"FBC" (space) message & send to 7575

فلم دیکھیں، لطف اُٹھائیں

عرض کرنا چاہوں تو کرنے دیجئے گا کہ ملکی سیاست پرخوش یا غمزدہ ہونا بہرصورت بچپنے کی علامت ہے۔غلط ہے تو معافی اور اگراس ناقص رائے سے اتفاق ہو تو جذبات تشکر۔دل آئی بات نہ رہندی کے مصداق عرض کرہی لینے دیجئے کہ آج کل سیاست کے سینماہال کا بزنس خوب خوب چمک رہا ہے۔ اب کاروبارکرنے والے کو تو صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ اُس کا بزنس دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ اس کے لیے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنی پڑیں یا پھر کوئی اور حربہ استعمال کرنا پڑے۔ اب‘ اگر سیاسی بیان بازی کو اس پس منظر سے ہٹ کرلیا جائے تو پھر اسے نادانی ہی گردانا جائے گا۔وہی نادانی جو نادان اور ملک سے مخلص احباب ہمیشہ سے ہی کرتے آئے ہیں اور ابھی بھی کیے جارہے ہیں۔ جیسے کہا گیا کہ نئی حکومت آتے ہی شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پینے لگیں گے۔انصاف کا بول بالا ہوگا ۔پروٹوکول کی لعنت کو تو گویاسات تہوں میں دفن کردیا جائے گا ‘ گورنر ہاؤسز میں طلبہ و طالبات علم کے موتی چنتے نظرآئیں گے ‘ رہی بات ملکی معیشت کی ‘تو اُس میں بہتری لانے کے لیے تمام منصوبہ بندی مکمل ہے اور وغیر وغیرہ۔ ایسا سچ میں ہونے کی اُمید میں ان باتوں کا یقین کرلیا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ ع
نہ تم بدلے ‘ نہ دل بدلا‘ نہ دل کی آرزو بدلی
جو سیاستدان ایک فلم میں ظالم وجابر جاگیردار ہوتا ہے‘ تو دوسری فلم میں وہ سر پر پٹکہ باندھے مظلوم ہاری کا روپ دھار لیتا ہے اور جو یہ کام نہیں کرسکتا‘وہ نوابزادہ نصراللہ خان‘ اصغرخان‘ ملک قاسم یا پھر جاوید ہاشمی بن جاتا ہے۔ آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ ماضی قریب تک جو سیاستدان ظالم جاگیردار تھے‘ آج مظلوم ہاری بنے ہوئے ہیں اور ماضی کے مظلوم ‘اب اُن کی جگہ پر بیٹھے ہیں‘ لیکن حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔اندازگفتگو تک تبدیل نہیں ہوپایا۔یوں محسوس ہورہا ہے کہ جیسے ایک ہی فلم کو ریوائنڈ کرکے دیکھا جارہا ہو۔فلم کے تمام ہی سین کافی دلچسپ ہیں ‘لیکن پنجاب کے ایک سابق وزیرقانون اورراولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک موجودہ وفاقی وزیر کے درمیان فلمائے جانے والے جنگ وجدل کے مناظر تو قابل دید ہیں۔دونوں کے درمیان بولے جانے والے ڈائیلاگز زبان زدخاص و عام ہیں۔
اوئے راولپنڈی کے شیطان‘ تجھے اب خود اپنے کیے سے بدبو آرہی ہے۔ واہ واہ!!
او اپنی زبان سنبھال کر بات کر‘ تم تو خود بہت بدبو دار ہو۔بلے بلے!
تم نے اپنے ہرمحسن کو ڈسا ہے اور اب تم نے اپنا زہر عمران خان کے لیے جمع کررکھا ہے۔شاواشاوا
مجھے ناگ بولتے ہو‘میں تو جب تمہارا نام لیتا ہوں تو ناک پر رومال رکھ لیتا ہوں۔ہاہا
بہت پیچھے کی بات نہیں ہے جب یہ دونوں ایک ہی جماعت میں شیروشکر ہوا کرتے تھے ۔ایک ہی رہنما کے گن گایا کرتے تھے اور چین کی بنسری بجاتے تھے‘پھر اس جماعت کا کاروبار مندا پڑا تو وفاقی وزیرصاحب نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنا کاروبار الگ کرلیا۔سابق صوبائی وزیرصاحب؛ البتہ اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔عین ممکن ہے کہ کل کو یہ پھر شیروشکر ہوجائیں ۔بس کاروبار کی نزاکتیں ہی کچھ ایسی ہوتی ہیں۔ویسے بھی جانیے کہ بڑے بزرگوںکی طرف سے ہمیشہ یہی نصیحت سننے کو ملی کہ میاں بیوی کے جھگڑے میں ہرگز نہیں پڑنا چاہیے۔بیشتر صورتوں میں وہ تو لڑمرکر پھر ایک ہوجاتے ہیں اور برے بنتے ہیں ثالث۔بس اسی اکھان کو تھوڑا کھینچ کھانچ لیں تو اس بات کا اطلاق سیاستدانوں کی نوراکشتیوں پر بھی کافی غالب نظرآتا ہے...جس کے خلاف ایک وقت میں دھواں دھار بیانات ‘ وقت پڑنے پر اُسی کے دامن میں پناہ۔ جس کا نام لیتے ہوئے آنکھوں سے چنگاریں برستی ہیں وقت پڑنے پر اُسی کا نام لیتے ہوئے جیسے زبان سے پھول جھڑتے ہیں‘جس سادہ لوح نے سیاسی وعدوں پر اعتبار کیا توجان لیجئے کہ وہ اگر جان سے نہیں تو ہوش و حواس سے ضرورگیا۔بالکل اُسی بائی کی طرح جو نواب صاحب کی طرف سے اشرفیاں اور سونا چاندی دینے کے وعدے پر ایسی ناچی کے کہ گھنگھرو توڑ ڈالے۔درودیوار ہلا دئیے اور نواب صاحب اُسے مالا مال کردینے کے وعدے کرتے رہے۔صبح جب بائی کا ملازم نواب صاحب سے مال ومتاع لینے کے لیے گیاتو جواب ملا میاں کہاں کے وعدے۔وہ ہمیں خوش کرتی رہی اور وعدے وعید کرکے ہم اُسے خوش کرتے رہے۔اب کون نواب سے صاحب سے متھا لگائے۔اُن سے پوچھے کہ سرکار کچھ تو وعدے کا بھرم رکھیے ۔ خدارا‘ کچھ تو خیال کیجئے۔
یوں بھی اب تو یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے ہوئے اک عمر ہوچلی ہے ۔سو‘ کچھ نہ کچھ تو سمجھ آہی جاتی ہے۔اب توبس سیاسی فلمیں دیکھتے ہیں اور لطف اُٹھاتے ہیں۔ ہاں‘ البتہ اس فلم میں وقفے بہت آتے ہیں‘جس دوران فلم کے اداکاروں کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے اور ہرصورت اِن کی کارکردتی ناقص ہی قرار پاتی ہے۔ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ خبردار ‘جو ان کے وعدوں پر یقین کیا ‘ یہ تو سدا کے جھوٹے ہیں ۔ یہ نہیں جانتے کہ فلم بین انہیں بہت ناپسند کرتے ہیں‘ لیکن انہیں برداشت کرنا فلم بینوں کی مجبوری ہے‘ کیونکہ یہاں نئے ستاروں کو چانس ملنا بہت مشکل ہے ۔ وقفہ ختم ہونے سے پہلے کچھ نئے اداکارہ فلم میں شامل کیے جاتے ہیں اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ یہ والے لوگ بہتر ہیں۔اس کے بعد وقفہ ختم ہوجاتا ہے اور فلم دوبارہ شروع ہوجاتی ہے۔اس دوران کچھ سنجیدہ فلم بین‘ اداکاروں کی تبدیلی کو دل پر لے لیتے ہیں‘ جن کا شافی علاج کرنا پڑتا ہے۔ عام طور پر اس علاج کے اچھے اثرات بھی برآمد ہوتے ہیں ۔آج تک تو یہی سلسلہ چلتے ہوئے دیکھا ہے ‘ دیکھتے چلے جارہے ہیں اور لطف اُٹھا رہے ہیں؛البتہ اب اگر تبدیلی آجائے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔یہ مت سمجھئے گا کہ ہم نے بھی تبدیلی کے وعدوں پر اعتبار کرلیا ہے ۔اس کی وجہ صرف اتنی سی ہے کہ نئی فلم ریلیز ہونے والے پہلے تبدیلی تبدیلی کا اتنا شور سنا تھا کہ ابھی تک کان جھنجھنا رہے ہیں۔شور کی گونج دورکانوں میں ابھی تک کہیں چھپی بیٹھی ہے۔ تبدلی کا یہ شور تو کچھ اس بے طرح سے اُٹھا کہ ابھی تک کم ہونے میں نہیں آرہا۔ گویا بات بات پر تبدیلی کی رٹ نے فلم کی ریلیز سے پہلے تبدیلی کے سلوگنز کے ساتھ چلائی جانے والی تشہیری مہم کا اثر ابھی تک برقرار رکھا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب 26گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ میانوالی پولیس لائنز پہنچے‘ کہاں ہے تبدیلی؟ وفاقی وزیرریلوے 18گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ پہنچ گئے۔کہاں ہے تبدیلی؟گورنرہاوسز تو ویسے کے ویسے ہی قائم ہیں‘کہاں ہے تبدیلی؟میرے محلے میں پہلے بھی گیس نہیں آتی تھی‘ اب نہیں آتی‘کہاں ہے تبدیلی؟ہمارے علاقے میں پہلے بھی پانی نہیں آتا تھا‘ اب بھی نہیں آتا‘کہاں ہے تبدیلی؟میری گلی میں پچھے چار روز سے پانی کھڑا ہے‘ کہاں ہے تبدیلی؟معیشت کا تو پہلے سے بھی زیادہ بیڑہ غرق ہوگیا ہے ‘ کہاں ہے تبدیلی ؟
فلم میں ولن کا کردار بھی کافی پاورفل ہے‘ جو ہیرو کو کھل کر کھیلنے کی اجازت دے ہی نہیں رہا۔ہیروایک لات مارتا ہے تو جواباً دوگھونسے کھانے پڑتے ہیں۔ولن کے ساتھی بھی کافی طاقتور ہیں‘ جوبوقت ضرورت ولن کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے نظرآتے ہیں اور یہ ہیرو کے لیے بہت بڑی مشکل ہے۔ہیرو کا ایک بڑامسئلہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اُس کے ساتھیوں نے تاثر تو دیا تھا کہ وہ کنگفو کے بہت ماہر ہیں ‘لیکن وقت پڑنے پر پتا چلا کہ وہ تو تربیت کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔کچھ آپس میں لڑائی جھگڑے چل رہے ہیں‘ جس کے باعث مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ تو مل گئی لیکن ابھی تک اپنے ہی ساتھیوں کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھا شخص ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔وہ تو بھلا ہو وزیراعظم صاحب کا جن کی لامتزلزل حمایت وزیراعلیٰ صاحب کو قائم رکھے ہوئے ہے‘ ورنہ تو اپنے ہی نشیمن پرکب کی بجلیاں گرا چکے ہوتے اور ولنز کے لیے راحت کا سبب بنتے۔اس کھینچا تانی نے عجیب سی صورت پیدا کردی ہے۔دیکھا جائے تو ملک کی مجموعی صورت حال ہی عجیب سی دکھائی دینے لگی ہے۔دوسری طرف یہ تاثر بھی بہت شدومد کے ساتھ پھیلا یاجارہا ہے کہ فلم ناکام ہوچکی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ اس مرتبہ سکرپٹ اور ہدایتکاری قدرے کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ اداکار بھی اچھا پرفارم نہیں کرپارہے ہیں؛ البتہ فلم چل ضروررہی ہے ۔ہم دیکھ رہے ہیں اور لطف اُٹھا رہے ہیں۔ آپ سے بھی ہماری درخواست ہے کہ بہت زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ڈائیلاگ ڈلیوری کیسی ہے۔فلم میں گانے کتنے ہیں ۔ ماردھاڑ کے مناظر کتنے اچھے فلمائے گئے ہیں۔ان سب باتوں پر توجہ دینے کی بجائے صرف یہ ذہن میں رکھیںکہ پکچر ابھی باقی ہے۔ اِس لیے بہت زیادہ پریشان ہونے کی بجائے ہماری طرح آپ بھی فلم دیکھیں اور اس سے لطف اُٹھائیں !۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں