"FBC" (space) message & send to 7575

اور اب کلبھوشن کا معاملہ

پاکستان کو بھارت کی ہمسائیگی میں رہنا ہے اور بھارت کے لیے بھی اِس ابدی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ اِس نہ بدل سکنے والی جغرافیائی حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات پر ہمیشہ بری خبروں کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت ملنے کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد سے یہ خطرہ پوری شدت سے سر اْٹھا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد خانے کی مزید نچلی سطح تک نہ پہنچ جائیں‘ جو بھارت میں نریندر مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد پہلے ہی اْتار چڑھائو کا شکار ہے۔ اِس وقت دونوں ممالک کے درمیان یہ معاملہ جس نہج پر پہنچ چکا ہے، اْس کے پیش نظر اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ یہ معاملہ طویل عرصے تک دونوں ممالک کے تعلقات پر اپنے اثرات مرتب کرتا رہے گا۔ اب پاکستان کے لیے اس پر پیچھے ہٹنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری جانب بھارتی حکومت کی طرف سے کلبھوشن کو بھارت کا بیٹا قرار دے دیا جانا معاملے کی صورتحال کو بڑی حد تک واضح کر رہا ہے۔
کلبھوشن کا مختصر سا پس منظر کچھ یوں ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے اس ایجنٹ نے 1987 میں اپنے ملک کی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی پونا جوائن کی تھی۔ یکم جنوری 1991 کو اْس نے انجینئرنگ برانچ میں کمیشن حاصل کیا اور 2001 میں وہ بھارتی نیول انٹیلی جنس ایجنسی میں شامل ہو گیا۔ پاکستان میں اپنی گرفتاری سے پہلے وہ ایران کے شہر چاہ بہار میں تعینات تھا جہاں سے وہ سرحد عبور کرکے بلوچستان میں داخل ہوا اور پاکستانی اداروں کے ہتھے چڑھ گیا۔ تفتیش کی چکی سے گزرا تو اْس نے اعتراف کیا کہ اْسے پاکستان میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے، سی پیک کے خلاف کارروائیاں منظم کرنے اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو مضبوط کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا اور وہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقاتیں بھی کرتا رہا ہے‘ جس دوران اکثر افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار بھی شامل ہوتے تھے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان جاری کیے جانے کے بعد اِس پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلتا رہا اور پھر اْسے سزائے موت سنا دی گئی۔
یہیں سے معاملے نے ڈرامائی صورت اختیار کی اورکلبھوشن کو سزا سنائے جانے کے فوراً بعد بھارت کی طرف سے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کو دیے گئے احتجاجی مراسلے میں قرار دیا گیا کہ کلبھوشن یادیو کو گزشتہ برس ایران سے اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد اْس کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں کوئی ٹھوس وضاحت سامنے نہیں آئی۔ بیان کے مطابق انڈین حکومت نے 25 مارچ 2016 سے 31 مارچ 2017 کے درمیان اسلام آباد میں اپنے ہائی کمشنر کی وساطت سے کلبھوشن تک قونصلر رسائی کی 13 مرتبہ درخواست کی لیکن پاکستانی حکام نے اس سلسلے میں ایک بار بھی مثبت جواب نہیں دیا۔ بھارتی حکومت نے کلبھوشن یادیو کے ٹرائل پر بھی سوالات اٹھائے۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ اگر ایک انڈین شہری کو سنائی گئی سزا پر قانون اور انصاف کے بنیادی تقاضے پورے کیے بغیر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو انڈیا کی حکومت اور عوام اسے ایک منصوبہ بند قتل تصور کریں گے۔ جب بھارت نے دیکھا کہ مراسلے کا کوئی اثر نہیں ہوا تو اِس سے کئی قدم آگے بڑھتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے ملک کے ایوانِ بالا سے خطاب کرتے ہوئے قرار دیا کہ کلبھوشن کی سزا پر عمل کیا گیا تو یہ اقدام دو طرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا: میں پاکستانی حکومت کو خبردار کرتی ہوں کہ وہ اس معاملے پر آگے بڑھنے سے قبل اس کے باعث دو طرفہ تعلقات پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں اچھی طرح غور کر لے، کلبھوشن بھارت کا بیٹا ہے جس پر عائد کیے جانے والے الزامات من گھڑت ہیں۔ یہ اور اِسی سے ملتے
جلتے دیگر بھارتی رہنمائوں کے بیانات امن کی بانسری تو نہیں ہے جسے بھارت تسلسل کے ساتھ بجا رہا ہے۔ 
جوابا، پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ملکی پارلیمنٹ میں فوجی فیصلے کا مکمل دفاع کیا اور انڈین اعتراضات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ یہ تو سیدھا سیدھا قومی سلامتی اور مفادات کے دفاع کا معاملہ ہے، اس میں کھسر پھسر کی گنجائش ہرگز نہیں، وزیر دفاع نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ آرمی ایکٹ کے تحت کلبھوشن اب بھی 40 روز کے دوران اِس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتا ہے اور اگر اپیل میں بھی اْس کے خلاف فیصلہ ہو تو اِس کے خلاف وہ صدر ممنون حسین اور آرمی چیف سے رحم کی اپیل کر سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ اْسے فوری طور پر سزا دیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کلبھوشن کی گرفتاری عمل میں آئی تھی تو اْس کے فوراً بعد بھارتی وزراتِ خارجہ نے ایک بیان میں کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ویڈیو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں گرفتار کیے گئے شخص کا بھارت کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ویڈیو جھوٹ پر مبنی ہے۔ اِس کے بعد انڈین حکام نے تسلیم کر لیا کہ کلبھوشن انڈین بحریہ کا سابق افسر ہے اور اب بھارتی حکومت کی جانب سے کلبھوشن کو بھارت کا بیٹا قرار دے دیا گیا ہے۔ جو دوسری چیز کھٹکتی ہے‘ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے باشندے جاسوسی کے الزامات میں ایک دوسرے کے ہاں گرفتار ہوتے اور سزا پاتے رہے ہیں لیکن اِن کی گرفتاریوں اور سزائوں پر اعلیٰ سطح کے رہنمائوں کی طرف سے نہ تو کبھی اتنا شدید ردعمل سامنے آیا اور نہ ہی اس حوالے سے ''کسی بھی حد تک جانے‘‘ کے دعوے کیے گئے لیکن کلبھوشن یادیو کے حوالے سے بھارتی لیڈروں نے جو تند و تیز بیانات دیے ہیں، ان سے کم از کم دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر یہ تاثر ضرور تقویت پکڑ رہا ہے کہ پاکستان کا موقف درست ہے اور یہ شخص واقعی بھارت کا اعلیٰ سطحی ایجنٹ ہے، اسی لئے اسے سزا دینے پر پوری بھارتی حکومت پیچ و تاب کھا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نوعیت کا بھارتی ردعمل خود اس کے مفادات کے برعکس نتائج سامنے لائے کیونکہ جب عالمی سطح پر بھارت کے شدید رد عمل کو پرکھا جائے گا تو یہ جاننے کی کوشش ضرور ہو گی کہ اگر کلبھوشن یادیو ایک عام بھارتی شہری ہے، تو اس واقعہ پر غیر معمولی طور پر اتنا شدید ردعمل کیوں ظاہر کیا جا رہا ہے، بالکل اِسی طرح اب تک بھارت جن الزامات سے انکار کرتا رہا ہے، اس کا رویہ ہی انہیں درست ثابت کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
کلبھوشن کے معاملے کو لے کر صورت حال جلد واضح ہونے والی نہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر سزا کے قواعد جلد پورے نہ کیے گئے تو کلبھوشن کا آئندہ نامعلوم برسوں تک قید میں رہنا تو یقینی ہے۔ تو کیا اِس دوران صورت حال کوئی ایسا ڈرامائی رخ اختیار کر سکتی ہے کہ کلبھوشن کو کسی ڈیل کے تحت بھارت کے حوالے کر دیا جائے؟ بظاہر اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتے ہیں تو پھر ایسا کیا ہے جو انڈیا پاکستان کو کلبھوشن کے بدلے میں دینے کی پیشکش کر سکتا ہے؟ بھارت کے پاس ایسا بھی کچھ نہیں؛ البتہ اتنا ضرور ہے کہ گزشتہ دنوں ایک سابق پاکستانی فوجی افسر کی نیپال میں گمشدگی کو اس معاملے سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس بابت بھی کچھ ٹھوس شواہد دستیاب نہیں ہیں‘ تو مطلب یہ کہ بیشتر ادوار کے دوران، دونوں ممالک کے تعلقات میں ہمیشہ موجود رہنے والا تنائو کم از کم مستقبل قریب تک نہ صرف اِسی طرح بنا رہے گا بلکہ اِس میں مزید شدت پیدا ہو گی کہ بھارتی حکومت نے دھمکی دی ہے‘ ادھر پاکستان بھی اِس معاملے پر پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے میں دونوں ممالک میں رہنے والے امن کے خواہاں، لاکھوں کروڑوں باسیوں کی طرح یہی خواہش کی جا سکتی ہے کہ اِس معاملے کو نمٹانے میں تدبر اور عقلمندی حاوی رہنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں