"FBC" (space) message & send to 7575

وقت کی دوڑ...!

محفل میں شرکت کے لیے اصرار بہت پرُزور تھا اور انکار کی مزاحمت بھی دم توڑ چکی تھی۔ محفل میں ملاقات بہت مختصر سی تھی‘ تو بات بھی بہت مختصر سی ہی کہی گئی‘ لیکن ایسی کاٹ دار کہ سیدھی دل میں تیرکی طرح ترازو ہوگئی۔ایسی زور دار کہ شخصیت کے ننگے پن کو پوری طرح سے سامنے لا کھڑا کیا ۔ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ صرف اتنا کہا گیا تھا ''اچھا بولتے ہو‘ لکھتے بھی اچھا ہو‘ لیکن کبھی اپنے بارے میں بھی سچ جاننے کی کوشش کی ہے یا ہمیشہ دوسروں کی ٹوہ میں ہی رہتے ہو‘ جو کچھ لکھتے یا کہتے ہو ‘ کبھی خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے یا دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت والا معاملہ ہے‘‘۔خدا معلوم آواز میں کیا تاثیر رہی کہ بالکل عام سی بات نے زندگی کا پورا فلسفہ ہی بیان کردیا۔ سب کچھ ہوا ہوکر رہ گیا اور پیچھے صرف شرمندگی باقی رہ گئی۔کوئی جواب نہیں تھا ‘ان باتوں کا ‘بس خاموشی تھی اوراسی خاموشی کی آڑ میں ‘ آدابِ محفل کے خلاف وہاں سے اٹھنے میں ہی عافیت جانی۔اس وقت کو بھی کوسا جب علامہ اقبال ٹاؤن میں سجنے والی اس محفل میں جانے کا ارادہ کیا تھا۔
یقین جانئے... ایسی کیفیت پہلے کبھی نہیں محسوس کی تھی۔ شرمندگی کا ایسا احساس پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ روح تک جھرجھرانے لگے۔سوچوں نے ذہن کے گرد ایسا گھیرا ڈالنا شروع کیا کہ جس بھی حوالے سے سوچا‘ پسماندگی کی کوئی نہ کوئی صورت سامنے آہی گئی؛اپنی ذات کی بھی اور معاشرے کی بھی۔اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ پھر بھی ہم دعوے اپنے عظیم ترین ہونے کے ہی کرتے ہیں۔کہہ مکرنیوں کا ایسا عالم... گویا سچ پر سے اعتبار ہی اُٹھ گیا ہو۔ کوچہ و بازار میں صبح جھوٹ کا جو کاروبار شروع ہوتا ہے‘ تو پھر رات گئے یہ حساب لگایا جاتا ہے کہ کس جھوٹ سے کتنا کمایا گیا ؟ خود کو بھی ایسا کرنے والوں کے شانہ بشانہ محسوس کیا۔ کچھ دوردراز کے شعبہ ہائے زندگی بھی نظروں میں گھومنے لگے‘ جن کے قالینوں تلے چھپی گندگی کو سامنے تو آنا چاہیے‘ لیکن یاد آیا کہ طاقتوروں کا سچ سامنے لانے سے تو دوسروں کی طرح میں بھی ڈرتا ہوں۔ہاں !پر جن سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہوتا ‘ان کے حوالے سے بھرپورکوشش ہوتی ہے کہ کوئی سچ سامنے آنے سے رہ نہ جائے۔انسان کو ہمیشہ بہادری کامظاہرہ کرنا چاہیے کہ فارمولے پر بھی یقین ہے‘ لیکن یہ دھڑکا جان ہی نہیں چھوڑتا کہ معلوم نہیں کب کیا ہوجائے ... ویسا ہی ان دیکھاخوف اور ڈر اپنی رگوں میں بھی محسوس کرتا ہوں‘ جو معاشرے کے رگ وپے میں سرایت کرگیا ہے۔ ایسا ڈر جس نے بحیثیت ِقوم ‘ ہماری نشوونما ہی روک دی ہے۔
ایسے میں سوچ آئی کہ اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے کہ ''رشوت لینے اور دینے والے‘ دونوں جہنمی ہیں‘‘ لیکن آج کیا عالم ہے کہ کوئی کام رشوت کے بغیر ہوتا ہی نہیں ۔ رشوت دینے میں شرم محسوس ہوتی ہے ‘نہ وصول کرنے میں؛ البتہ اسے کمیشن کا نام دے کر دل کو ضرورتسلی دے لی جاتی ہے ‘ پھر بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہم دن رات ایک کیے رکھتے ہیں کہ میں سب سے صاف ستھرا ہوں ۔ میں سب سے اعلیٰ کردار کا مالک ہوں‘ بس میںدودھ کا دُھلا ہوں ۔ دولے شاہ کے چوہوں کی طرح اپنے چھوٹے چھوٹے سروں میں موجود چھوٹے چھوٹے دماغوں کو عالی دماغ ثابت کرنے میں جتے رہتے ہیں۔ برداشت کی باتیں کرتے ہیں‘ لیکن جہاں کسی طاقتور کے سامنے کسی کمزور کی طرف سے کوئی اختلاف رائے سامنے آجاتا ہے‘ تو پھر اس جرأت کا مظاہرہ کرنے والے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔آجر ‘ اجیر کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ۔تاجر ‘ گاہک کو چونا لگانے کے چکر میں رہتا ہے۔ مذہبی پیشوا اپنی الگ ہی دکان سجائے نظرآتا ہے اور دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم عظیم قوم ہیں۔
سوچیں تھیں کہ قطار اندر قطار چلی آرہی تھیں۔دل کے پھپھولے خود سے ہی پھوٹتے چلے جارہے تھے ۔ مانو کسی نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ محفل میں کہی ہوئی ایک اور بات یادداشت میں گونجی '' مان لیتے ہیں کہ اغیار ‘ وسائل کے اعتبار سے ہم سے آگے ہیں‘ہمارے لیے اس اعتبار سے ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ‘تواللہ کے بندوں وسائل میں غیروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘ تو کم از کم معاشرت کو ہی بہتر بنا لو‘آپس میں ہی ایک دوسرے کے لیے اپنے دلوں سے کدورتیں دور کرلو‘جھوٹ بول بول کر اور ناجائز طریقوں سے دولت سمیٹ سمیٹ کر آخرت تو خراب کرہی رہے ہو‘ کم از کم دنیا کو ہی بہتر بنا لو‘کون کہتا ہے‘ تمہیں کہ لین دین صاف ستھرے طریقے نہ کرو؟ کون کہتا ہے تمہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ مسکرا کر نہ ملو؟کون تمہیں مجبور کرتا ہے کہ دوسروں کی جائیدادوں پر قبضے کرتے پھرو اور جھوٹے مقدمے دائر کرو؟اللہ کا واسطہ ہے‘ کچھ تو سوچو کچھ تو خیال کرو۔کہتے ہو کہ ایک دن مرنا ہے ‘تو پھر کیوں اس دن کی تیاری نہیں کرتے؟جب اعمال نامے تمہارے ہاتھوں میں تھما دئیے جائیں گے‘ جن میں سب کچھ صاف صاف بیان کردیا جائے گا‘‘۔
باتیں ہتھوڑے کی طرح دماغ پر برس رہی تھیں۔ اپنے گریبان میں جھانکا تو یاد آیا دن کی ابتدا ہی جھوٹ سے کی تھی ؛ اگرچہ اس کے بعد ایک تعلیمی ادارے میں جا کر سچ پر لیکچر بھی دیا تھا ۔نوجوان نسل کوبہت تفصیل سے بتایا تھا کہ میرے بچو ہمیشہ سچ بولو‘ سچ بولنا بہت اچھی بات ہے ‘ کبھی تکبر اور غرور کو اپنے پاس بھی مت پھٹکنے دینا‘پر سچ بتاؤں‘ بالکل سچ!اب محسوس ہورہا تھا کہ وہ سب باتیں بالکل کھوکھلی تھیں ‘جن کا کھوکھلا پن اب کھل کر مجھ پر قہقہے لگا رہا تھا ۔ مانو کہ کتنے بڑے منافق ہو ؟ جتنی بھی باتیں کررہے تھے‘ان میں سے کسی ایک پر کبھی خود بھی عمل کیا ہے؟جب خود عمل نہیں کرتے‘ تو پھر کیونکر دوسروں سے یہ امید رکھتے ہو کہ تمہاری باتوں کا یقین کیا جائے گا۔کبھی تم نے غور کیا ہے کہ یہ جو تم اتنا کچھ لکھتے ہو‘ اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اور اثر ہونا بھی نہیں ‘کیونکہ تمہیں خود بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف منافقت ہے اور کچھ نہیں۔یہ صرف دوغلا پن ہے‘ بالکل ویسا دوغلا پن ‘جس کا شکار ہمار ا معاشرہ بہت پہلے سے ہوچکا ہے۔قیام ِپاکستان کے وقت سے ہی ‘ جب جائیدادوں کے جھوٹے کلیم داخل کرانے کا وہ سلسلہ شروع ہوا تھا‘ جس نے ککھ پتیوں کو لکھ پتی اور لکھ پتیوں کو ککھ پتی بنا دیا تھا اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ کم نہیں ہوا‘ بلکہ بڑھا ہے۔
اندر کا سچ اس قدر ظالم ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور اب جو ہتھوڑے برس رہے تھے ‘تو سب کچھ ہی کچلا چلا جارہا تھا۔ کہاں کی علمیت‘ کہاں کی رواداری ‘ کہاں کی معاشرت ‘کہاں کی سچائی اور کہاں کی سیاست ‘ سب کچھ گندگی میں ایسے لتھڑا محسوس ہوا کہ گھن سی آنے لگی تھی ۔ خود سے بھی کہ میں ہمیشہ دوسروں کی ٹوہ میں رہا۔سچ لکھنے کا ارادہ کیا بھی ‘تو دوسروں کے بارے میں اور خود کو ہمیشہ پارسا ہی ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔دوسروں کو سچائی کا درس دیتا رہا اور خود جھوٹ بولتا رہا۔دوسروں کو رواداری کا سبق پڑھاتا رہا اور خود اپنے رشتے داروں سے بھی قطع تعلق کیے رکھا۔ہرکسی پر علمیت کا رعب جھاڑتا رہا‘ لیکن اندر سے جاہل ہی رہا ۔بس اطمینان تھا تو اتنا سا کہ میں بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہوں‘ تو پھر میں کیونکر ان سے مختلف ہوسکتا تھا ؟اس احساس اور سوچ نے تھوڑی سی ڈھارس بندھائی‘ تو اطمینان کا سانس لیا ۔ وہ کیفیت جو محفل میں موجود ہونے اور وہاں سے اٹھ آنے کے بعد ابھی تک چھائی ہوئی تھی‘ وہ کمزور پڑنے لگی‘ تو طمانیت کا احساس قدرے بڑھ گیا تھا ۔روح پر چھایا ہوا اندر کا سچ پھر سے منہ چھپا نے لگا تھا ۔ یہ سوچیں حاوی ہونے لگی تھیں کہ اگلی صبح کون کون سے کام کرنے ہیں اور کس کس سے ملنا ہے۔
بات یہیں تک پہنچی تھی کہ آنکھ کھل گئی۔اِدھر اُدھر دیکھا‘ خود کو ٹٹولا اور پھر بے اختیار اطمینان کی ایک لمبی سانس لی کہ یہ سب کچھ خواب تھا۔طمانیت کی ایک لہر سی پورے جسم میں پھیل گئی تھی ۔شکر ادا کیا کہ سب کچھ نارمل ہے ‘ورنہ تو لینے کے دینے پڑ جاتے۔اب ظاہر ہے کہ زندگی میں جھوٹ سچ بولنا ہی پڑتا ہے۔لین دین میں بھی اونچ نیچ ہوہی جاتی ہے۔دوسروں کے بارے میں جاننے کا تجسس تو ہوتا ہی ہے۔ خود کو عالم فاضل بھی ثابت کرنا ہی پڑتا ہے۔شکر ہے یہ سب کچھ سچ نہیں تھا‘ ورنہ میں تو وقت کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ جاتا...!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں