"FBC" (space) message & send to 7575

رونادھونا

19جنوری کو کوٹ لکھپت کا رہائش پذیر ایک گھرانہ شادی میں شرکت کیلئے بورے والا کیلئے روانہ ہوتا ہے۔تین گاڑیوں پر جانے والے اس قافلے کی ایک گاڑی میںتین بہن بھائی‘ اُن کی والدہ ‘ والد اور والد کا ایک دوست سوار تھے۔جب یہ گاڑی دن تقریباً 12بجے کے قریب ساہیوال ٹول پلازے کے قریب پہنچتی ہے ‘تو اچانک اسے گھیر لیا جاتا ہے۔گھیرنے والے فائرنگ کرتے ہیں اور 13سالہ بچی اریبہ سمیت چار افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں۔یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوتا ہے کہ وہاں موجود دوسرے افراد ششدر رہ جاتے ہیں۔ گاڑی پر فائرنگ کرنے والے بچنے والے دوبچوں کو اپنی تحویل میں لے کر ایک پٹرول پمپ پر چھوڑ دیتے ہیں ‘جس کے تھوڑی دیر بعد انہیں ہسپتال میں منتقل کردیاجاتا ہے۔واقعہ رونما ہونے کے کچھ دیر بعد میڈیا کو خبر جاری ہوتی ہے کہ محکمے کے اہلکاروں نے ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب کار سوار دہشت گردوںکو روکنے کی کوشش کی‘ تو انہوں نے فائرنگ شروع کردی۔ جوابی فائرنگ کے نتیجے میں کار میں سوار دوخواتین سمیت چار افراد مارے گئے۔مرنے والوں کو پہلے مرحلے میں اغوا کار قرار دیتے ہوئے انہیں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے اغوا میںملوث قرار دیا جاتا ہے۔ خبر ریلیز ہوتے ہی ٹی وی سکرینیں لال ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا ‘لیکن جب اس پر سوالات اُٹھنے لگے تو دوسرے مرحلے میں مرنے والوں کا تعلق داعش سے جوڑتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔یہ دعویٰ بھی سامنے آتا ہے کہ کارسے بڑی تعداد میں خود کش جیکٹس اور دوسرا دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا ہے۔حالات مزید ناموافق ہوئے تو یہ تاویل دی گئی کہ دہشت گرد اپنے ہی بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ معاملہ کچھ اور آگے بڑھتا ہے تو مرنے والوں کے اہل خانہ سامنے آگئے ۔رونے دھونے کے ساتھ اُن کا احتجاج بھی شروع ہوگیا۔ دوسری طرف محلے داروں کی طرف سے بھی متاثرہ خاندان کے حوالے سے اچھی آراء سامنے آنے لگیں تو کارروائی پر اُٹھنے والے سوالات میں مزید شدت آگئی۔کیا ایک آٹھ سو یا ہزار سی سی کار میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ اُس میں چار پانچ افراد سوار ہونے کے بعد بھی اتنی جگہ بچ جائے کہ بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد اور خود کش جیکٹس لادی جاسکیں؟اگر یہ دہشت گردتھے بھی اور رک بھی گئے تھے تو پھر فائرنگ کرنے سے پہلے انہیں گاڑی سے نکلنے کی وارننگ کیوں نہیں دی گئی؟یہ بھی دھیان میں کیوں نہیں رکھا گیا کہ کار میں بچے اور خاتون بھی سوار ہے؟معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پہلے آئی جی پنجاب نے حسب ِروایت نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ‘جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی حسب ِدستور معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔واقعے کی تحقیقات کا عمل جاری ہے اور متاثرین کو بہرحال ''مکمل انصاف‘‘کا یقین بھی دلا یا گیا ہے۔
یہ سب کیوں ہوا؟ کیا یہ کسی غلط انفار میشن کا نتیجہ تھا؟اگر اطلاع درست تھی تو کیا کارروائی مناسب انداز میں عمل میں نہیں لائی جاسکی ‘جو دوخواتین بھی ماری گئیں؟ان سب سوالات کے جوابا ت تحقیقات کے نتیجے میں مل تو جائیں گے ۔ہو سکتا ہے‘ ان سطور کی اشاعت تک معاملہ صاف ہوجائے ‘لیکن یہ کارروائی بہرحال دوسرے بہت سے پہلوؤں کی طرف بھی توجہ مبذول کروا رہی ہے۔دراصل کوئی ریاست جب فلاحی سے زیادہ سیکورٹی سٹیٹ میں تبدیل ہوجائے ‘تو پھر ریاستی اداروں کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں۔ سیکورٹی کے نام پر کچھ بھی کرگزریں سب جائز کہلاتا ہے۔ملک کو درپیش خطرات کی آڑ لے کر کسی کو مار دیا جائے‘ کسی کو غائب کردیا جائے‘ کسی کا گھر اُجاڑ دیا جائے۔ سب جائز ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے آج ہمارا ملک بھی سیکورٹی سٹیٹ بن چکا ہے۔آپ دیکھئے کہ ہرجانب ایک ہنگام برپا دکھائی دیتا ہے۔دھونس اور دھاندلی کی نت نئی مثالیں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں‘ بھانڈہ پھوٹنے پرشرمندہ ہونے کی بجائے مختلف تاویلیں پیش کی جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ معاملے کو لٹکایا جاتا ہے اور پھر سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا ہے۔اختیارات ہاتھ میں ہوں اورجوابدہی کا ڈر بھی نہ ہو تو انہیں استعمال کرنے کا اپنا ہی نشہ ہوتا ہے‘ جو دوسرے سب نشوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔اپنے ہی لوگوں کو بھیڑ بکریاں سمجھنا معمولی بات ہوتی ہے۔بے شمار صورتوں میں تو ان کی جانوں کی بھی کوئی قیمت نہیں رہ جاتی‘تو بس یہی سب آج ہمارے ہاں بھی ہورہا ہے۔
ساہیوال ٹول پلازے پر پیش آنے والے واقعے میں بھی شایدیہی سب کچھ ہوگا۔ مرنے والے مر گئے‘ مارنے والے اپنی تاویلیں پیش کرتے رہے۔ مرنے والوں کے غمزدہ اہل خانہ اور عزیزو اقارب احتجاج کرتے رہے۔دو دن تو گزر گئے‘ کچھ دن اور گزر جائیں گے اور پھر یہ معاملہ بھی مکمل طور پر ٹھپ ہوجائے گا۔بالکل ویسے ہی جیسے کراچی میں نقیب اللہ کے قتل کا معاملہ سرد خانے کی نذر ہوچکا۔کراچی پولیس کے مرد مجاہد راؤانوار ریٹائرمنٹ کے بعد چین ہی چین لکھ رہے ہیں۔یہ ثابت ہونے کے باوجود کہ موصوف پر صرف نقیب اللہ کو ہی نہیں ‘متعدد دوسرے ایسے پولیس مقابلوں کے بھی الزامات ہیں‘ جو تحقیقات میں بوگس ثابت ہوچکے ہیں۔ذہن میں تو ایسے دوسرے بے شمار واقعات بھی باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ محفوظ ہیں ۔ ایسے واقعات جن میں مار دئیے جانے والے بے گناہ‘ چور‘ ڈاکو اور ملک دشمن کہلائے۔ بڑی بڑی سلائیڈیں چلیں ‘ مارنے والوں کی بلے بلے ہوئی اور معاملہ اللہ کی عدالت میں چلا گیا۔بالکل اسی طرح ساہیوال میں پیش آنے والا واقعہ بھی سمجھ لیجئے کہ اللہ کی عدالت میں چلا گیا ہے۔ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا ہے۔جے آئی ٹی بن چکی ہے۔ تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے‘ لیکن شاید ہی اس واقعے میں مرنے والوں کا خون رنگ لا سکے گا۔
معذرت چاہتا ہوں‘ اگرزیادہ ہی نااُمیدی کی باتیں کررہا ہوں‘ لیکن یہ نااُمیدی غلط نہیں ۔ایسے99فیصد واقعات میں تو خیر آج تک یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کمزور روتے ہیں اورپھر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں ‘ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں‘کیوں؟اس کی وجہ سیدھی اور صاف ہے ۔ طویل عرصے تک ایک ہی طرح کے حالات انسان کو نااُمیدی کی طرف دھکیلتے رہیں‘ تو پھر اُمید کا دامن بھی ہاتھ سے پھسلنا شروع ہوجاتا ہے۔اس بات کا اعلان تو کیا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر ‘ انصاف سے انکار کے مترادف ہے ‘لیکن عملًا لوگوں کی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں ‘لیکن انصاف نہیں ملتا؛اگرکراچی میں نقیب اللہ سمیت متعدد بے گناہ افراد کی ہلاکتوں پر ذمہ داروں کو سزا ملی ہوتی؛ اگر خروٹ آباد واقعہ میںپانچ افراد کو ہلاک کرنے والوں کی جوابدہی کی گئی ہوتی؛اگرقصور میں بچیوں سے زیادتی کے الزام میں ایک نوجوان کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے والوں کو بھی سزائے موت دی گئی ہوتی او ر‘ اور ‘ اور ایسے بہت سے دوسرے واقعات میں انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے ہوتے ‘تو شاید اس واقعہ میں بھی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ پھسلتا۔
غضب خدا کا کہ قصور میں جب بچیوں سے زیادتی کے پے درپے واقعات سامنے آرہے تھے ‘تو پولیس نے دباؤکم کرنے کیلئے مدثر نامی نوجوان کو پولیس مقابلے میں پار کردیا۔بعد میں اصل مجرم عمران پکڑا گیا تو یہ بات صاف ہوگئی کہ مدثر کوبے گناہ مارا گیا تھا ۔ یہ کارنامہ انجام دینے والا ایس ایچ او طارق بشیر آزاد ہے۔ ہاں‘ اگر سی ٹی ڈی کا دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے ‘تو پھر یہ کارنامہ انجام دینے والوں کی تحسین بھی کرنا ہوگی۔ بلاشبہ ہماری سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔
خدارا‘ اس معاملے کو ہی ٹیسٹ کیس بنا لیجئے ؛ اگر مرنے والے حقیتاً دہشت گرد ثابت ہوتے ہیں تو پھر اپنے جوانوں کی تحسین کرنا ہوگی ‘ دوسری صورت میں انہیں اپنے کیے کی سزا دینا ہوگی۔انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے ‘ورنہ پھر رونا دھونا تو ہے ہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں