"FBC" (space) message & send to 7575

فیصلہ خود کرلیں

بہت سی باتیں سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں‘خصوصاً اُس وقت جب خواہ مخواہ گڑے مردے اُکھاڑنا شروع کردئیے جائیں۔وہ معاملات جو طے کیے جاچکے ہوں ‘انہیں نئے سرے سے موضوع بحث بنا دیا جائے توعقلی تقاضوں کے عین مطابق سوالات اُٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ویسے تو ہمارے ملک میں ایسے حالات ہمیشہ ہی موجود رہتے ہیں‘جوبحث کے موضوعات بڑی کثرت سے فراہم کرتے ہیں۔کم از کم اس حوالے سے تو موجودہ حکومت کا سب کو ہی شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس نے ابھی تک کے مختصر سے عرصے کے دوران بحث کے لیے بے شمار موضوعات فراہم کردئیے ہیں۔جی چاہے تو احتساب کے جاری عمل پر بات کرلیں اور طبیعت اس سے اُکتاہٹ محسوس کرے تو ملک کو درپیش معاشی مشکلات پر گفتگو کرلیں۔یکا یک گورنر ہاؤس لاہور کی دیواریں منہدم کرنے کے فیصلے کو بھی ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا اور پھر پانی کا سنگین ہوتا ہوا مسئلہ تو بحث کیلئے ہمیشہ موجود رہتا ہے۔اب بسنت منانے یا نہ منانے کے حوالے سے ایک نئی ڈسکشن چھیڑ دی گئی ہے۔ملک بھر میں اس پر بحث چل رہی ہے ۔کہیں مخالفانہ تو کہیں اس کے حق میں دلائل سامنے آرہے ہیں۔وہ مسئلہ ‘جو2009ء میں بسنت پر پابندی لگا کربڑی حدتک حل کردیا گیا تھا‘ شاید اس وقت سب سے زیادہ زیربحث ہے۔ 
2009ء کو گزرے ابھی وقت ہی کتنا گزرا ہے؟ سو‘اس لیے بسنت کی رنگینیاں ابھی تک ذہنوں سے محو نہیں ہوسکیں۔ ایسے وقت میں جب شدید سردی کے بعد کھلے کھلے سے موسم میں فطرت بھی انگڑائیاں لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔خاکی زمین بھی سرسوں کے پیلے رنگوں کے باعث رنگین دکھائی دیتی ہے توطبیعت خواہ مخواہ سے ہی سردیوں کا زنگ اتارنے کیلئے مچلتی ہے ۔ انہی مچلتے ہوئے ارمانوں کی تسکین کیلئے پتنگ بازی صدیوں تک بے شمار احباب کی اولین ترجیح رہی۔اس سوچ نے ہمارے ہاں بھی بسنت کو ایک باقاعدہ تہوار کی شکل دے ڈالی ۔پرویز مشرف کے دور میں حکومتی سرپرستی حاصل ہونے کے بعد تو یہ صنعت بن گئی۔لاہور کو اس حوالے سے خصوصی شہرت حاصل ہوئی۔بسنت کے دنوں میں شہر بھر کے ہوٹل کئی کئی ماہ پہلے بک ہوجاتے ۔ آسمان رنگی برنگی پتنگوں سے بھر جاتا اور خوب جی بھر کر موج مستی کی جاتی۔ایسی آرا کے باوجود کہ بسنت کو ہندوؤں کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ سرسوتی دیوی کا تہوار ہے‘ جو عموماً فروری میں منایا جاتا ہے۔یہ وہ دن ہوتے ہیں‘ جب ہندو اپنی سرسوتی دیوی کی پوجا کرتے ہیں ۔ پتنگیں اُڑاتے ہیں ۔موسیقی سنتے ہیں اور خوب خوب خوشی مناتے ہیں۔ایک ہندومورخ بی ایس نجار اس کے ایک اور پہلو کو بھی اُجاگرکرتا ہے۔ موصوف اپنی کتاب punjab under the later mughals میں لکھتے ہیں کہ 1707ء سے 1759ء کے درمیانی عرصے میں ایک ہندوکھتری کے بیٹے کو گستاخی رسول ؐکے الزام میںسزائے موت سنائی گئی‘جس دن اسے سزا دی گئی‘ اُس دن کی مناسبت سے بعد میں ایک ہندورئیس کالو رام نے بسنت کے تہوار کا آغاز کیا‘ جو بتدریج پورے برصغیر میں پھیل گیا۔سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے اس کا سہرا مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سر باندھتے ہیں۔سکھ مورخین کے مطابق بسنت کے موقع پر مہاراجہ رنجیت اپنی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب سنتا اور گرنتھی کو تحفے تحائف سے نوازتا۔ سکھ مذہب میں بسنتی یا زرد رنگ کو بہت تقدس حاصل ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اسے مذہبی سے زیادہ موسمی تہوار کی حیثیت دی جانے لگی ‘جس میں سبھی مذاہب کے افراد نے حصہ لینا شروع کردیا۔ تقسیم ہند کے بعد بھی ہمارے ہاں پتنگ بازی ہردور میں مقبول رہی ۔بلاامتیاز عمر ‘ احباب پتنگیں اُڑاتے اور دل بہلاتے ۔ حکومتی سرپرستی حاصل ہوئی تو پتنگ بازی کا سلسلہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اسے مذہب سے زیادہ موسم کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا ۔یہاں تک تو ٹھیک تھا ‘ پھرایک دوسرے کی پتنگ کاٹنے کی دوڑ میں اُلجھتے اُلجھتے دوسروں کی گردنیں کاٹی جانے لگیں ۔اپنی ڈور کو مضبوط بنانے کیلئے اس پر مانجھا لگایاجانے لگا ‘جس کی جگہ بعد میں کیمیکل نے لے لی۔ کیمیکل لگانے کیلئے عام ڈور کی بجائے مچھلی پکڑنے والی نائیلون کی مضبوط ڈوری کا انتخاب کیا جاتا۔اس سے بھی تسکین نہ ہوئی تو کلچ کی تاروں کے ساتھ پتنگیں اُڑانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔عام طور پر کلچ کی تار سولہ باریک تاروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔اس کی ہر ایک تار کو الگ کیا جاتا اور پھر انہیں آگے پیچھے جوڑ کرمضبوط دھاگے کی ڈور کے ساتھ لپیٹ دیا جاتا‘پھر پتنگیں اُڑانے کے شوق میں تمام حدیں پارہونے لگیں ۔ سڑکوں پر لاشے تڑپنے لگے۔ گھروں کے چراغ بجھنے لگے۔ایسا بھی ہوا کہ باپ اپنے معصوم بچے کو موٹرسائیکل پر بٹھا کر جارہا ہے اور اچانک کسی کٹی پتنگ کے ساتھ لگی دھاتی ڈور نے معصوم کا گلا کاٹ ڈالا۔اُف خدایا تفریح کے نام پر کیسا کھیل کھیلنا شروع کردیا گیا تھا۔بس دوسرے کی پتنگ کٹنی چاہیے۔ چاہے‘ اس کیلئے کسی کی گردن ہی کیوں نہ کاٹنی پڑے۔ اس کیلئے چاہے‘ کسی گھر کے واحد کفیل کو ہی کیوں نہ دنیا سے رخصت کرنا پڑے۔ اس کیلئے چاہیے کسی ماں کی گود ہی کیوں نہ اُجاڑنی پڑے۔
چند سال پہلے کا وہ واقعہ کون بھول سکتا ہے‘ جب لاہور کے گڑہی شاہو پل پر یکے بعد دیگرے تین موٹرسائیکل سواروں کی گردنیں دھاتی ڈور سے کٹ گئیں۔ہوائی فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتیں الگ ستم ڈھا رہی تھیں۔معصوموں کے لواحقین کی نالے ‘ ارباب اختیار کے کانوں تک پہنچے تو بالآخر پنجاب حکومت نے 2009ء میں پتنگ بازی پر پابندی کا قانون نافذ کردیا۔اندازہ ہے کہ پابندی عائد ہونے پہلے قریباً دس سال کے دوران200کے قریب بے گناہ اپنی جانیں گنوا چکے تھے۔ پتنگ بازی کے باعث لاہور میں سب سے زیادہ افراد کی جانیں گئیں۔اب چاہے‘ لاکھ یہ تاویلیں پیش کی جائیں کہ بسنت موسمی تہوار ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔اس سے پیسہ حرکت میں آتا ہے۔ اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔سیاحت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور شہریوں کو تفریح کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔سب کچھ مان بھی لیا جائے‘ توبے گناہوں کی اموات کو کس زمرے میں رکھا جائے گا؟
اب ایک مرتبہ پھر بسنت منانے کی اجازت دینے کی باتیں ہورہی ہیں۔وزیرقانون راجہ بشارت کی صدارت میںایک کمیٹی بھی قائم کی جاچکی ہے‘ جو محفوظ بسنت منانے کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔حکومتی ترجمان کے مطابق ؛کمیٹی کی سفارشات سامنے آنے کے بعد ہی بسنت منانے یا نہ منانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔اب معلوم نہیں حکومت جادو کی کون سی چھڑی گھمائے گی کہ پتنگ اُڑانے والے ڈور کو مانجھا لگائیں گے‘ نہ اسے دھاتی تار سے باندھیں گے۔سب کے سب کمیٹی کی مرتب کردہ سفارشات پر من و عن عمل کریں گے؟یہ بھی کہا گیا کہ بل فائٹنگ جیسے کھیل میں بھی تو لوگوں کی اموات ہوتی ہیں۔کرکٹ کے میدانوں میں بھی اموات ہوئی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ ایسے مثالیں دینے والوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ بھئی اگر کسی کے ساتھ ایسا حادثہ ہوا ہے‘ تو حادثے کا شکار ہونے والے اپنی مرضی سے وہاں گئے تھے۔ ایسے نہیں ہوا تھا کہ کوئی سڑک پر سفر کررہا تھا تو کسی بیل نے اُسے وہاں آکر ٹکر مار دی تھی یا کسی کو راہ چلتے ہوئے گیند لگ گئی تھی۔کوئی تو بتائے کہ یہ ایسا کون سا مثالی موقع تھا کہ اُسے معاملے کو اُٹھا دیا گیا ہے‘ جس کی ستم ظریفیوں سے بمشکل نجات حاصل ہوئی تھی۔
حیرت ہے کہ ایک فیصلہ آنے سے پہلے اُس کی بابت وزراء کی آراسامنے آنا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر جب فیصلہ بھی انہیں آراکے مطابق آتا ہے‘ تو نیا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔معمولی سی اکثریت کے ساتھ کئی ایک محاذ کھول لیے گئے ہیں۔ ایسے میں بسنت کی ایک نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔اب آپ فیصلہ خود کر لیں!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں