"FBC" (space) message & send to 7575

پانی کی عزت میں سب کی بھلائی!

جنوری 2006 ء میں پرویز مشرف کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 2016 ء تک ملک میں 5 بڑے ڈیم بنائے جائیں گے‘ جن میں بھاشاڈیم‘ مہمند ڈیم ( شروع میں اس کا نام منڈا ڈیم رکھا گیا تھا)کرم تنگی ڈیم‘ اکوڑی ڈیم اور کالاباغ ڈیم شامل تھے۔ تمام ڈیمز میں سے کالاباغ اور بھاشا ڈیمز سب سے بڑے تھے۔مشرف حکومت نے پہلے سندھ اور کے پی کے عوام اور کالاباغ ڈیم کی مخالف سیاسی جماعتوں کو قائل کرنے کی کوشش کی ۔ ناکامی پر اس بھاری پتھر کو چوم کرچھوڑ دیا ۔ یہ اتنا بھاری پتھر ثابت ہوا کہ اب اس کی تعمیر بیشتر صورتوں میں اگر ناممکن نہیں ‘تو انتہائی مشکل ضرور نظرآتی ہے۔ تعمیر کی صورت میں اس ڈیم میں سات اعشاریہ نو ملین ایکٹرفٹ پانی ذخیرہ ہونا تھا۔اس کے بعد بھاشا ڈیم کی باری آئی ‘ڈیم کے تفصیلی نقشے تیار کئے جانے لگے۔ ڈیم کی زد میں 32 دیہات آ رہے تھے اور 23ہزار لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑ رہی تھی‘ جنہیں حکومت کی طرف سے ایڈجسٹمنٹ کا یقین دلایا گیا تھا۔
ابھی بات یہیں تک پہنچی تھی کہ اسی دوران 18 فروری 2008ء میں ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے گئے۔انتخابات میں پیپلزپارٹی میدان مارنے میں کامیاب رہی‘ تو (ن) لیگ رنر اَپ قرار پائی ۔ پرویز مشرف کی (ق) لیگ تیسرے نمبر پر چلی گئی۔ وزیراعظم بننے کے بعد یوسف رضاگیلانی نے 2008 ء کو ایکنک سے بھاشا ڈیم کے لئے منظوری حاصل کر لی اور اس کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بعد بھاشا ڈیم بنانے کا راستہ صاف ہو گیا۔تب منصوبے کی تعمیر کے لیے 12سو ارب روپے کی ضرورت تھی۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے رقم دینے کی حامی بھی بھر لی‘ لیکن بھارت کی مخالفت نے معاملہ بگاڑ دیا کہ بھاشا ڈیم متنازعہ علاقے میں بنایا جارہا ہے ۔اس تناظر میں اگست 2012 ء میں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے دی جانے والی رقم روک لی‘ جس کی فراہمی کے لیے بھارتی رضامندی لازمی قرار پائی‘ 24 مارچ 2013ء کو پانچ سال مکمل ہونے پر پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔
نئے ڈیمز تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے پانی کہ قلت الارمنگ سطح تک پہنچ چکی تھی‘ جس کا نتیجہ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کی صورت میں سامنے آنے لگا تھا‘(ن) لیگ نے انتخابی مہم لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر ہی چلائی اور وعدہ کیا کہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردے گی‘عوام نے اعتماد کیا اور 5 جون 2013ء کو میاں نواز شریف اقتدار کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اس نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے قابل ِقدر کام تو کیا‘ لیکن اس کے لیے مہنگی تھرمل بجلی کی پیداوار پر ہی انحصار کیا گیا۔ شاید سیاسی ضرورتوں کے تحت پہلی ترجیح کسی بھی صورت لوڈشیدنگ کے مسئلے سے نمٹنا تھا۔
7 اگست 2013ء کواس وقت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ بھاشا ڈیم پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا اور یہ منصوبہ 10 سے 12 سال میں مکمل ہو جائے گا‘ لیکن عالمی مالیاتی ادارے قرض دینے کے لیے تیار نہ ہوئے ۔اس دوران سی پیک کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔2017 ء میں حکومت کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا کہ چین کی طرف سے بھاشا ڈیم کی تعمیر میں دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے۔ 2017ء میں بتایا گیا کہ چین نے بھاشا ڈیم بنانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے ۔ شومئی قسمت کہ 28 جولائی 2017ء کو اس نواز شریف پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے اور وزارت ِعظمیٰ کا ہما شاہد خاقان عباسی کے سر پربیٹھ گیا۔بھاشا ڈیم ابھی تک وہیں کا وہیں تھا ‘جسے اب اپنی جیب سے بنانے کا ارادہ کیا گیا‘ لیکن تب تک اس کی لاگت میں اضافہ ہوچکا تھا ‘جس کے پیش نظر اس کی دوحصوں میں تعمیر کی منظوری دی گئی ؛ پہلے مرحلے میں بند باندھ کر پانی ذخیرہ کرنے تک کا منصوبہ مکمل کرنے اور دوسرے مرحلے میں بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
پہلے مرحلے کے لئے 625 ارب‘ جبکہ دوسرے مرحلے کی تکمیل کے لئے 744 ارب روپے کے اخراجات کا اندازہ لگایا گیا۔ مارچ 2018ء میں حکومت نے بند باندھ کر پانی جمع کرنے والا حصہ تعمیر کرنے کی منظوری دے دی اور طے کیا گیا کہ کل 625 ارب روپے میں 472 ارب روپے وفاقی حکومت اور واپڈا مل کر ادا کریں گے‘ جبکہ باقی 153 ارب روپے کی رقم بیرونی قرضہ لے کر پوری کی جائے گی۔اس کی مدت تکمیل پانچ سال رکھی گئی ۔اس کے بعد (ن) لیگ کی حکومت ختم ہوئی ‘تو منصوبے پر ایک مرتبہ پھر کام کی رفتار سست ہوگئی ۔لگے ہاتھوں مختصر سی تفصیل مہمند ڈیم کی بھی جان لیتے ہیں :۔
یہ ڈیم قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں دریائے سوات پر بنایا جانا مقصود ہے۔ اس کی تعمیر 2012ء میں شروع ہونا تھی اور اسے 2016ء میں مکمل ہونا تھا‘ لیکن ابھی تک صرف پی سی ون ہی مکمل ہوا ہے‘ اگر یہ ڈیم تعمیر ہوجاتا ہے‘ تو اس سے 800 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور 12 لاکھ ایکٹر سے زائد پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا ‘ یہ وہ دونوں ڈیمز ہیں‘ جن کی تعمیر کے لیے سپریم کورٹ بھی ‘ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں میدان میں قدم رکھ چکی ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے دونوں ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈ بھی قائم کیا جاچکا ہے‘ جس میں رقوم جمع کروانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا ایسے ڈیمز جن کی لاگت کا تخمینہ 8سے 20 ارب ڈالر تک کا ہو‘ وہ عطیات کی رقوم سے تعمیر ہوسکتے ہیں؟اگر صرف دیا میربھاشا ڈیم کی بات کی جائے‘ تو اس کے لیے اگر ملک کے تمام شہری 30000 روپے فی کس کے تناسب سے فراہم کریں‘ تو شاید کچھ دال دلیہ ہوجائے‘ لیکن مختلف عوامل کی بنا پر بظاہر ایسا ہونا ناممکن ہی دکھائی دیتا ہے۔ اب اس سوال کا اٹھنا لازمی امر ہے اور یہ سوالات اٹھ بھی رہے ہیں کہ اگر ایسا ہونا ناقابل ِعمل ہے‘ تو پھر چیف جسٹس نے یہ اقدام کیوں اٹھایا؟اس کی مختصر سی توجیح یہ ہے کہ اس کا مقصد اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے ‘ اگر اب بھی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہ کیا گیا‘ تو پھر ملک کے ریگستان بننے کا وقت بہت قریب آجائے گا ۔ 
بہت ہی واضح رپورٹس کے مطابق 2040 ء تک ہمارا ملک خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے‘آج یہ عالم ہوچکا کہ پانی کے نئے ذخائر تعمیر نہ کیے جانے کے باعث ہر سال اتنا پانی سمندر میں چلا جاتا ہے ‘ جسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم کے برابر تین اور ڈیمز کی ضرورت ہے۔بارشوں سے ہر سال قریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی ہمارے دریاؤں میں آتا ہے‘ لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی ہی ذخیرہ ہوپاتا ہے ‘باقی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے‘ یہی وہ صورت ِحال جو عالمی سطح پر بھارت کے موقف کو مضبوطی فراہم کرتی ہے۔ بھارت یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ جب پاکستان نے یہ پانی ضائع ہی کرنا ہے‘ تو پھر کیوں نہ وہ اسے استعمال کرلے۔ایک طرف یہ صورت ِحال ہے‘ تو دوسری طرف ہماری بے احتیاطی کا یہ عالم کہ ہمارا ملک سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ‘اہل لاہور اوسطا ًہر روز 60 سے 80 گیلن فی کس کے تناسب سے پانی استعمال کرتے ہیں۔ یہ شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ان حالات میں اگر سپریم کورٹ نے یہ قدم اٹھایا ہے ‘تو مختلف تحفظات کے باوجود اس کی نہ صرف تحسین کی جانی چاہیے ‘جس حد تک بھی ممکن ہو ‘ ڈیمز فنڈ میں اپنی بساط کے مطابق رقم جمع کرانی چاہیے‘ چاہے یہ سو روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔کم از کم قوم کی طرف سے یہ سنجیدگی تو ظاہر ہو کہ وہ پانی کی کمی کے سنگین ہوتے مسئلے سے آگاہ ہے۔ عوام کی سنجیدگی اور تعاون آنے والی حکومت پر بھی دباؤبڑھائے گا کہ وہ ڈیمز کی تعمیر کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے۔ڈیمز کی تعمیر یقینا آسان نہیں ہے۔اس میں صرف رقم ہی بڑا مسئلہ نہیں ہوتی ۔ان کی تعمیر کے دوران ایک بڑی آبادی کی منتقلی بھی بڑا مسئلہ ہوتی ہے۔ان کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کا اعتماد حاصل کرنا ہوتا ہے‘ تو ان کی راہ میں دوسری بہت سی رکاوٹیں بھی حائل ہوتی ہیں ‘ لیکن یہ سب کچھ اب کرنا ہی ہوگا۔ چاہے‘ اس کے لیے دوسرے ترقیاقی منصوبوں کو روکنا پڑے یا پھر بجلی کے بلوں اور موبائل فونز وغیرہ پر عائد ٹیکسوں کا رخ ڈیمز فنڈ کی طرف موڑنا پڑے‘کیونکہ صورت ِحال حقیقتاً اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ پانی کی عزت میں ہی سب کی بھلائی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں