"FBC" (space) message & send to 7575

الٰہی خیر

خواہشیں دم توڑتی جارہی ہیں۔فضا اندیشوں سے بھری جارہی ہے ۔ اُمید کی ریت ہاتھ سے پھسلتی چلی جارہی ہے۔خبروں میں قول و فعل میں تضاد زیادہ ہے اور عقل کم۔سمجھنے میں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔بس ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھال کر وقت گزارا جارہا ہے۔دیکھئے تو‘ سنیے تو کس طرح ایک دوسرے کے لتے لیے جاتے ہیں‘ گویا فریقین کا تعلق دشمن ریاستوں سے ہو۔سنتے ہیں کہ سیاست تو ایسا فعل ہے‘ جو لوگوں کو اصلاح کے قریب اور فساد سے دور کرتا ہے۔ اس شعبے سے وابستہ افراد دوسروں کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں۔کوئی مانے یا نہ مانے سچ تو یہی ہے‘ لیکن یہ الگ بات کہ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ایک دوسرے پر سٹیج ڈراموں جیسی پھبتیاں کسنا ا ور پھر اس پر پشیمان بھی نہ ہونا۔وہ زمانے تو کب کے بیت چکے‘ جب حضرت اقبال ‘جعفر و صادق کو'' ننگ دین اور ننگ وطن‘‘ جیسی اصلاحات سے ہی یاد کرنے پر اکتفا کرتے۔شورش کاشمیری بھی دل کی بھڑاس جیسے‘ چاکلیٹ میں ڈبو کر مخالف تک پہنچایا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ ڈبل بیرل خان سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ جنرل ضیاالحق ‘ سیاستدان میرے پیچھے دم ہلاتے آئیں تک ہی محدود رہے۔ اب تو ایک دوسرے کیلئے ذومعنی الفاظ کا استعمال بھی بعض سیاستدانوں کا وطیرہ بن چکا ۔شیخ رشید اور رانا ثنااللہ کی ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری زیادہ پرانی بات نہیں۔ ایسے ایسے القابات سے ایک دوسرے کو نوازا جاتا ہے کہ خواہ مخواہ دل برا ہونے لگتا ہے۔
نہ کوئی تہذیب نہ تمیز۔کیا وقت آگیا کہ آج کی سیاسی نسل سے تعلق رکھنے والے بیشتر صاحبان کا معیار یہ بن گیا کہ جس کی گالی زیادہ جاندار ‘جس کی گفتگو جتنی بے معنی‘ اُتنی ہی جاندار لیڈری۔کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آنے والے وقتوں میں یہ سلسلہ مزید آگے نہ بڑھے۔ شاید وقت کے تقاضے ہی تبدیل ہوگئے ہیں۔یقیناجو کچھ ہم اپنے رول ماڈلز کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ تو اُسی کو فالو کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں‘ اسی لیے تو ان کی طرف سے ایک ٹویٹ آتا ہے اور ان کے فالورز اسے کئی گنا زیادہ مغلظات سے بھر دیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان موجودہ محبتوں سے پہلے کی بات ہے ‘جب شہباز شریف نے زرداری صاحب کا پیٹ چیر کر دولت نکالنے کی بات کی تو فالورز نے تو گویا پیٹ سچ میں ہی چیر دیا تھا۔وہ دور بیتے ہوئے بھی ایک زمانہ گزر گیا‘ جب کسی کے بارے میں کوئی اچھی بات کہی یا لکھی جاتی ‘تو وہ شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے تھے۔ بھولی بسری باتوں کے ذہن پر دستک دینے کی ایک وجہ چند روز پہلے موصول ہونے والی ایک فون کال بنی۔غالباً اتوار کا دن تھا۔ دیر تک سونے سے بڑھ کر بھلا اس دن کی اور کیا عیاشی ہوسکتی ہے‘ لیکن گزرنے والی اتوار کو صبح ہی فون کی بیل نے جگا دیا۔ فون کرنے والے نے بتایا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی بات کریں گے۔ قدرے حیرانی بھی ہوئی کہ میرا تو اُن سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ۔ کبھی کبھار اسمبلی میں آتے جاتے اُن سے ہاتھ ملانے کا موقع مل جاتا تھا‘ لیکن بات کبھی بھی ہاتھ ملانے سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی یا شاید ایک آدھ مرتبہ بیٹ رپورٹر برادر لیاقت انصاری کی عدم موجودگی میں اُن کی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کی کوریج کیلئے جانا پڑا تھا ۔وہ وقت بھی بیک بینچرز کی طرح گزار لیا تو پھر کیوں کر انہیں ہماری یاد نے ستایا ہے۔
چند ہی لمحات بعد چوہدری پرویز الٰہی لائن پر آئے اور حال احوال دریافت کرنے کے بعد کہنے لگے کہ آپ کا بہت شکریہ۔ حیرانی مزید بڑھ گئی کہ میں نے ایسا کیا کردیا‘ جو اُنہیں خود آکر شکریہ ادا کرنا پڑا۔ حال احوال کے پوچھنے کے دوران ہی یکایک یاد آگیا کہ ایک تحریر میں صرف سات ‘ آٹھ سطریں ‘ اچھے پیرائے میں اُن کے بارے میں لکھی تھیں۔ ذکر صرف اتنا سا کیا تھا کہ آج کل کے گئے گزرے دور میں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویزالٰہی جیسے وضع دار سیاستدانوں کا وجود غنیمت جاننا چاہیے۔سیاسی مخالفین پر برستے بھی ہیں تو دائرہ تہذیب میں رہ کر۔بات اتنی مختصر سی تھی کہ ذہن سے بھی نکل گئی۔چند روز بعد انہیں کسی نے اس بابت بتایا تو شکریے کیلئے فون کردیا۔کچھ حیرانی ہوئی اور کچھ اچھا بھی محسوس ہوا کہ اگر ایک دوسرے کو شکریہ کہنے کا یہ کلچر ہمارے معاشرے میں فروغ پا جائے تو شاید ہمارے آدھے مسائل تو ویسے ہی ختم ہوجائیں ۔ لفظ بہت مختصر ‘لیکن اس کے اثرات بہت دیرپا۔کیا کیا جائے کہ اب ہمیں کس کا شکریہ ادا کرنابھی بھاری محسوس ہوتا ہے۔صحافت میں یہ اصطلاح عام ہے کہ کسی کے حق میں کچھ لکھ دیں ‘شاید ہی کبھی کوئی شکریہ ادا کرنے کی زحمت کرے‘ لیکن بات اگر مزاج کے خلاف ہو تو شکوے ‘ شکایات کا انبار لگ جاتا ہے۔
یاد آیا کہ کینیڈا کے شہرایڈمینٹن کے ایک پارک میں دھوپ سینکتے ہوئے دیکھا کہ ہرکوئی آتے جاتے ایسے ہی hello, good dayبولتا جارہا ہے۔ نہ کوئی جان نہ پہچان۔ سن کر اتنا اچھا لگا کہ خواہ مخواہ ہی ایساکہنے والوں سے اپنائیت محسوس ہونے لگی۔میزبان نے ہماری حیرانی دور کرتے ہوئے بتایا کہ یہ یہاں کا کلچر ہے ۔یہاں شکریہ دوسروں کا شکریہ ادا کرنے میں بخل سے نہیں فیاضی سے کام لیا جاتا ہے۔شدید خواہش ذہن میں اُبھری کہ کسی طور یہ کلچر ہمارے ہاں بھی فروغ پا جائے تو کتنا اچھا ہو۔ دوسروں کو معاف کرنا سیکھ لیں۔ایک دوسرے کو ریلو کٹے‘ چور ڈاکو ‘ فراڈئیے جیسے القابات سے نوازنے سے گریز کریں تو شاید دنیا کے ساتھ ساتھ عاقبت سنوارنے میں بھی کامیاب ہوجائیں۔خواہش کرنا ایک بات اور اُس کا پورا ہوجانادوسری بات۔ خواہش تو یہ بھی بہت شدید ہے کہ اللہ کرے ملک کا نظام کسی طور مستحکم ہوجائے۔ ہچکولے کھاتی معیشت کی کشتی گرداب سے نکل آئے۔ مہنگائی کی جاری شدید ترین لہر کسی طور رک جائے۔ایسی لہر کہ مہنگائی اس وقت گزشتہ پانچ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ اضافے کے امکانات ہنوز موجود ہیں۔ ورلڈبینک کی رپورٹ کہتی ہے کہ رواں مالی سال کے دوران 3.4فیصد تک محدود رہے گی۔آئندہ مالی سال کے دوران یہ مزید کم ہوکر 2.7فیصد تک پہنچ جائے۔گویا حکومتی دعووں کے برعکس معاشی صورت حال میں جلد بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ڈانواڈول معیشت کو سیاسی کشمکش مزید نقصان پہنچا رہی ہے۔اب توحکومت اور بڑی اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ صف آرا نظرآنے لگی ہیں۔مسلم لیگ ن ‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان محبت کی پینگیں بڑھ رہی ہیں۔قربتوں میں مزید اضافے کے لیے مولانا فضل الرحمن کچھ زیادہ ہی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔رائے ونڈ میں نواز شریف کے ساتھ اپنی تازہ ترین ملاقات کے بعد اُن کی طرف سے نوید سنائی جاچکی ہے کہ اپوزیشن کو متحد کرنے کیلئے وہ اپنی کوششوں میں مزید تیزی لائیں گے۔نواز شریف سے ملاقات کے بعد وہ آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے اور پھر ممکن ہوسکا تو ایک مشترکہ میٹنگ کا ڈول ڈالا جائے گا۔حکومت اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے کہ اپوزیشن والے احتساب سے بچنے کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں‘ لیکن انہیں قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کرنا ہی پڑے گا۔جن لوگوں نے بھی ملک و قوم کے اربوں کھربوں لوٹے ہیں‘ وہ اُنہیں واپس کرنا ہی پڑیں گے۔
بظاہر اپوزیشن جماعتیں اور حکومت اپنی اپنی جگہ ٹھیک نظرآتی ہیں۔دوبڑی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف احتساب کا عمل زوروشور سے جاری ہے اور لامحالہ اگر اپوزیشن متحد ہوتی ہے تو حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔ہوسکتا ہے کہ اس سے احتساب کے تیزرفتار عمل میں کچھ سستی آجائے۔ دوسری طرف حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اب اُس کیلئے احتساب کے نعرے سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہے۔گویا آنے والے وقت میں حکومت اور بڑی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔یہی وہ صورت حال ہے‘ جو اندیشوںمیں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔الٰہی خیر!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں