"FBC" (space) message & send to 7575

مس ہینڈلنگ

یہ تو طے ہوگیا کہ بعض اوقات حصول انصاف کے لیے وزیروں مشیروں کو بھی بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔بعض اوقات تو معاملات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ آئی جی تک کو معطل کرانا پڑجاتا ہے۔آئی جی کو ملائیشیا میں ہونے کے باوجود یہ حرکت تو ہرگز نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ مصیبت میں گرفتار ارب پتی وزیر کا 22گھنٹوں تک فون ہی نہ سنتے ۔اور نہیں تو آئی جی صاحب کو سابق ڈی پی او پاکپتن ‘رضوان گوندل کے معاملے سے ہی سبق سیکھ لینا چاہیے تھا۔اب اپنے سامنے ہونے والے واقعات سے سبق سیکھنے کی بجائے کوئی اوکھلی میں سر دے دے‘ تو پھر اُس کی ذمہ داری!۔اس کے لیے کسی اور کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ یہ معاملہ کون سا اتنا پرانا ہوگیا تھا کہ اسے اتنی جلدی بھلا دیا جاتا۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے ‘جب ہمیشہ رواداری کا سبق دینے والے بابافرید جی کے مزار پر پولیس کی طرف سے اعلیٰ شخصیات کے تعلق داروں کو روکا گیا ۔بات توتکار سے آگے بڑھی‘ تو خمیازہ اُس وقت کے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو بھگتنا پڑا تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا تو کم از کم اس موقع پر تو فریقین باباجی کے ارشادات کا کچھ پاس رکھ لیتے۔؎
فریدا جے توں ہوسیان‘ کم نہ بھیڑے کر
اپنے اندر جھاٹی پا تے رب دے کولوں ڈر
وہ تو معاملہ رونے دھونے‘ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے تحریری معافی نامہ داخل کرائے جانے اور یہ یقین دہانی کرائے جانے کے بعد نمٹ گیا کہ آئندہ حکومت ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہے گی ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ ‘لیکن سمجھنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ حکومت تو حکومت ہوتی ہے۔حکومت کا کام ہوتا ہے کہ شکایت چاہے وزیر کی ہو‘ عزیز کی ہو یا پھر بھٹے بیچنے والی یا پھر دہی بھلے فروخت کرنے والے کی‘ جس کے ساتھ بھی ظلم ہو‘ ریاست اُس کی داد رسی کے لیے کچھ اس طرح کمربستہ ہوجائے کہ ڈی پی او یا آئی جی کو بھی تبدیل کرنا پڑے‘ تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔اب اس کی عملی مثالیں قائم ہورہی ہیں ‘تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے بھی کوئی بتائے گا کہ جب داد رسی کی فریاد وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے کانوں تک پہنچے اور وہ بھی اس کا نوٹس نہ لیں‘ تو یہ بھلاکوئی اچھی بات ہوگی؟یوں بھی ا گر وزیراعلیٰ ایک ڈی پی اواوروزیراعظم ایک آئی جی کو بھی اُن کے عہدے سے نہ ہٹا سکیں تو پھروزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کا فائدہ کیا؟ نئے واقعہ سے تو یہ غلط فہمی بھی دُور ہوگئی کہ ہمیشہ صرف وزیرمشیر اور بااثر افراد ہی زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ شاید یہ بدلتی ہوئی روایات کا نتیجہ ہے کہ اب خیمہ بستیوں میں رہنے والوں میں بھی اتنی جرأت آگئی ہے کہ ایک وزیرکے فارم ہاؤس پر ہلہ بول دیں‘ نا صرف ہلہ بولیں‘ بلکہ کئی ایک افراد کو زخمی بھی کردیں‘ اور تو اور خیمہ بستیوں میں رہنے والوں کے بچے بھی کتنے جرأت مند ہوگئے ہیں‘ کسی کو ڈنڈا مار توکسی کو چاروں شانے چت کرکے اپنی دھاک بٹھادیں۔ایسے افراد کے خلاف کارروائی ہونی ہی چاہیے تھی‘ جو اب ملکی قوانین کے تحت ‘ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ملزم ٹھہرائے گئے ہیں۔
مظلومیت کی یہ داستان 26اکتوبر 2018ء کو شروع ہوئی‘ جب وزیربرائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے بیٹے کی طرف سے دی جانے والی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ اُن کے پڑوسی نیاز محمد کی گائے‘ اُن کے 46کنال رقبے پر محیط فا رم ہاؤس میں گھس آئی اور پیڑپودے تباہ کردئیے‘اس کے بعد نیاز محمد کی 15سالہ بیٹی اور 12سالہ بیٹے ضیاالدین سمیت متعدد افراد نے حملہ کرکے اُن کے ملازمین کو زخمی کردیا۔پولیس نے مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے چپ سادھے رکھی اور منسٹر صاحب ایک کے بعد ایک ذمہ دار کو فون کرتے رہے‘ آئی جی تک کو بائیس فون کیے‘ لیکن کسی نے اُن کی داد رسی نہ کی‘ جس کے بعد اُنہیں وزیراعظم سے بات کرنا پڑی۔اس کے بعد کہیں جا کرآئی جی صاحب کو ہٹائے جانے کے فورا بعد ایف آئی آر درج ہوئی اور ملزمان گرفتار ہوگئے۔تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت گرفتار ہونے والے ملزمان کو جب اپنی بے گناہی ثابت کرنی پڑے گی‘ تو لگ پتا جائے گا۔اس کے بعد وہ یقینا ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے۔1862ء میں نافذ ہونے والی تعزیرات کے تحت لڑائی جھگڑوں کے معاملات میں کسی کے خلاف ایف آئی آر درج ہونا سب سے اہم گردانا جاتا ہے اوریہ مرحلہ مظلومین کامیابی سے پار کرچکے ہیں۔ ہاں؛ البتہ یہ ہرگزضروری نہیں کہ ایف آئی آر ہمیشہ حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی درج کی جائے کہ اکثراوقات وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی درج کرناپڑتی ہے۔کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ درج کی گئی ایف آئی آر کے شروع میں ہی بخیئے اُدھڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور بدقسمتی سے وزیرصاحب کے معاملے میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال بنی ہے‘ ایک تو سی ڈی اے کی طرف سے جو مؤقف سامنے آیا ہے‘ اُس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ منظورشدہ زمین سے زیادہ پر باڑ لگانا غیرقانونی ہے ‘جو کہ لگائی گئی ہے‘پھر جو 12سالہ لڑکے اور اُس کی 15سالہ بہن کو مقدمے میں ملوث کیا گیا‘ تو اُس کے بعد ایف آئی آر کی صداقت مزید مشکوک ہوئی اور سب سے بڑھ کر بدقسمتی یہ ہوئی کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس کا نوٹس لے لیا۔
نوٹس کے نتیجے میں آئی جی صاحب کا عہدہ بھی بچ گیا اور بارہ سالہ لڑکے کو بھی رہائی مل گئی ۔فریقین کی حد تک تو معاملہ بھی خوش اسلوبی سے نمٹ گیا ‘لیکن بات جس سطح پر پہنچ گئی اُس کی واپسی میں اب وقت لگے گا۔ویسے ٹی وی پر ان بچوں کو دیکھنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع ملا‘ تو یقین جانیے کہ بہت ہی معصوم سے چہروں میں چھپے ان ظالم لوگوں کو دیکھ کر دل دہل گیا۔انہیں اپنے کیے کی قرارواقعی سزا ملنی ہی چاہیے۔
بے شک اعظم سواتی صاحب بھی پاکستان کے شہری ہیں اور اگر اُن پر کوئی ظلم ہوا تو اُس کی داد رسی ہونی چاہیے تھی ۔ معلوم نہیں اُن کی داد رسی ہونے پر آسمان کیوں سر پر اُٹھا لیا گیاہے ؟ شاید یہ غلطی ہوگئی کہ چھٹی کے روز رات گئے‘ وزیراعظم کے زبانی حکم پر ‘ بنا کسی لکھت پڑھت کے آئی جی صاحب کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔بات تو کچھ یہ بھی تھی کہ آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کی خبریں پہلے بھی چل رہیں تھیں ۔ یوں بھی وزیرمملکت برائے داخلہ اُمور شہریار آفریدی بھی آئی جی صاحب سے خوش نہیں تھے۔سننے میں تو یہی آیا ہے کہ وزیرصاحب اچانک چھاپوں سے نظام سیدھا کرنا چاہتے تھے‘ لیکن آئی جی کا مؤقف تھا کہ وہ یہ سب کچھ ‘ خود کرنے کی بجائے پولیس کو بتائیں ‘ وہ اُن کا کام آسان کرے گی۔اب کون سمجھائے کہ اگر پولیس نظام بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتی‘ تو اب تک بہتری نہ آچکی ہوتی۔اب اگر اللہ اللہ کرے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک اچھی حکومت ہمیں مل ہی گئی ہے ‘تو معلوم نہیں اس کی راہ میں کیوں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ٹھیک ہے کبھی کبھارٹیم کی سلیکشن میں غلطی ہوجاتی ہے‘ یہ بھی صحیح ہے کہ کبھی کبھار اُٹھائے گئے بیشتر اقدامات کو واپس لینا پڑتا ہے‘ لیکن یہ تو بس مجبوری میں ہوتا ہے۔ہوناتو یہ چاہیے کہ نظام اور ملکی حالات میں بہتری کے لیے حکومت اور اس کے وزیروں مشیروں کی بھرپورکوششوں کا بھرپور ساتھ دیا جائے‘ لیکن عملاً کافی حد تک اُلٹ ہورہا ہے۔ویسے بھی بات بات میں کیڑے نکالنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی موجودہ حکومت کی عمر ہی کتنی ہوئی ہے‘ لیکن پھر بھی اس نے سلوک کی اُن منزلوں کو پا لیا ہے ‘ جنہیں پانے کے لیے سالوں اور دہائیوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ حاسدوں کا کیا ہے‘ وہ تو اول فول بکتے ہی رہتے ہیں‘ وہ تو ایسے ہی بے پر کی اُڑاتے رہتے ہیں کہ حکومت میں آنے والے اپنے کہے سے مکر رہے ہیں۔ یہ ناکام ہورہے ہیں۔ایسے کہنے والوں کو کیا معلوم کہ ملک ایک مرتبہ پھر انتہائی نازک صورت حال سے گزر رہا ہے۔ اس وقت حکومت اور اس کے مشیروں ‘ وزیروں کے جذبوںکو سراہے جانے کی ضرورت ہے۔بہرحال ہماری تمام ہمدردیاں مظلوم وزیرصاحب کے ساتھ ہیں‘ لیکن اس بات پر افسوس بھی ہے کہ طاقت اور وزارت کے زعم میں معاملہ کچھ مس ہینڈل ہوگیاہے۔ورنہ‘یہ سب کچھ تو ایس ایچ او لیول کی مار تھا۔صرف بندے کے تھانے میں جانے کی دیر تھی۔ باقی سب کچھ خود کار نظام کے تحت خود بخود ہی ہوجاتا؛گویا ہینگ لگتا ‘نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں