"FBC" (space) message & send to 7575

تاریخ کے کچھ در

طویل عرصے بعد لاہور کے مشہورزمانہ شاہی قلعے کے شاہ برج دروازے سے قلعے میں داخل ہونے کا موقع ملا تھا۔ایک مرتبہ پھردنیا کی طویل اور قدیم ترین دیوارِ مصوری آنکھوں کے سامنے تھی۔ وہی شاہی قلعہ جہاں زمانہ طالب علمی کے نہ جانے کتنے لمحات گزار دئیے تھے۔وہی دیوارِ مصوری جس کے سامنے کھڑے ہوکر کئی بار خود کو تاریخ کے دھارے پر بہتے ہوئے محسوس کیا۔کبھی کھلی اور کبھی بند آنکھوں سے ماضی کے جھروکوں میں جھانکا۔محسوس کرنے کی کوشش کی کہ مغلوں کا رہن سہن کیسا ہوتا ہوگا ۔ تب روزمرہ کے معمولات کیا ہوتے ہوں گے۔طویل عرصے بعدپھر وہی کیفیت تھی یا شاید کچھ زیادہ شدید تھی کیوں کہ دیوار پہلے کی نسبت کہیں بہتر حالت میں دکھائی دے رہی تھی۔اِسے مزید نکھارنے کے لیے کام بھی ہوتا دکھائی دیا۔ خوشی دوچند ہوگئی کہ تاریخ کے اُس نادر باب کو نئی زندگی مل رہی ہے جس کی وجہ سے شاہی قلعے کو عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ۔دیوار پر مغلیہ دور میں بنائی گئی پینٹگز اِ س مرتبہ بہت نمایاں طور پر ماضی میں جھانکنے کا موقع فراہم کررہی تھیں۔کہیں پر ہاتھی سے ہاتھی کی لڑائی تو کہیں ہرن کا شکار۔ کہیں شہنشاہوں کی خدمت کرتے خدام تو کہیں جنگ و جدل کی تاریخ بیان کرتے شاہکار۔ سب دیکھتے دیکھتے جیسے 1526ء کا دور تصور میں کہیں آن موجود ہوا۔وہ دورجب کابل کے حکمران ظہیرالدین بابر نے پانی پت کے میدان میں دہلی کے حکمران ابراہیم لودھی کو شکست دے کر برصغیر میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔اکبر بادشاہ نے لاہور کے عظیم الشان شاہی قلعے کی بنیاد رکھی تھی۔بعدمیں آنے والے شہنشاہ بھی اِس کی تزئین و آرائش کرتے رہے‘ جس نے اِسے مغلیہ طرزِ تعمیر کا شاندار نمونہ بنا دیا۔1624ء میں اکبر کے بیٹے شہنشاہ جہانگیر کو خیال آیا کہ کیوں نہ شاہی قلعہ لاہور میں رنگوں کی مدد سے مغلوں کے رہن سہن کو اُجاگر کیا جائے۔دیواری مصوری اُسی خیال کے نتیجے میں وجود میں آئی جو آج ہمارے لیے مغل دور میں براہ راست جھانکنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
ماضی میں جھانکتے جھانکتے احساس ہوا کہ کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے‘ مڑ کر دیکھا تو راشد مخدوم صاحب مسکرا رہے تھے۔آثارِ قدیمہ کی ماہر اِس شاندار شخصیت سے طویل عرصے بعد اچانک ملاقات بہت اچھی محسوس ہوئی۔پتہ چلا کہ راشد مخدوم ہی پکچر وال تزئین وآرائش منصوبے کے رہنما ہیں ۔بات چیت شرو ع ہوئی تو کچھ ہی دیر بعد مغل پھر موضوع بحث بن گئے۔راشد مخدوم کہنے لگے : میں کہتا ہوں خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر ماضی کے یہ حکمران بہت شاندار لوگ تھے۔ایسی ایسی تعمیرات کے آج بھی عقل دنگ رہ جائے۔اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میںتودنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی یہیں پیدا ہوتا تھا۔طاقت اتنی کہ ایک دنیا اُن کے نام سے کانپتی تھی۔40لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل اِس عظیم الشان سلطنت کی نولاکھ نفوس پر مشتمل فوج دنیا کی کسی بھی فوج کو ہرانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔اِنہی عوامل نے اورنگ زیب کو انتہائی طاقتور بنا دیا تھا۔ اتنا طاقتور کہ انگریزوں کو اپنی ایک غلطی کی پاداش میں مغل دربار میں فرش پر لیٹ کر معافی مانگنا پڑی تھی۔یہ واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے جو تب پیش آیا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل سلطنت سے لڑائی کرنے کی غلطی کی تھی۔ہوا کچھ یوں تھا کہ برصغیر میں اپنے قدم جمانے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی بتدریج اپنی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کرتی چلی جا رہی تھی۔انگریز ہندوستان سے ریشم ‘ گڑ کا شیرہ ‘ معدنیات اور دیگر مصنوعات لے جاتے ۔ ڈھاکہ کی ململ اور بہار کے قلمی شورے کی بھی انگلستان میں بہت مانگ تھی۔مغل سلطنت نے اِس تجارت پر کوئی ٹیکس تو عائد نہیں کیا تھا البتہ سامان کی کل قیمت کا ساڑھے تین فیصد وصول کرلیا جاتا تھا۔اورنگ زیب نے ولندیزی اور پرتگالی تاجروں کو بھی تجارت کی اجازت دی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کاسربراہ جوزایاچائلڈ غصے سے پاگل ہوگیا۔ اُسے اپنے منافع میں کسی اور کی شمولیت گوارا نہیں تھی۔اُس نے بحیرہ ہند اور خلیج بنگال میں موجود مغل بحری جہازوں کا راستہ کاٹ دینے اور انہیں لوٹ لینے کے احکامات جاری کردئیے۔ مغل طاقت کا غلط انداہ لگاتے ہوئے اُس نے 1686ء دوپلٹنیں بھی چٹاگانگ کی بندرگاہ پر قبضے کے لیے بھیج دیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے ممبئی میںبھی مغلوں کے چند جہازوں کو لوٹ لیا۔اس کے جواب میں مغل امیر البحر نے انگریزوں کو ممبئی میں گھیر لیا۔انگریزوں نے قلعہ میں پناہ لے لی ۔امیر البحر سیدی یاقوت نے قلعے کے باہرکے علاقے پر قبضہ جمایا اور جو بھی انگریز وہاں دکھائی دیا وہ موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔یہی صورتحال بنگال میں بھی پیش آئی جہاں بنگال کے صوبے دار شائستہ خان کے دستوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوںکو ہگلی کے مقام پر گھیر کر اُن کے تمام راستے مسدود کردئیے۔بنگال میں تو انگریزوں نے جلد ہی ہتھیار ڈال دئیے لیکن ممبئی کا محاصرہ پندرہ ماہ تک طول پکڑ گیا۔بالآخر محصورین کا حوصلہ جواب دے گیا اور اُنہوں نے اپنے دوسفیر مغل شہنشاہ کے دربار میں معافی تلافی کے لیے بھیج دئیے۔جارج ویلڈن اور ابرام نوار نامی یہ دونوں سفیر اِس حالت میں دربار میں پیش ہوئے کہ دونوں کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ سفیروں سے زیادہ بھکاری محسوس ہورہے تھے۔بادشاہ کے قریب پہنچے تو اُنہیں زمین پر لیٹنے کا حکم ملا۔ بالآخر اِس شرط پر معافی ہوئی کہ انگریز جنگ کا ڈیڑھ لاکھ روپے ہرجانہ ادا کریں۔آئندہ فرماں برداری کا وعدہ کریں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا موجودہ سربراہ ہندوستان چھوڑ دے۔یہ سب شرائط مان لی گئیں۔
ہاتھ میں چائے کا کپ لیے‘ والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کے نجم الثاقب بھی شاملِ گفتگو ہوئے تو بات چیت کا لطف مزید بڑھ گیا۔ اُنہوں نے بہت ہی تفصیل سے بتایا کہ پورے پاکستان کو تو ایک طرف رہنے دیں‘ اگر شاہی قلعے کو ہی دیکھیں تو برصغیر میں شاید ہی کسی ایک مقام پر تاریخ کے اتنے زیادہ نقوش ملتے ہوں گے۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ جو بھی مغل بادشاہ لاہور آتاتو اُس کاقیام شاہی قلعے میں ہی ہوتا تھا۔ سوہرکسی نے اس قلعے کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے اپنے اپنے انداز میں کوششیں کیں ۔ان کی انہیں کوششوں نے قلعے کوایک نادر نمونہ بنا دیا ہے۔نجم صاحب تو کافی جذباتی ہوچلے تھے کہ عام طور پر تو یہی سنا جاتا ہے کہ مغلوں نے ہندوستان کو کیا دیا۔جب آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جارہی تھی تو اُس وقت مغل شہنشاہ ‘ شاہ جہاں تاج محل تعمیر کرا رہا تھا۔ اس پر اتنی رقم خرچ ہوئی کہ خزانہ خالی ہوگیا اور عوام پر ٹیکس لگانا پڑاوغیرہ وغیرہ۔ لیکن آپ دیکھیں کہ انہوں نے اس خطے کو ایسی تعمیرات دیں جو آج بھی دنیا بھر کے لیے باعثِ کشش ہیں۔آج دنیا میں رہنے والوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک وہ جس نے تاج محل کو دیکھا ہے اور ایک وہ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔انہوں نے ایک بڑی دلچسپ بات بتائی کہ لاہو رکے مشہور شالامار باغ کو پانی کی فراہمی کے لیے نورپور سے پانی لایا گیا تھا۔استفسار پر معلوم ہوا کہ نورپور لاہور سے تقریبا سو کلومیٹر دورایک مقام ہے۔ علی مردان خاں نورپور سے اس لیول پر نہر لے کر آئے کہ اُس کا پانی اتنی ہی مقدار میں باغ تک پہنچتا تھا ‘ جتنی مقدار درکار ہوتی تھی۔ یہ وہی علی مردان خاں ہیں‘ جن کے کریڈٹ پر اور بھی بہت سی تعمیرات ہیں ۔اِن کا مقبرہ بھی لاہور کی ریلوے ورکشاپس کے اندر ہے جہاں تک اب عام آدمی کو رسائی حاصل نہیں ہے۔دوران گفتگو کچھ اظہار افسوس بھی ہوا کہ آخر ہم اپنے قدیم آثار کی حفاظت کیوں نہیں کرتے ؟ کیوں ہم نے انہیں وقت کے سپرد کردیا ہے کہ ان سے جو چاہو سلوک کرو۔بہرحال ‘یہ جان کر خوشی بھی ہوئی کہ شاہی قلعے کی حالت میں بہتری لانے کے اور بھی بہت سے منصوبے چل رہے ہیں۔اُمید پیدا ہوئی کہ اب شاید ماضی کے یہ نقوش حال کے انسانوں کی توجہ حاصل کر لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں