"FBC" (space) message & send to 7575

انتہا پسندی کی گانٹھ

یہ 19نومبر کی بات ہے ۔بھارت کی ریاست منی پور میں ایک نیوز چینل سے وابستہ صحافی وانگ کھم نے اپنے فیس بک پیج پر کچھ ویڈیوز اور کمنٹس لگائے۔ان میں قرار دیا گیا تھا کہ منی میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت متعصب ہے۔اس کے وزیراعلیٰ‘بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پٹھو ہیں۔اسے شاید اندازہ نہیں تھا کہ سچائی بیان کرنا اُس کے لیے کتنی مشکل کا باعث بن جائے گا۔27نومبر کو کوئی ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ پولیس اہلکار اُس کی رہائش گاہ پر پہنچے اور اُسے اپنی حراست میں لے کر پولیس چیف کے سامنے پیش کردیا۔چند ہی گھنٹوں بعد بھارتی صحافی کی اہلیہ کو پولیس کی طرف سے فون موصول ہوتا ہے کہ اُن کے شوہر کر حراست میں لے کر جیل منتقل کردیا گیا ہے۔اپنے شوہر کو جیل میں چند گرم کپڑے پہنچا دیں۔ یہ بھارتی صحافی دوچار بار پہلے بھی انہیں الزامات میں پولیس کی حراست میں رہ چکا‘ لیکن ہربار عدالتی احکامات پر رہا ہوتا رہا۔اس مرتبہ پولیس نے اس کے خلاف ایک 38سالہ پرانے قانون کے تحت کارروائی کی ۔قومی سلامتی سے متعلق اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کو مقدمہ درج کیے بغیر ایک سال تک زیرحراست رکھا جاسکتا ہے۔اس قانون کے تحت بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مسڑ وانگ کھم ایک سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی رہیں گے۔اس سے پہلے بھی بہت سے کیسوں میں متعدد افراد کے خلاف اس قانون کو استعمال کیا گیا اور جو لوگ اس کے تحت حراست میں لیے گئے ‘ اُن میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ رہی۔اس قانون کے تحت گزشتہ دوسال میں صرف ایک بھارتی ریاست‘ اُترپردیش میں 168کے قریب مسلمانوں کو حراست میں لیا گیا اور ان میں سے بیشتر کو کم از کم چھ ماہ سے لے کر ایک سال تک جیل میں رکھا گیا اور وہ بھی مقدمہ چلائے بغیر۔
اسی صورت حال کے باعث اس قانون کے بارے میں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ اسے عام طور پر سیاسی مخالفین اور مسلم اقلیت کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے‘ لیکن ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ کسی بھارتی صحافی کو اس کے تحت حراست میں لیاگیا ہو۔اس سے پہلے ابھیجیت مترا نامی اور ایک کالم نگار کو بھی چوالیس روز تک حراست میں رکھا گیا تھا۔گویا بنیاد پرستی اور ملک دشمنی کو کنٹرول کرنے کے نام پر بنایا جانے والا یہ قانون اب خود اکثریت کے خلاف ہی استعمال ہونا شروع ہوگیا ہے۔ آگے چل کر اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے مزید مخالفین کے اس کی زدمیں آنے کے خدشات سامنے آرہے ہیں‘ یعنی یہ وہ روش ہے‘ جس کا آغاز ہندوستان میں موجودہ حکومت نے شروع کیا اور اب بتدریج اس میں شدت آتی جارہی ہے‘اسی روش پر چلتے ہوئے بھارت میں اب حکومت اپنے خلاف کچھ بھی سننا برداشت نہیں کرپارہی؛ حتیٰ کہ ایک صحافی کو صوبائی حکومت کے خلاف کمنٹس پوسٹ کرنے کی پاداش میں قومی سلامتی کے قانون کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ مسلمانوں کی گرفتاری تو خیر بہت ہی عام ہے‘جن مخالفین پر قانون لاگو نہیں ہوپاتا‘وہاں بھارت کے بنیاد پرست حلقے اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔بھارت کے مشہور مسلمان اداکار نصیرالدین شاہ بھی اس وقت ہندوبنیاد پرستوں کے نشانے پر ہیں۔ 
لگے ہاتھوں نصیرالدین شاہ پر نازل ہونے بپتا کی بابت بھی بات کرلیتے ہیں ۔یہ زیادہ عرصہ پہلے کی بات نہیں‘ جب بھارتی ریاست اُترپردیش میں ایک پولیس انسپکٹر ایک مسلمانوں کو بچاتے ہوئے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارا گیا۔نصیرالدین شاہ نے اس بنیاد پرستی پر تنقید کرکے گویا خود مصیبت کو دعوت دے ڈالی ہے۔انہیں نا صرف غدار کے القابات سے نوازا جارہا ہے‘ بلکہ پاکستان کا ٹکٹ کٹوانے کے مشورے بھی دئیے جارہے ہیں۔نصیرالدین شاہ پہلے سے ہی بھارت کے مشہور کرکٹرویرات کوہلی کو بدتمیز کھلاڑی قرار دینے پر ہدف تنقید بنے ہوئے تھے‘ جس کے بعد اُن کے نئے بیان نے اُن کے لیے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ اب یہ الگ بات کہ نصیرالدین شاہ بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ابھی تک تو اُن کی طرف سے اِسی عزم کا اظہار سامنے آرہا ہے کہ کسی میں ہمت نہیں‘ جو اُنہیں بھارت سے نکال سکے۔نصیرالدین شاہ ‘چونکہ عالمی سطح پر جانے پہچانے اداکار ہیں‘ اس لیے اُن کی حمایت میں برطانیہ اور امریکہ سے بھی بیانات سامنے آئے ہیں‘ لیکن بھارت میں رہنے والے سب مسلمانوں کے لیے ایسی صورت حال نہیں ہے۔خصوصاً موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد تو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت کو اس طرح سے دبادیا گیا ہے کہ اب اُس نے شاید احتجاج کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بھارت کے انتہائی اعلیٰ عہدوں سے ریٹا ئر ہونیوالے 80بھارتی سرکاری اہلکاروں کی طرف سے ملک کے شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ نفرت کی سیاست کے خلاف متحد ہوجائیں۔ان اہلکاروں کی طرف سے اس خدشے کا اظہار بھی سامنے آیا ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی ‘تو پھر ملک میں ٹکراؤکی سیاست کو روکنا کسی کے بھی بس میں نہیں رہے گا۔ذرا‘ان کا ایک اور خدشہ ملاحظہ کیجئے کہ ان کے مطابق ‘بھارت میں دائیں بازو کی سیاست کو فروغ دے کر اُن اصولوں کو تباہ کرنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے‘ جن پر بھارت کی جمہوریت ٹکی ہوئی ہے۔
کان کو سیدھے سیدھے پکڑ لیا جائے یا سر کے پیچھے سے گھما کر پکڑ لیا جائے بات تو ایک ہی ہے۔ دراصل بھارت میں پیدا ہونے یا پیدا کردی جانے والی‘ اس صورت حال کا بنیادی نکتہ مسلمان ہی ہیں۔انہیں کچھ اس طرح سے دبا دیا گیا ہے کہ اب کسی بھی حوالے سے مسلمانوں کی طرف سے احتجاج دیکھنے میں نہیں آتا۔بابری مسجد پر بھی مسلمان ایک عرصے سے خاموشی اختیار کرچکے ہیں‘ جس کے بعد بھی ہونے والے کئی ایک معاملات پر بھارت کی سب سے بڑی اقلیت کی کوئی مؤثر آواز سامنے نہیں آرہی ۔بھارتی مسلمانوں کے لیے حالات یوں تو کبھی بھی مثالی نہیں رہے‘ لیکن اس وقت وہ جس صورت حال کا سامنا کررہے ہیں ‘ یہ شاید پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہی ہے۔اقتصادی شعبہ ہو ‘ تعلیمی یا پھر سیاسی‘ کہیں پر بھی مسلمانوں کی موجودگی محسوس نہیں ہورہی ہے۔اب چاہے‘ بھارتی آئین اپنے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دینے کی ضمانت فراہم کرتا ہو‘ لیکن عملاً صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔اس وقت بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو ایک اور مسئلے کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔انتہاپسند ہندوتنظیمیں مسلمانوں کے کھلے میدانوں میں نماز پڑھنے کی شدید مخالفت کررہی ہیں۔ان کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ مسلمانوں کو کھلے عام نماز کی ادائیگی سے روکا جائے۔یہ مسئلہ یوں پیدا ہوا کہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے تناسب سے مساجد کی تعداد بہت کم بڑہی ہے‘ اسی کے باعث مسلمان ایک عرصے سے کھلے میدانوں میں نماز ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ اب انہیں اپنی نماز کا انتظام بھی خود کرنا پڑے گا۔حالات اس نہج پر پہنچ چکے کہ اب خود بھارت کے اندر سے انتہاپسندی کے خلاف آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ صرف آوازیں ہی نہیں اُٹھ رہیں‘ بلکہ اس کے اثرات سیاست پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔
گویا بھارت کے یہ حالات اس بات کو بھی ظاہرکرتے ہیں کہ انتہا پسندی کی سیاست یا مفاد پرستی‘ وقتی طور پر تو کامیابی دلا سکتی ہے‘ لیکن یہ دیرپا نہیں ہوتی۔جلد یا بدیر اس کے مضراثرات سامنے آنے لگتے ہیں‘ جو بالآخر کسی بھی ملک کے لیے نقصان دہ ہی ثابت ہوتے ہیں۔ اب چاہے‘ اس کے لیے جس کو مرضی مورد الزام ٹہرایا جاتا رہے‘ بہرحال بنیادی کردار اپنوں کا ہی رہا‘ اُن کے پیدا کردہ مسائل سے لڑ رہے ہیں یا لڑنے کا تاثر دے رہے ہیں ۔بس یہ جان لینا چاہیے کہ انتہاپسندی کی گانٹھ باندھنا تو آسان‘ لیکن کھولنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں