"FBC" (space) message & send to 7575

’حکومت کی تبدیلی‘ کی سیاست

پاکستان ایک مبینہ بین الاقوامی سازش کی لپیٹ میں ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا گیا کہ وزیر اعظم (اب سابق) اور وفاقی حکومت (اب سابق) نے ایک سرکاری مراسلے کی بنیاد پر الزام لگایا ہے کہ امریکہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ بنا رہا ہے۔آئیے آغاز اس بات سے کرتے ہیں کہ یہ دعویٰ قابل اعتبار ہے یا نہیں؟
کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ‘ پاکستان کے کچھ داخلی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر‘ پاکستان میں 'حکومت کی تبدیلی‘ کی کوشش کر رہا ہو‘ تاکہ چین اور روس سے خود کو دور رکھنے والی حکومت قائم کی جا سکے؟ اگر تاریخ مستقبل کی پیش گوئی کے کسی پیمانے کے طور پر کام کرتی ہے‘ تو یہ تنازع نہ صرف ممکن ہے‘ بلکہ حقیقتاً (خاصا) ممکن ہے۔اس خیال کو مزید ثابت کرنے کے لیے‘ ایک سادہ سا سوال اٹھاتے ہیں: امریکہ کی ہم آہنگی سے متعلق دکھاوے کی بیان بازی سے قطع نظر‘ کیا امریکہ نے ماضی میں مختلف ممالک میں حکومت کی تبدیلی میں حصہ لیا؟ جواب‘ بدقسمتی سے‘ ایک واضح 'ہاں‘ ہے!دنیا کے دوسرے (خود مختار) ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی کے لیے امریکہ کی کوششوں کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ 1887ء سے دوسری جنگ عظیم تک کے درمیانی عرصے میں‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے یا تو خفیہ طور پر (بغاوت کے ذریعے) یا کھلے عام (جنگ کے ذریعے) نکاراگوا‘ میکسیکو‘ ہیٹی‘ ڈومینیکن ریپبلک‘ کوسٹا ریکا‘ جرمنی‘ آسٹریا‘ ہنگری اور روس میں حکومتیں تبدیل کرنے کی کوششیں کیں۔ دوسری جنگ عظیم امریکہ کیلئے ایک اہم لمحہ تھا۔ مغربی نصف کرہ کے بیشتر حصے پر اس کی بالا دستی‘ اس 'ورلڈ آرڈر‘ کے طور پر مستحکم ہوئی جو دوسری جنگ عظیم کے بعد متشکل ہو۔ اس جنگ کے فوراً بعد کئی ممالک پر بلا مقابلہ امریکی قبضے نے زور پکڑ لیا‘ جن میں جاپان‘ جرمنی‘ اٹلی‘ فرانس‘ بلجیم‘ نیدرلینڈز‘ فلپائن اور آسٹریا شامل ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعدامریکہ 'حکومت کی تبدیلی‘ کی اپنی پالیسی کو بہت زیادہ بلندی پر لے گیا۔ متحرک امریکی فوجی طاقت کے استعمال کے ساتھ سی آئی اے کے آپریشنز نے کئی خود مختار ملکوں کی حکومتوں میں مداخلت کی جیسے ایران‘ گوئٹے مالا‘ شام‘ انڈونیشیا‘ جنوبی ویتنام‘ کیوبا‘ ڈومینیکن ریپبلک‘ چلی‘ بولیویا‘ چاڈ‘ نکاراگوا‘ گریناڈا اور پیراگوئے ۔
1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کو امریکہ کی یک قطبی بالا دستی کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بے مثال طاقت کے نتیجے میں وہ چیز تخلیق ہوئی جسے صدر جارج ڈبلیو بش نے ''نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا نام دیا تھا۔ انٹرنیشنل گورننس کا ایک ایسا نظام جس میں بین الاقوامی ایجنسیوں‘ اقتصادی پابندیوں اور فوجی قوت کے ذریعے امریکی طاقت کا بلا روک ٹوک استعمال کیا گیا۔ اس دوران سی آئی اے اور پنٹاگون نے مقامی حامیوں کی مدد سے ہیٹی‘ عراق‘ زائر‘ یوگوسلاویہ‘ افغانستان‘ عراق‘ کرغزستان‘ شام اورلیبیا میں حکومتوں کی تبدیلی کی کوشش کی۔یہ محض الزامات نہیں ہیں۔ خفیہ اور ظاہری‘ ان تمام آپریشنوں کو اب ایک بہتر دستاویزی شکل دی گئی ہے‘ اور امریکہ میں مختلف فورمز اور حکام نے اسے قبول کیا ہے۔ مثال کے طور پر شام کے حوالے سے تین امریکی سینیٹرز (جان مکین‘ لنڈسے گراہم اور جو لیبرمین)نے ایک مشترکہ بیان کے ذریعے ہم آہنگ ہو کر صدر اوباما پر زور دیا تھا کہ ''اب صدر اسد کے جانے کا وقت آ گیا ہے‘‘۔ اگست 2011 ء میں‘ امریکی حکومت نے صدر اسد سے ''ہٹ جانے‘‘ کا مطالبہ کیا تھا‘ اور شامی حکومت کے خلاف تیل کی پابندی عائد کر دی تھی۔ 2013ء سے امریکہ نے شامی باغیوں کو تربیت‘ ہتھیار اور نقد رقم فراہم کرنا شروع کر دی تھی۔ 2015ء میں صدر اوباما نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ''اسد کو یقینی طور پر جانا چاہئے‘‘۔ امریکہ کی طرف سے یہ اور اس طرح کے دیگر اقدامات پر دوسری عالمی طاقتوں‘ جیسے چین اور روس‘ نے شدید تنقید کی تھی حتیٰ کہ جہاں امریکہ نے حکومتوں کو فعال طور پر 'تبدیل‘ نہیں کیا‘ وہاں اس نے یقینی طور پر لوگوں کو اقتدار میں لانے‘ یا انہیں وہاں قائم رکھنے میں ایک خاموش کردار ادا کیا۔ مشرق وسطیٰ کے بیشتر حکمرانوں کی غیر جمہوری حکمرانی امریکی حمایت کے مرہون منت ہے۔ ابھی چند سال پہلے‘ اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کھلے عام طعنہ دیا تھا کہ کس طرح انہوں نے سعودی عرب کے بادشاہ سے کہا تھا کہ وہ امریکی حمایت کے بغیر اقتدار میں ''ایک ہفتہ بھی نہیں چل سکیں گے‘‘۔ اسی تناظر میں‘ پاکستانی حکومتوں میں امریکی مداخلت‘ اور حکومتوں کیلئے کھلی منظوری ہماری قوم کی تقریباً پوری تاریخ کیلئے ایک کھلا راز رہا ہے۔ ایوب خان‘ ضیاالحق اور پرویز مشرف نے امریکہ کیلئے قابل قبول ہونے کی خاطر اپنے اپنے داغدار جواز تراشے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے جمہوریت پسندوں کو بڑی ایمپائر کی مخالفت کی قیمت اپنی جانوں سے ادا کرنا پڑی۔ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے واضح طور پر اعتراف کیا تھا کہ بے نظیر بھٹو 2007 ء میں امریکیوں کی طرف سے گفت و شنید اور ضمانت پر ایک 'انتظام‘ کے تحت پاکستان واپس آئی تھیں۔ ہلیری کلنٹن کا یہ بیان آن ریکارڈ ہے کہ افتخار چوہدری کو بحال کرنے اور نواز شریف کو اگلی حکومت (2013ء) دینے کے بدلے 2009ء میں وکلا کا لانگ مارچ ختم کرایا گیا تھا۔
تو کیا عمران خان کا یہ دعویٰ درست ہو سکتا ہے کہ امریکہ ملکی سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کرروس اور چین کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کی ''سزا‘‘ کے طور پر ان کی حکومت گرانے کی کوشش کر رہا تھا؟ ٹھیک ہے‘ اگر تاریخ کوئی اشارہ ہے‘ تو اس بات کا ہر امکان موجود ہے کہ ایسا اب بھی ہو رہا ہو گا۔اس مقصد کیلئے عمران خان نے پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں پاکستان کے نمائندے کے ذریعے موصول ہونے والے ایک سرکاری مراسلے میں واضح طور پر کہا گیا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ عمران خان تحریکِ عدم اعتماد (جو اُس وقت تک پیش نہیں کی گئی تھی) میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ یوں مذکورہ مراسلے کے ذریعے‘ امریکہ نے پاکستان کو 'دھمکی‘ دی کہ اگر عمران خان عدم اعتماد کے ووٹ سے بچ گئے تو پاکستان کو عالمی تنہائی اور مالی پریشانیوں سمیت غیر معمولی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گااور اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان کو معاف کر دیا جائیگا۔ امریکی کون ہوتے ہیں کہ کسی کو 'معاف‘ کریں؟ درحقیقت‘ پچھلی کئی دہائیوں میں ہونے والے تمام تشدد‘ جنگوں‘ بم دھماکوں اور لوٹ مار کیلئے‘ یہ امریکہ ہے جسے دنیا سے معافی طلب کرنی چاہئے۔ یہ امریکہ ہی ہے جسے پاکستانی عوام سے معافی مانگنی چاہئے‘ جنہوں نے امریکہ کی نام نہاد 'دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں 80 ہزار سے زائد معصوم جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اور اگر امریکہ ہمیں کھوئے ہوئے سال‘ کھوئی ہوئی آمدنی‘ کھوئی ہوئی ساکھ‘ اور بے پناہ دردِ دل اور درد کا ازالہ کر دے‘ تو پاکستانی عوام بھی اس پیشکش کے بارے میں سوچیں گے۔اگلی بات یہ کہ کیا یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ نواز شریف‘ آصف زرداری اور فضل الرحمن نے اپنے سیاسی حریف کو نکال باہر کرنے کیلئے امریکیوں کے پیسے اور منصوبے کو قبول کیا ہو گا؟ کیا انہوں نے ماضی میں کبھی کسی چیز پر امریکی دباؤ کا مقابلہ کیا ہے؟ کیا انہوں نے ڈرون حملوں کے دوران امریکی دباؤ کی مزاحمت کی؟ یا FATF کی گرے لسٹ کی؟ یا خطے میں بھارتی تسلط کی؟
شکر ہے کہ پاکستانی عوام شریفوں‘ زرداریوں اور ان کے حواریوں کی طرح نہیں ہیں۔ لگتا ہے کہ قوم نے اس معاملے پر عمران خان کے موقف کو قبول کر لیا ہے اور لوگوں میں یہ گونج خان کو ووٹ دینے میں مدد دے گی۔ عمران خان کو سابق اپوزیشن اور مغرب کے دوغلے بیانیے کو عوامی اجتماعات اور تقاریر کے ذریعے بے نقاب کرنا چاہیے۔ اور پھر‘ ایک بار جب ووٹ ڈالنے کا وقت آ جائے‘ جب بھی ایسا ہو‘ پاکستان کے عوام کو ان داغدار سیاسی آقاؤں کو یاد دلانے دیں کہ جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں