"FBC" (space) message & send to 7575

ایک چپ سو سکھ

دن کافی خوب صور ت تھا ۔جنوری کے سرد مہینے میں بھی سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ لاہور کے پنجابی انسٹیٹیوٹ میں قاضی حسین احمد کی یاد میں منعقدہ تقریب کی کارروائی جاری تھی۔ حاضرین محفل نرم گرم سی دھوپ کا لطف اُٹھانے کے ساتھ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی یادوںکو تازہ کررہے تھے۔سب کچھ ٹھیک ٹھیک ہی چل رہا تھا کہ یکایک صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان صاحب نے محفل کو کچھ اور ہی رنگ دے دیا۔برادرم امداد سومرو کی طرف سے ایک سوال پوچھے جانے کی دیر تھی کہ چوہان صاحب آپے سے باہر ہوگئے۔میڈیا کو بے نقط سنائیں تو موقع پر موجود صحافیوں کو بے شرم بھی کہہ ڈالا۔ موقع پر موجود ہونے کے باوجود کچھ دیر تک تو سمجھ میں ہی نہ آیا کہ یکا یک ایسا کیا ہوگیا ‘جو پوری تقریب زیرزبر ہوکر رہ گئی۔صرف ایک سوال ہی تو پوچھا گیا تھا ۔ سوال میں چبھنے والا بھی کچھ نہیں تھا تو اس پر اتنا سیخ پا ہونے کی ضرورت کیا تھی؟اس سوال کا جواب تو صرف چوہان صاحب ہی دے سکتے ہیں ؛البتہ جو کچھ آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا‘ اُس کا مختصر سا احوال تو بتایا ہی جاسکتا ہے۔
یہ تقریب آٹھ جنوری کو منعقد ہورہی تھی ۔اس سے ایک روز پہلے موجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے منصورہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران ریاست مدینہ کے حوالے سے حکومتی دعووں پر کافی تنقید کی تھی۔ اُن کی طرف سے یہ بھی قرار دیا گیا تھا ریاست مدینہ کے حوالے سے حکومت صرف دعوے ہی کررہی ہے‘ جبکہ عملًا کچھ بھی ہوتا ہی دکھائی نہیں دے رہا۔ کشکول لے کر ایک ایک دروازہ کھٹکھٹایاجارہا ہے۔ یہ سب ملک کے لیے قابل شرم ہے وغیرہ وغیرہ؛اگر دیکھا جائے تو یہ باتیں کچھ غلط بھی نہیں ہیں‘ کیونکہ ابھی تک تو صرف دعوے ہی سامنے آرہے ہیں۔یقین تو تب ہو جب ان پر عمل ہوتا بھی نظرآئے۔پہلے سو دن کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا ۔جب اس غبارے سے ہوا نکل گئی تو پھر ریاست مدینہ کا ڈول ڈال دیا گیا۔بہرحال فیاض الحسن چوہان صاحب سے صرف اتنا ہی پوچھا گیا تھا کہ امیر جماعت اسلامی نے حکومت کے ریاست مدینے کے حوالے سے دعوے پر جو تنقید کی ہے‘اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کہ آج آپ اُسی جماعت کے پلیٹ فارم سے تقریب میں موجود ہیں‘جواب دینے سے پہلے چوہان صاحب نے پہلے تو سر کو ہلکا سا جھکایاجیسے کوئی دور کی کوڑی لانے کی کوشش کررہے ہوں۔ پھر سر کو اوپر اُٹھایا ۔ سب ہمہ تن گوش تھے کہ اچانک اُنہوں نے میڈیا کے لتے لینے شروع کردئیے۔اُن کی طرف سے کیا جانے والا یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ سب ہی ششد رہ گئے۔جب کچھ حواس بحال ہوئے تو پھر صحافی حضرات صوبائی وزیراطلاعات کی جانب لپکے۔ شکوہ جواب شکوہ کا مختصر سا دور چلا اور پھر چوہان صاحب بغیر کوئی جواب دئیے ‘وہاں سے چل دئیے۔تقریب کے منتظمین بے چارے الگ پریشان تھے کہ اُن کی تقریب خراب ہوگئی تھی۔ تھوڑا غور کیا تو یاد آیا کہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ تو نہیں ہے۔ ابھی چند ہی روز تو گزرے ہیں جب فیصل واوڈا صاحب نے بھی نیوز کانفرنس کے دوران کافی گرمی سردی دکھائی اور پھر اپنے رویے پر معذرت بھی طلب کی۔اُس سے پہلے وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری صاحب بھی کچھ ایسے ہی تیور دکھا چکے تھے۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کس چیز کا گھمنڈ ہے۔ کون سا ایسا تیر مار لیا ہے کہ دوسروں کو بے شرم اور شتربے مہار قرار دینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ 8جنوری کو صحافیوں کے لتے لیے اور 9جنوری کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران میڈیا سے گفتگو کرنے کی کوشش کی۔اس کوشش میں ناکامی ہاتھ لگی تو پھر اپنے رویے پر معذرت طلب کی اور وجہ یہ بتائی کہ وہ کسی وجہ سے پریشان تھے‘اسی پریشانی کے عالم میں اُنہوں نے ایسی باتیں کردیں‘ جو نہیں کرنی چاہیے تھیں‘جس پنجاب اسمبلی کے باہر وہ میڈیا سے معذرت طلب کررہے تھے ‘اُسی اسمبلی کے اندر اُن کے خلاف ایک قرارداد جمع کرائی جارہی تھی۔پیپلزپارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی حسن مرتضی کی طرف سے جمع کرائی جانے والی اس قرارداد میں قرار دیا گیا کہ تحریک انصاف کے وزرا ء کی طرف سے صحافیوں کی توہین کیا جانا معمول بن چکا ہے۔پہلے تحریک انصاف نے قومی رہنماؤں کی پگڑیاں اُچھالیں اور اُس کے بعد اب میڈیا کو نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت صوبائی وزیراطلاعات کو فورا اپنے عہدے سے ہٹائے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ قرارداد کا مقصد تو حاصل نہیں ہوپائے گا‘ لیکن اس سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ معاملات کس نہج پر جارہے ہیں۔ہوا کے رخ کو بھانپتے ہوئے ہی پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان نے اپنے کولیگ کے روئیے پر معافی مانگی ۔سچی بات تو یہی ہے کہ اس معافی تلافی کی ضرورت ہی نہ پڑتی اگر تھوڑا سا زبان پر قابو رکھا ہوتا تو۔اسی لیے توکہا جاتا ہے کہ الفاظ کی حرمت کو کسی طور بھی پامال نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے ہاں تو یہ عالم ہے کہ انتہائی حساس وزارتوں کے وزیرصاحبان بھی جب بولنے پر آتے ہیں تو گفتگو گھنٹوں پر محیط ہوجاتی ہے۔وہ یہ سمجھنے کے لیے تیار نظر ہی نہیں ہوتے کہ بے توقیر اور بے وقعت الفاظ سے کوئی ارتعاش پیدا کیا جاسکتا ہے‘ نہ معاشرے میں کوئی بہتری لائی جاسکتی ہے؛البتہ بے یقینی کی کیفیت میں ضروراضافہ کیا جاسکتا ہے ‘جو پہلے سے ہی اپنی انتہا کو پہنچی نظرآرہی ہے۔
عرض صرف اتنی سی ہے کہ خدا کے لیے پہلے اُن توقعات کو پورا کرنے کی کچھ سعی کیجئے ‘جو عوام نے نئی حکومت سے وابستہ کررکھی ہیں۔معلوم نہیں کہ انتہائی نازک سی ڈور پر چلتی ہوئی حکومت کے زعما کیوں کر خود کو ایسی گفتگو کا متحمل پاتے ہیں۔ حالات ایسے کہ کبھی گیس بند تو کبھی بجلی کے مسائل۔کبھی ڈالر کی بلند پرواز تو کبھی مہنگائی کا رونا۔کشکول توڑنے کی باتیں بھی ہوا ہوگئیں تو اورنج لائن ٹرین سمیت متعدد میگا پراجیکٹس پر لگا ہو ا کثیر سرمایہ بھی ضائع ہوتا نظرآرہا ہے۔ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ تو ایک طرف رہا‘ ہزاروں لاکھوں افراد بے روزگار ہوکررہ گئے ہیں۔احتساب کا عمل بھی مشکوک ہوتا چلا جارہا ہے۔ان حالات میں بظاہر تو یہی دکھائی دے رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی جلد بہتری کی کوئی اُمید رکھنا عبث ہے۔ شاید ایسی ہی پریشانیاں ہیں‘ جن کی وجہ سے وزرا حضرات بعض اوقات آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔شاید فیاض الحسن چوہان صاحب کو بھی کچھ ایسی ہی پریشانی لاحق ہوگی ‘جس کے باعث اُنہوں نے بلاوجہ بات کا بتنگڑ بنا دیا۔اس سے اور کچھ ہوا یا نہیں ہوا؛البتہ حکومت کے مخالفین کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ضرور ملا۔کیا ہی اچھا ہو ‘اگر گاہے بگاہے ‘ بلاوجہ اور بے موقع گائی جانے والی ایسی بے وقت کی راگنیاں گانے سے اجتناب برتا جائے‘ کیونکہ سیانوں سے بھی یہی سنتے آئے ہیں کہ ایک چپ سو سُکھ!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں