"FBC" (space) message & send to 7575

آبی تنازعات اور بھارت کا منفی رویہ

بھارت نے پاکستان کے ساتھ جو بلاجواز آبی تنازعات پیدا کررکھے ہیں اور اِن پر جس طرح سے مسلسل ہمیں 'گھمن گھیریوں 'میں اُلجھایا ہوا ہے، اُس کی ایک اورصورت20 سے 21 مارچ تک، دونوں ممالک کے انڈس واٹر کمشنرز کے مذاکرات کے دوران دکھائی دی، پہلے تو اُس نے ستمبر2016 ء میں اُڑی حملوں کو جواز بنا کر یہ مذاکرات غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کیے رکھے ،یہ وہ وقت بھی تھا جب بھارت کی طرف سے ستاون سالہ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے اعلیٰ سطحی اعلانات بھی سامنے آئے تھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے 26ستمبر 2016 کو یہ بیان سامنے آیا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے،بھارت کی طرف سے مذاکرات ملتوی کیے جانے کے بعد پاکستان نے ثالثی کے لیے سندھ طاس معاہدے کے ثالث عالمی بینک سے رجوع کیا تو ورلڈ بینک نے زور دیا کہ دونوں ممالک یہ معاملہ اگر اپنے طور پر حل کرلیں تو یہ زیادہ مناسب بات ہوگی جس کے لیے دونوں ممالک کو جنوری تک کی مہلت دی گئی۔ ورلڈ بینک کی مداخلت اور امریکہ کے دبائو کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت آبی تنازعات پر مذاکرات بحال کرنے کے لیے رضا مند ہوگیا اور اِس تمام پس منظر کے تناظر میں بھارت کے انڈس واٹر کمشنر پی کے سکسینا کی قیادت میں بھارت کا دس رکنی وفد 19 مارچ کو پاکستان پہنچا اور دو روز تک دونوں ممالک کے انڈس واٹر کمشنرز کے درمیان اسلام آباد میں مذاکرات ہوتے رہے۔
پاکستان کی سرتوڑ کوششوں کے بعد ہونے والے اِن مذاکرات کے اختتام پر قوم کو یہ شنید سنائی گئی کہ بھارت نے دریائے چناب پرمایا ہائیڈروالیکٹرک منصوبے کا ڈیزائن دوبارہ تیار کرنے جب کہ لوئرکلنائی اورپکل پاور پراجیکٹ منصوبوں کا دوبارہ مشاہدہ کرنے پراتفاق کرلیا ہے جبکہ مذاکرات کے دوران بھارت نے سیلاب کے موسم میں سیلاب کی پیشگی اطلاع کے لیے دریائے چناب پر بگلیہار اور سلال ڈیموں سے پانی کے اخراج کا ڈیٹا فراہم کرنے کا پاکستانی مطالبہ بھی منظور کر لیا۔ وزارتی سطح پر یہ بھی شنید سنائی گئی کہ بھارت نے ورلڈ بینک کی زیرنگرانی 11 اپریل سے واشنگٹن میں کشن گنگا ڈیم اور رتلے منصوبوںپر مذاکرات میں شرکت کے لیے بھی رضا مندی ظاہر کردی ہے ۔
یہ سب ایک ایسے ملک کے لیے کافی حد تک اطمینان بخش تھا جو مسلسل پانی کی قلت کا شکار ہورہا ہے لیکن ابھی اِ ن مذاکرات کو اختتام پذیر ہوئے ایک آدھ ہفتہ ہی ہوا ہے کہ اِس حوالے سے کچھ تشویشناک باتیں سامنے آنے لگی ہیں،،پہلے تو بھارتی انڈس واٹر کمشنر نے سرحد عبور کرتے ہی یہ بیان داغا کہ مذاکرات کے دوران زیادہ ٹھوس پیشرفت نہیں ہوئی اوراب بعض ذرائع کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ دوران مذاکرات بھارت کی طرف سے یہ یقین دہانی نہیں کرائی گئی کہ وہ پاکستان کے اعتراضات دور ہونے تک اِن منصوبوں پر کام روک دے گا اور اگر بھارت اِن منصوبوں پر کام نہیں روکتا تو اِن تینوں منصوبوں کے حوالے سے بھی صورت حال اُسی نہج پر پہنچ سکتی ہے جو بھارت کے کشن گنگا اور رتلے ڈیموں کے حوالے سے پیدا ہوچکی ہے کہ اِن منصوبوں پر بھارت نے پاکستانی اعتراضات کے باوجود کام جاری رکھا اور اب بھارت اِس حوالے سے پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکا ہے تو پاکستان کسی بھی صورت اپنے مفادات کا تحفظ اورسندھ طاس معاہدے کی پاسداری چاہتا ہے ، اِنہیں دونوںمنصوبوں پر ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان 11 اپریل کو واشنگٹن میں ، ورلڈ بینک کی ثالثی میں مذاکرات طے ہیں لیکن اب خود بھارتی میڈیا اِس حوالے سے ایسی خبریں رپورٹ کررہا ہے کہ بھارت اِن مذاکرات میں شرکت سے انکار کرسکتا ہے ،بھارت کے مشہور اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنی 25 مارچ کی اشاعت میں ایک آرٹیکل میں دعوی کیا ہے کہ بھارتی حکام نے ورلڈ بینک کے حکام کو آگاہ کیا ہے کہ بھارت کسی تیسری طاقت کی ثالثی کے بغیر، پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ 
ایشیا میں مختلف ممالک کے درمیان آبی تنازعات پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ تھرڈ پول نے ہندوستان ٹائمز کے اِس دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بھارت کی طرف سے نئی دہلی میں ورلڈ بینک کے نمائندے کو آگاہ کیا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت اپنے معاملات خود سے طے کریں تو یہ دونوں ممالک کے لیے بہتر ہوگا ناں کہ ورلڈ بینک کو اِس حوالے سے مداخلت کرنی چاہیے ،،مطلب یہ کہ بھارت نے 11 اپریل کے مذاکرات سے فرار کے بہانے ڈھونڈنے شروع کردئیے ہیں، یہی وہ حیلے بہانے ہیں جو ہمیشہ سے ہی بھارت کے ہی پیدا کردہ آبی تنازعات حل کرنے میں رکاوٹ رہے ہیں، جس پر متعدد مواقع پر عالمی ادارو ں اور ممالک کی طرف سے بھی تشویش کا اظہار سامنے آتا رہا ہے،دوہزار گیارہ میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے اُمور خارجہ نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ بھارت، کشمیر کے متنازع علاقوں میں پاکستان کو جانے والے دریائوں پر پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں کے ذریعے ،پاکستان کو حاصل ہونے والے پانی پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے ،رپورٹ کے مطابق ان منصوبوں کا مجموعی نتیجہ یہ نکلے گا کہ بھارت ،پاکستان کو جانے والے پانی کو روک کر اِسے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلے گا جس سے پاکستان کی زرعی پیداوار کو نقصان پہنچایا جاسکے گا۔
بات اِس سے آگے بڑھی تو ایک برطانوی خبر رساں ادارے نے بھارتی حکام کے حوالے سے خبر دی کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مختلف دریائوں پر چھ ہائیڈروپاور منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کردی ہے جن پر مجموعی طور پر 15 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔اِن میں دریائے چناب پر زیرتعمیر مایاڈیم،لوئر کلنائی اور پکل منصوبے بھی شامل ہیں جن کی تکمیل سے بھارت کو دریائے چناب سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار دوگنا ہوجائے گی جو اِس وقت تین ہزار میگاواٹ ہے ،یہ بھارت کے وہی تین متنازعہ منصوبے ہیں جن پر حالیہ مذاکرات کے دوران گفتگو ہوئی جن پر پاکستانی حکام کے مطابق تو اچھی پیشرفت ہوئی ہے لیکن بھارتی میڈیا کی رپورٹس اِس کی نفی کررہی ہیں۔ متعدد بھارتی اخبارات میں، بھارت کے انڈس واٹر کمشنر پی کے سکسینا کے حوالے سے ایسی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ اُن کے مطابق، مذاکرات میں کوئی زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی،یہ ایسی صورت حال تھی جس سے پہلے ہی کافی کنفیوژن پیدا ہورہی تھی اور اب 11اپریل کے طے شدہ مذاکرات کے بارے میں آنے والی خبریں مزید تشویش کا باعث بن رہی ہیں۔ 
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اِس کا وجود ہمیشہ سے ہی بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے جسے نقصان پہنچانے کا وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور اِسی تناظر میں آبی تنازعات بھی پیدا کیے جاتے رہتے ہیں۔1951 میں ہمارے ہاں پانی کی فی کس دستیابی 5650 کیوبک میٹر فی کس تھی جو ممکنہ طور پر 2025تک صرف 800 کیوبک میٹر تک رہ جائے گی،مطلب یہ کہ پانی کی کمی کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی کی بلند ہونے والی آوازیں اب ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بلند تر ہوتی جائیں گی، بلاشبہ اِس حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں کا عنصر انتہائی منفی کردار ادا کررہا ہے جن کے باعث دریائوں میں پانی کی آمد میں مسلسل کمی ہورہی ہے ،یہ اِنہی تبدیلیوں کے باعث ہے کہ کبھی مختصر سے عرصے میں بہت زیادہ بارشیں برس جاتی ہیں تو کبھی طویل عرصے تک باران رحمت کا انتظار کرتے کرتے آنکھیں پتھرانے لگتی ہیں، جب بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو ہم سیلاب میں غرق ہوتے ہیں اور جب کم ہوتی ہیں تو خشک سالی قیامت ڈھاتی ہے ، لیکن پانی کے حوالے سے تغیروتبدل کے اِس قدرتی عنصر سے ہٹ کر جو دوسرا عنصرستم ڈھا رہا ہے وہ مقبوضہ کشمیر سے نکلنے اورہماری سرحدوں میں داخل ہونے کے بعد ہماری زمینوں کو سیراب کرنے والے دریائوں پر بھارت کا کنٹرول ہے جو صورت حال کو وقت سے پہلے ہی سنگین تر بنا رہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہم خود دستیاب پانی کی بڑی مقدار کو بھی ضائع ہونے دیتے ہیں۔ہرسال 30 سے 35ملین ایکٹرفٹ پانی ہمارے دریائوں میں سے گزر کر سمندر میں جاگرتا ہے اور پیچھے رہ جاتی ہیں پانی کی کمی کے حوالے سے شکایات۔اس صورت حال کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ کُج انج وی راہواں اوکھیاں سَن،کج گَل وچ غم دا طوق وی سی،کج شہر دے لوک وی ظالم سَن،کج سانوں مرن دا شوق وی سی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں