"FBC" (space) message & send to 7575

فوک وزڈم

فوک وزڈم بڑی کمال کی چیز ہے جس کے پیچھے کوئی ڈگری تو نہیں ہوتی لیکن یہ صدیوں کے تجربات کا ایسا نچوڑ ہوتا ہے جو زندگی کو سمجھنے کا آسان اور اچھا راستہ ہے، روزمرہ کی زندگی میں مروجہ بیشتر اکھان،اِسی فوک وزڈم کی پیداوار قرار دئیے جاتے ہیں جو ہوتے تو بہت مختصر سے ہیں لیکن ایسے معنی خیز کہ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق بہت کچھ کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں، ایسے ہی گلی محلے میں، کسی بازار میں آتے جاتے بڑے بوڑھوں کی کسی محفل میں بیٹھ جائیے ،آپ ایسی بہت سی باتیں اور اکھان سن کر اُٹھیں گے جو آپ کی زندگی کا رخ تک تبدیل کرسکتے ہیں لیکن ہمارے بہت سے معاشرتی المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اب تو ہم کچھ ایسے ، ویلے مصروف، ہوچکے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے لیے وقت نہیں ہوتا تو بزرگوں کو کہاں سے وقت دیں گے اور جب ہم اُنہیں وقت نہیں دیں گے تو پھر اِس حقیقت کو سمجھنا کیوں کر ممکن ہوگا کہ صدیوں کے سفر کے بعد وجود میں آنے والی عقل و دانش کی باتیں ہم تک بھی پہنچ سکیں، ابھی آپ دیکھئے کہ ہمارے ملک میں اپنے پیاروں کو نوازنے کا کلچر جس طرح سے جڑ پکڑ چکا ہے ، اُس کی داستانیں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں کہ کس طرح اِس کے لیے قانون کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں اور پھر یہ پیارے کس طرح سے عوام کے پیسوں کو شیرمادر سمجھ کر ہضم کرجاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے،اِس پر لمبے چوڑے تبصرے بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن اِس تمام صورت حال کو پنجابی کے صرف ایک محاورے کی صورت پوری طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے ،چوری دے تھان ، تے ڈانگاں دے گز،،جو دوست پنجابی میں زیادہ شدبد نہیں رکھتے ، اُن کے لیے مختصرا ًبیان کیے دیتا ہوں کہ جب بدعنوانی کے پیسوں سے جیب بھری ہوتی ہے تو پھر اِسے بے دریغ لٹانے میں کوئی زیادہ تردد نہیں کیا جاتا اور ہمارے معاشرے میں ، شوآف، کی ایک بڑی وجہ بھی ہے ورنہ تو محنت سے کمائے ہوئے ایک ایک پیسے کو بھی سینت سینت کر خرچ کیا جاتا ہے ،آج چاہے سیاست ہو یا محکموں کی صورت حال،یہی صورت دکھائی نہیں دیتی،جہاں سے بھی قالین اُٹھایا جاتا ہے وہیں سے کرپشن اور اقرباپروری کی ایسی بدبو اُٹھتی ہے کہ ناک بند ہونے کو آجاتا ہے چاہے وہ کمپنیز اسکینڈل ہو یا پھر آف شور کمپنیوں کا معاملہ یا پھر آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سوسائٹی کا معاملہ ہو جسے بسایا تو غریب عوام کو چھت فراہم کرنے کے لیے جانا تھا لیکن سب کچھ اقربا پروری کی نذر ہوگیا،البتہ دعوے ہرطرف سے یہی سننے میں آتے ہیں کہ ہم تو ہیں ، دودھ کے دھلے ،باقی سب بے ایمان ہیں لیکن بات صرف چندایک مخصوص معاملات یا شخصیات تک ہی محدود کہاں رہتی ہے، دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا کسی نہ کسی طرح ہم سب اِس میں ذمہ دار نہیں ،نچلی سطح سے لے کر اوپر تک اور اوپر سے لے کر نیچے تک جھوٹ اور بے ایمانی کا ایسا دوردورہ ہے کہ جس کا کبھی شاید تصور بھی نہیں کیا گیا ہوگا، اب یہ الگ بات کہ اِس کا سب سے زیادہ نزلہ سیاستدانوں پر ہی گرتا ہے یا گرایا جاتا ہے اور اُنہیں ہی اِس کے لیے سب سے زیادہ قصور وار ٹہرایا جاتا ہے اور یہ نزلہ گرنے میں آج کل جو مخصوص تیزی آئی ہوئی ہے اُسے بھی ایک اور محاورے کی صورت جان لیتے ہیں کہ ،ڈاڈے دا ستی ویاں سو، تے ماڑے دا پنج ویاں سو وی کوئی نئیں مندا،مطلب یہ کہ جو طاقتور ہوتا ہے وہ اگر یہ کہہ دے کہ سات کو بیس مرتبہ جمع کیا جائے تو سو بنتا ہے اور اِسے سب تسلیم بھی کرلیتے ہیں لیکن اگر کمزور یہ کہے کہ نہیں پانچ کو بیس مرتبہ جمع کیا جائے تو سو بنتا ہے تو سچ ہونے کے باوجود اِسے تسلیم نہیں کیا جاتا۔تو بس کل تک جو جماعت ، چوپڑیاں نالے دودو، جیسی صورت حال سے لطف اُٹھا رہی تھی،آج اُس کے جو ماڑے دن آئے ہوئے ہیں تواِن کے فی الحال تو ختم ہونے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے اور نہ کوئی اُس کی دہائی سن رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے جو بساط بچھانے کی منصوبہ بندی بظاہر دکھائی دے رہی ہے ، مہرے عین اُسی کے مطابق ادھر سے اُدھر کھسکائے جارہے ہیں اور شہہ مات کھا لینے والے بادشاہ کوتو اب قصۂ پارینہ ہی جانئیے کہ اب وزیر ، تقریباًبادشاہ بن چکا ہے لیکن نئے بادشاہ کو پہلے سے ہی ایسے گھیر لیا گیا ہے کہ اِدھر بادشاہ نے خود سے کوئی حرکت کرنے کی کوشش کی تو اُدھر اُسے بھی شہہ مات ہوئی ۔مطلب وہ دن گئے کہ شیر ساریاں نوں کھاوے پر شیر نوں کوئی نہ کھاوے ۔اب کوئی لاکھ کہتا رہے کہ جناب شطرنج کی بساط پر فیل ترچھا چلتا ہے اور پیادہ صرف ایک گھر چل سکتا ہے ، کوئی نہ مانے گا ۔وہ شیخ سعدی کی ایک مشہور حکایت ہے کہ ایک لومڑی شہر سے باہر بھاگی چلی جارہی تھی،بس اُسے یہی فکر تھی کہ کسی طرح شہر کی حدود سے باہر چلی جائے ،اُسے اِس طرح سے بھاگم بھاگ ، بھاگتے دیکھ کر کسی نے پوچھا کہ بی لومڑی شہر میں کیا اُفتاد آن پڑی ہے جو تو اِس طرح سے بھاگی چلی جارہی ہے ، جواب ملا کہ شہر میں سرکاری ہرکارے آئے ہوئے اور اونٹوں کو پکڑ پکڑ کر لے جارہے ہیں، تو پھر تمہیں کیا خطرہ تم تو لومڑی ہو،جواب ملا نہ نہ، اگر کسی سرکاری ہرکارے نے کہہ دیا کہ یہ بھی اونٹ ہے تو میری کوئی نہیں سنے گا، بس مجھے تو اُٹھا لیا جائے گا توآج کے حالات دیکھ کر شیخ سعدی کی اِس حکایت سے اختلاف ممکن ہے۔
یقین جانئے کہ ذاتی طورپر میں ایک امید پرست انسان ہوں، نامساعد ترین حالات میں بھی اُمید کادامن تھامے رکھنے کی بھرپور کوشش رہتی ہے لیکن ستر سالوں سے جاری اقتدار اور حقیقی اقتدار کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے ، اُس کی چالیں، اُس کی بساط آج بھی وہی ہے جو کئی دہائیاں پہلے تھی، بس کردار تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ سب دیکھ کر اب تو دل جیسے وسوسوں سے بھر چکا ہے ،جو اقتدار میں آتا ہے اور جب تک اقتدار میں رہتا ہے تب تک اُسے یہی محسوس ہورہا ہوتا ہے کہ اب اقتدار کے ہما کو کوئی اُس کے سر سے اُڑا نہ پائے گا لیکن جب یکایک زمین پاؤ ں کے نیچے سے کھسکا دی جاتی ہے تو پھر وہی مظلومیت کا رونا ہی سننے کو ملتا ہے ،، جس کی اقتدار میں آنے کی باری ہوتی ہے اُسے صرف یہ لگن ہوتی ہے کہ بس کسی طرح سے اقتدار کا ہما اُس کے سر پر بیٹھ جائے ، بالکل ایسے جیسے اب جنہیں آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کا تقریبا یقین ہوچلا ہے یا یقین دلا دیا گیا ہے تو اُن کو یہ گمان ہے کہ سچی جمہوریت صرف وہی لے کر آئیں گے اور دعوے اُن کے بھی ایسے ہی ہیں کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو دودھ شہد کی نہریں بہا دیں گے ، ملک میں کوئی بے روزگار رہے گا نہ غربت،وغیرہ وغیرہ لیکن صورت حال ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے ، خیر،اج دی اج تے کل دی کل،تو آج کی صورت حال ہے تو یہی ہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد اُن کے عقاب کے پر بھی کٹ گئے ہیں اور وہ بھی اب تاحیات میدان انتخاب میں نہ اُتر سکیں گے ، خواجہ آصف اور ڈار خاندان کے درمیان 1999 ء میں جس سیاسی جنگ کا آغاز ہوا تھا،اُس کا نتیجہ ڈار خاندان کی کامیابی کی صورت سامنے آیا ہے اور بتانے والے تو یہ بتا رہے ہیں کہ چوہدری نثار کے متحرک ہونے کے دن بھی آگئے ہیں کہ مریم نوازکی وجہ سے شروع ہونے والے اختلافات کے درمیان ہی چوہدری نثار کہیں نہ کہیں خواجہ آصف کے کردار سے بھی نالاں رہے اور اب جبکہ وہ بھی میدان سیاست سے آؤٹ ہوگئے ہیں تو چوہدری نثار جلد ہی متحرک دکھائی دیں گے اور وزیرداخلہ احسن اقبال کی ممکنہ نااہلی کے بعد تو سب ٹھیک ہوجائے گا، گویا مگس اب باغ میں تو کیا کہیں بھی جانے کے قابل نہیں رہی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں