"FBC" (space) message & send to 7575

جھوٹ کی سالگرہ

پاکستان اور بھارت کے درمیان تین طرح کی سرحد بندی ہے:بین الاقوامی سرحد‘ ورکنگ باونڈری اور کنٹرول لائن۔ان تینوں طرح کی سرحدوں پر حالات مختلف ہیں‘ کیونکہ ان کی نوعیت بھی مختلف ہے۔بین الاقوامی سرحد وہ ہے‘ جس پر دونوں ممالک متفق ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے کی بابت دونوں میں سے کوئی بھی نہیں سوچ سکتا۔ انٹرنیشنل بارڈرز کی خلاف ورزی کا مطلب دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہے۔ورکنگ باؤنڈری وہ سرحد ہے‘ جسے بھارت تو تسلیم کرتا ہے‘ لیکن پاکستان نہیں‘ کیونکہ ورکنگ باؤنڈری کے دوسری طرف کشمیر کا علاقہ جموں ہے۔ پاکستان اس علاقے کو کشمیر کا حصہ گردانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورکنگ باؤنڈری پر واقع پاکستانی دیہاتوں پر بھارت گولہ باری بھی کرتا رہتا ہے۔ورکنگ باؤنڈری پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی تو رہتی ہے‘ لیکن ویسی نہیں جیسی کنٹرول لائن پر موجود رہتی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان کنٹرول لائن وہ سرحد ہے‘ جسے دونوں ممالک ہی تسلیم نہیں کرتے اور یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے زیادہ کشیدگی والی سرحد ہے۔ یہ بھی کہ اسے شاید سرحد قرار ہی نہیں دیا جاسکتا ‘کیونکہ دونوں میں سے کوئی بھی اسے تسلیم نہیں کرتا۔29ستمبر 2016 ء کو بھارت کی طرف سے ایک دعویٰ سامنے آیا کہ اس کی بری فوج نے کنٹرول لائن پار کرکے آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کی ہے۔اس مبینہ سرجیکل سٹرائیک کی بھارت نے سرکاری طور پر دوسری سالگرہ منائی ہے۔اس آپریشن کے بارے میں بھارتی حکومت نے اعلان جاری کیا تھا کہ مبینہ سرجیکل سٹرائیک کا مقصدپاکستان کو کشمیر میں مسلح تشدد کی پشت پناہی سے روکنا تھا۔آپریشن کا یہ مدعا بھی بیان کیا گیا کہ اس کا ایک مقصد بھارت کی مجموعی سلامتی اور کشمیر میں امن کی بحالی کو ممکن بنانا تھا۔ یہ دعویٰ سامنے آنے کے بعد جہاں پاکستان کی طرف سے اِس کی تردید سامنے آئی‘ وہیں بھارت کے اندر سے بھی اس دعوے پر سوالات اٹھائے گئے ‘جو ہنوز جواب طلب ہیں۔اس بابت مزید بات کرنے سے پہلے تھوڑا یہ جان لیتے ہیں کہ بھارت کو یہ دعویٰ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟19ستمبر کو مقبوضہ کشمیر کے قصبے اُوڑی میں ایک چھاؤنی پر حریت پسندوں نے حملہ کیا ‘جس کے نتیجے میں 20بھارتی فوجی مارے گئے۔ انہیں دنوں بھارتی پنجاب کے شہر پٹھان کوٹ میں واقع بھارتی فضائیہ کے اڈے پر بھی حملہ ہوا تھا۔ ان حملوں پر بھارت میں شور مچا تو بھارتی حکومت کی طرف سے مبینہ سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ سامنے آگیا۔ کافی بعد میں بھارت میں ایک بھی ویڈیو جاری کی گئی‘ جو بھارتی دعوے کے مطابق‘ اس وقت بنائی گئی تھی جب انڈین فوج عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کیلئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوئی تھی۔ اس میں بظاہر تباہی کے مناظر دیکھے جاسکتے تھے‘ لیکن اِس سے کسی طور یہ واضح نہیں ہوسکا تھا کہ یہ کارروائی کہاں کی گئی۔بھارتی دعوے کے مطابق یہ سٹرائیک ‘ بھارت کی شمالی کمان کے اْس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کی نگرانی میں ہوئی تھی۔انہیں جنرل ہوڈا سے ریٹائر ہونے کے بعد ایک موقع پر جب آپریشن کی بابت استفسار کیا گیا ‘تو ان کا جواب تھا کہ وہ کارروائی کی تفصیلات تو نہیں بتا سکتے‘ لیکن اس کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔بقول جنرل ہوڈا کے بھارتی فوج اور حکومت نے یہ قدم اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اٹھایا تھا کہ پاکستان کے ساتھ باقاعدہ جنگ نہیں چھیڑی جاسکتی۔یہ رہا تصویر کا ایک رخ۔ اب ایک نظر اس کے دوسرے رخ کا جائزہ لے لیتے ہیں۔
پاکستان نے پہلے دن سے ان بھارتی دعووں کی سختی سے تردید کی۔ملک کے عسکری حکام کا یہ چیلنج بھی سامنے آیا کہ پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد کوئی واپس نہیں جاسکتا۔اس عزم کو بھی دہرایا گیا کہ مسلح افواج ملکی سرحدوں کی نگہبانی کے لیے پوری طرح سے چوکس ہیں۔ظاہر ہے جب کسی چیز کا کوئی وجود ہی نہ ہو تو اسے کوئی بھی ذی شعور تسلیم نہیں کرسکتا۔خود بھارت میں اس پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ بھارت میں اس پر پہلا اعتراض حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگرس کی طرف سے سامنے آیا۔اس کی طرف سے سوال اٹھایا گیا کہ کیا حکومت فوج کی کارروائی کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے تو استعمال نہیں کر رہی ہے ؟یہ استفسار بھی کیا گیا کہ کیا یہ ویڈیو جاری کر کے حکومت نے سرحد کے قریب رہنے والے لوگوں اور وہاں تعینات فوج کے جوانوں کی سکیورٹی کو خطرے میں نہیں ڈال دیا؟ان سوالوں کا حکومت کی طرف سے کوئی جواب سامنے نہ آنے پر کانگرس کے ترجمان انندشرما کا ایک اور بیان سامنے آیا جس میں واضح طور پر سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کو حقیقت کے منافی قرار دیا گیا۔ اسی دوران اس بھارتی دعوے کی ایک اور حقیقت اس وقت کھلی جب بھارت کے ایک سابق وزیر دفاع منوہر پاریکر نے ایک الگ ہی دعویٰ کردیا۔انہوں نے دعوی کیا کہ مرکزی وزیر راجیہ وردھن سنگھ راٹھور سے ایک ٹیلی ویژن اینکر کے تو ہین آمیز سوال کی وجہ سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کا فیصلہ کیا گیا۔اس کی تفصیلات بھی خود منوہر پاریکر کی زبانی ہی سن لیجئے‘ جن کا کہنا ہے: راجیہ وردھن ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران بتارہے تھے کہ 4 جون 2015 ء کو ملک کے شمال مشرقی علاقے میں سرگرم ایک علیحدگی پسند گروپ این ایس سی این نے منی پور کے چندیل ضلع میں بھارتی فوج کے ایک قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا ‘ اس حملے میں بھارتی فوج کے 18 جوان ہلاک ہوگئے‘ اس حملے پر فوج کے اعلیٰ حکام نے توہین محسوس کی اور 8جون 2016ء کو بھارت‘ میانمار سرحد پر سرجیکل سٹرائیک کی گئی ‘اس سٹرائیک میں 70سے 80دہشت گرد مارکر اس حملے کا بھرپور جواب دیا گیا۔ اس کے جواب میں ٹی وی اینکر نے پوچھا کہ کیا آپ ایسی کارروائی مغربی سرحد پر کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں؟منوہر پاریکر نے دعویٰ کیا کہ سرجیکل سٹرائیک کا فیصلہ اس شو میں پوچھے جانے والے اس ایک سوال کا نتیجہ ہے۔اس دعوے کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے ٹویٹ کیا تھا ‘ اگر ایک نیوز اینکر کے مبینہ سوال کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ کیا جاتا ہے ‘تو پھر اس ملک کے عوام کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟۔اس دعوے کی حقیقت کے بارے میں یہ صرف چند ایک مثالیں ہیں ‘ورنہ تو بھارت کے اندر سے اتنی آوازیں اٹھیں کہ انہیں خاموش کروانا حکومت کے لیے مسئلہ بن کررہ گیا۔
چلئے‘ اگر ایک لمحے کے لیے یہ تصور بھی کرلیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے یہ سٹرائیک کی گئی تھی ‘‘تو کیا کشمیر میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی؟اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ نہیں‘‘‘اس کا جواب خود بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے اعدادوشمار سے ملتا ہے۔ان اعدادوشمار کے مطابق 2016ء میں ایک سوبھارتی اہلکار مسلح حملوں میں مارے گئے‘ جبکہ سرجیکل سٹرائیکس کے بعد والے سال‘ یعنی 2017ء میں یہ تعداد 124 ہوگئی۔2018ء میں بھی حریت پسند پچھلے قدموں پر جاتے نظر نہیں آرہے۔اب تو صورتحال یہ ہوچکی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے نتیجے میں ہی 30سال کے دوران پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے کشمیر کے بارے میں رپورٹ جاری کی۔رپورٹ میں بھارت سے کہا گیا کہ وہ ہلاکتوں کی تحقیقات کرے اور اقوام متحدہ کے مبصرین کو کشمیر میں حالات کا جائزہ لینے کی اجازت دے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے اس رپورٹ کی توثیق کی اور نیویارک ٹائمز سمیت کئی عالمی اخبارات میں مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کو ہدف تنقید بنایا گیا۔سیاسی طور پر بھی مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔سرجیکل سٹرائیک کے بعد چار ماہ سے کشمیر میں گورنر راج نافذ ہے۔ پنچایتی انتخابات کی آڑ میں مزید فوج کشمیر بھیجی جارہی ہے‘ لیکن بنیادی طور پر اس کا مقصد کشمیر میں اندر سے مضبوط ہوتی ہوئی‘ تحریک آزادی کو دبانا ہے‘ ورنہ... اگر مبینہ سرجیکل سٹرائیک کا مقصد کشمیر کے تنازعہ کو ختم کرنا تھا‘ تو یہ مقصد الٹے نتائج پیدا کرچکا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل راوت کی طرف سے تسلسل سے جنگی جنون کو ہوا دی جارہی ہے۔ان کی طرف سے ایک اور سرجیکل سٹرائیک کی بات بھی کی گئی ہے‘ لیکن واضح طور پرگزشتہ 23 سال کے دوران پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کی گرفت کمزور ہوتی نظرآرہی ہے۔یہ الگ بات کہ بھارت اِسے تسلیم کرے یہ نہ کرے۔جب تمام تر حقائق بھارت کی مبینہ سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کو جھٹلا رہے ہیں ‘تو پھر اس بات کا جواب بھی بھارتی حکومت ہی دے سکتی ہے کہ کس بوتے پر سرکاری سطح پر اس کی دوسری سالگرہ منائی گئی؟ایک بڑا ملک ‘جس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے‘اسے غلطی اور جھوٹی باتوں کا پراپیگنڈہ کرنا ہرگززیب نہیں دیتا۔اس سے کہیں بہتر ہے کہ بھارت جھوٹ کی سالگرہ منانے کی بجائے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی طرف توجہ دے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں