آرٹیکل 370 میں اس ترمیم کو درست تصور کرنے اور ریاست کی آئینی حیثیت میں کسی بھی تبدیلی کے لیے کشمیر کی ''آئین ساز اسمبلی‘‘ کے بجائے ''قانون ساز اسمبلی‘‘ کی رضامندی کی ضرورت ہے‘ تو مودی حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جون 2018ء میں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو ختم کر دیا گیا تھا اور 18 دسمبر 2018ء کو جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 356 کے مطابق صدارتی راج کے تحت کر دیا گیا۔ اس طرح کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے اختیارات یونین کی مقننہ کے پاس چلے گئے تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370(3) میں کہا گیا ہے کہ ''صدر عوامی نوٹیفکیشن کے ذریعے اعلان کر سکتا ہے کہ یہ آرٹیکل فعال نہیں رہے گا‘‘ یا ''استثنیات اور ترامیم‘‘ کے ساتھ فعال رہے گا‘ تاہم اس مقصد کے لیے ''صدر کی جانب سے ایسا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پہلے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی سفارش‘‘ ضروری تھی۔ فوری معاملے میں چونکہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کام نہیں کر رہی تھی اس لیے صدر نے محض اپنے ہی مقرر کردہ جموں و کشمیر کے گورنر سے مشورہ کیا۔ اس طرح یہ مشاورت نہ تو با معنی تھی اور نہ ہی یہ مشاورت کشمیری عوام کی آواز کی نمائندگی کرتی تھی۔ بھارتی صدر نے خود سے (یعنی یونین کے مقرر کردہ گورنر سے) مشورہ کیا اور اسے (آرٹیکل 370 کے تحت) کشمیری عوام کی ''سفارش‘‘ کے مقاصد کے لیے کافی سمجھا۔ اپنے ارادوں اور مقاصد کے لیے اگست 2019ء میں مودی کی ہندوتوا حکومت نے کم از کم 14 ملین کشمیریوں کے جمہوری حقوق چھین لیے‘ اس طرح بھارت کی جمہوریت اور سیکولر حیثیت کا خود ہی مذاق اڑایا۔ مزید برآں‘ مودی حکومت نے علاقے کو چھوٹے علاقوں میں تقسیم کر دیا جس میں بدھ مت کی اکثریت والا لداخ کا علاقہ بھی شامل ہے۔ مودی کی فاشسٹ حکومت کے ان سخت اقدامات کو مقامی عوام نے واضح طور پر قبول نہیں کیا۔ اس ممکنہ رد عمل کا اندازہ لگاتے ہوئے اس آئینی تنسیخ سے پہلے کے ہفتوں میں مودی کے واچ ڈاگ اجیت ڈوول نے علاقے میں تقریباً پچاس ہزار فوجی تعینات کرنے کیلئے بھارتی آرمی کو متحرک کیا‘ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بعد ازاں یہ تعداد بڑھ کر چھ لاکھ ہو گئی اور خطے میں زیادہ تر ٹیلی کمیونی کیشن منقطع کردی گئی۔
سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 370 کی معطلی کشمیر کو ایک آزاد ریاست بناتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اب بھارت اس پر غیر قانونی طور پر قابض ہے؟ یقیناً کیونکہ کشمیر میں بھارت کی موجودگی کی قانونی حیثیت آرٹیکل 370 اور کشمیری عوام کی (جزوی) رضامندی سے ثابت ہوتی تھی‘ جسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔کشمیر میں پاکستان کے مفادات تین طرح کے ہیں: (1)کشمیر کی سرزمین پر پچھلے 70 سالوں میں بہت سے شہدا کا خون بہا ہے۔ (2): کشمیری ایک ایسی قوم ہیں ( بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یہی کہنا چاہیے) جو گزشتہ سات دہائیوں سے جدوجہد میں مصروف ہمارے بھائی ہیں۔ (3): یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارے دریا‘ جو ہماری قوم کی لائف لائن ہیں‘ نکلتے ہیں۔ اور بی جے پی کی قیادت نے پہلے ہی واضح اظہار کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی پانی کی سپلائی بند کرنے کی کوشش کرے گی‘ تاکہ پاکستان کو خشک سالی کا شکار بنا دیا جائے‘ جسے یہ ملک برداشت نہیں کر سکے گا۔ اگر بی جے پی کا یہ دعویٰ آپ کو میدان کربلا میں یزید جیسا بیان لگتا ہے تو آپ اس سوچ میں اکیلے نہیں ہیں۔ اور اسی تشبیہ کی بنا پر کربلا نے ہمیں سکھایا ہے کہ ایسے حالات میں ''خون کے آخری قطرے‘‘ تک لڑنا ضروری ہو جاتا ہے۔ہمارے سیاسی رہنما (حکومت اور اپوزیشن میں) کشمیر کے آئینی سانچے کے تحت اچھا کام کریں گے۔ سیاسی بیان بازی کو ایک طرف رکھ کر صرف بنیادی قانونی مسائل کی تفہیم کے ذریعے‘ کیا پاکستان کا سیاسی نظم و نسق کشمیریوں کی حالت زار کے لیے تعمیری (اور پرامن) حل نکالنے کی امید کر سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں