"FBC" (space) message & send to 7575

ہونے کیا جارہا ہے؟

1980ء کی عراق ‘ ایران جنگ اور اُس کے بعد 1991ء کی خلیجی جنگ کے بعد خلیج فارس ایک مرتبہ پھر ہاٹ سپاٹ بن چکی ہے ۔ جزیرہ نما عرب میں واقع ‘ خلیج فارس کو دنیا کے اہم ترین آبی راستوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ایک طرف ایران تو دوسری طرف کچھ عرب ریاستیں واقع ہیں اور یہ تمام وہ ممالک ہیں‘ جو تیل اور گیس کی دولت سے مالامال ہیں ۔ یہی گزرگاہ ‘ عراق ‘ ایران اور بعض عرب ریاستوں کو بحرہندسے ملاتی ہے‘ جو آبنائے ہرمز کے ذریعے خلیج اومان سے بھی منسلک ہے۔یہی وہ راستہ ہے ‘جہاں سے دنیابھر میں تیل کی ترسیل کا دوتہائی گزرتا ہے‘اسی لیے جب جب بھی اِس آبی راستے سے گزرنے والے آئل ٹینکرز کے لیے رکاؤٹیں پیدا ہوئی ہیں‘ تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورت ِحال تب بھی دیکھنے میں آئی تھی‘ جب ایران اور عراق آٹھ برسوں تک ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں اُلجھے رہے تھے۔ اس دوران یہاں سے گزرنے والے متعدد آئل ٹینکرز تباہ بھی ہوئے ‘لیکن 1991ء کی خلیجی جنگ میں زیادہ تباہ کن صورت ِحال دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ وجہ ‘اس کی یہ رہی کہ یہ جنگ تقریباً یکطرفہ ہی تھی۔اُس کے بعد اب ایران‘ امریکہ کشیدگی نے اسے پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔
تجارتی نقطہ نظر سے دنیا کے اہم ترین آبی راستوں میں شمار ہونے والی خلیج فارس ‘گویا اِس وقت کسی فوجی مرکزکا روپ دھار چکی ہے۔ بلاشبہ یہ صورت حال پیدا کرنے میں امریکہ کا بڑا ہاتھ ہے ‘کیوں کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کو بہانہ بنا کر اُس نے خطے کو فوجی مرکز میں تبدیل کردیا ہے۔ اِس کے جواب میں ایران کی طرف سے بھی کوئی کمزوری دیکھنے میں نہیں آرہی ۔ چند ہی روز پہلے اُس کی طرف سے واضح طور یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ یورینیم افزودہ کرنے کی مقررہ حد سے تجاوز کرے گا۔ایسا ہوتا ہے تو یقینا کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا اور خطے کی صورت حال مزید خراب ہوگی۔ دراصل ایران کو امریکہ کی طرف سے دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کیے جانے سے شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایران کی حتی المقدور کوشش ہے کہ اُس کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے دیگر فریق ممالک ‘ صورت حال میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ماہرین کے مطابق؛ یورینیم کی مخصوص افزودہ مقدار بڑھانے کے اعلان کو بھی اِسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ تمام صورت حال پیدا ہونے کا آغاز گزشتہ سال اُس وقت ہوا‘ جب امریکہ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی۔یہ عالمی معاہدہ‘ ایٹمی طاقت بننے کی طرف جاری ایرانی پیشقدمی کو روکنے کے لیے 2015ء میں طے پایا تھا۔ یورپی اقوام کے علاوہ امریکہ بھی اس معاہدے کا اہم ترین فریق تھا‘ جس کی طرف سے تب کے امریکی صدربراک اوباما نے دستخط کیے تھے۔ تین برسوں تک یہ معاہدہ احسن انداز میں چلتا رہا۔ اِسی معاہدے کے نتیجے میں ایران پر اقتصادی پابندیوں کی گرفت ڈھیلی ہوئی تو ایران کی اقتصادی حالت میں بہتری آنے لگی۔ایرانی عوام نے بھی قدرے سکھ کا سانس لیا‘ لیکن ایک سال پہلے امریکہ نے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ یہ الگ بات کہ امریکہ کو اس معاہدے میں جو کیڑے دکھائی دئیے ‘ اُن پر ابھی تک معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک کی نظر نہیں پڑی۔دیکھا جائے تو ابھی تک معاہدے سے امریکہ علیحدگی کی ٹھوس وجوہات سامنے ہی نہیں آسکیں۔معاہدے سے علیحدگی کے فورا بعد امریکہ نے ایران پر پھر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔اس کے بعد سے امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے‘ اسی دوران سمندر میں تیل کی پائپ لائنوں اور آئل ٹینکرز پر ڈرون حملے ہوئے تو امریکہ کی طرف سے قطر میں پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹریوں کے ساتھ ساتھ بی باون بمبار طیارے پہنچا دئیے گئے۔ ایران کے گردا گرد واقع سمندروں میں تعینات بحری بیڑوں کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا۔امریکہ کی طرف سے یہ سب کچھ کیا جانا عین متوقع تھا۔ اس بحث کو تو ایک طرف رہنے دینا چاہیے کہ آیا‘ اس امریکی روئیے کے پیچھے سعودی عرب کا کوئی ہاتھ ہے یا ڈونلڈ ٹرمپ ‘ اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں‘ لیکن اتنا ضرور ہے کہ امریکہ کی طرف سے معاہدے سے علیحدگی کے بعد دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیوں نے بھی رنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔یہی بات ایران کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ پابندیوں کے باعث اُس کی اقتصادیات شدید دباؤ کا شکار ہورہی ہے۔
دوسری طرف ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے میں برطانیہ ‘ فرانس اور جرمنی بھی فریق ہیں ‘جو ابھی تک معاہدے پر نہ صرف قائم ہیں ۔ اُن کی طرف سے متعدد مرتبہ واضح طور پر ایسے اشارے دئیے جاچکے ہیں کہ وہ معاہدہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کی معاہدے سے علیحدگی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں یہ تینوں ممالک بھی بڑی حد تک پھنس کررہ گئے ہیں‘ لیکن متعدد حوالوں سے وہ بھی امریکہ نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں۔تیل کے ٹینکروں پر حملوں کے بعد ان ممالک کی طر ف سے بھی امریکی موقف کے قریب موقف اختیار کیا گیاتھا۔اِس وقت بھی ان ممالک کی طرف سے دونوں ممالک پر کشیدگی کم کرنے پر زور تو دیا جاتا ہے‘ لیکن عملاً اس حوالے سے زیادہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے۔شاید ان ممالک کو ابھی تک یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر امریکی صدر کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔ وہ صبح ایک بات کرتے ہیں تو شام کو بالکل متضاد موقف اختیار کرلیتے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا تھا‘ جب ایران کی طرف سے امریکی ڈرون گرائے جانے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملے کا حکم دے دیا تھا ‘لیکن دس منٹ بعد اسے واپس لے لیا تھا۔اس پر اُن کا ایک ٹویٹ بھی سامنے آیا تھا ‘جس میں اُنہوں نے لکھا ''بین الاقوامی پانیوں میں اُڑنے والے امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد ہم تین مقامات سے ایران پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار تھے‘‘جب میں نے ایک جنرل سے پوچھا کہ اِس حملے میں کتنی ہلاکتوں کا خدشہ ہے تو جواب ملا کہ 150‘لہٰذا حملے کے وقت سے دس منٹ پہلے میں نے حملہ ملتوی کرنے کا حکم دے دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں تو اب یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ وہ اپنے ملک کی کسی پالیسی کے حوالے سے بیان دینے یا ٹویٹ کرنے سے پہلے متعلقہ حکام سے مشورہ کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔تبھی تو مذاق میں یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں اِس وقت دوپالیسیاں چل رہی ہیں‘ ایک امریکی صدر کی ٹویٹس پالیسی اور دوسری امریکہ کی سرکاری پالیسی۔یہی وہ صورت ِحال ہے‘ جو امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ خود امریکی حکام کے لیے بھی مشکل کا باعث بنی ہوئی ہے۔ 
اب‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران ‘ امریکہ کشیدگی جس سطح پر پہنچ چکی ‘ وہاں سے واپسی ممکن ہے ؟دیکھا جائے توبظاہر تو ایسے آثار دکھائی نہیں دیتے کہ اتنے تناؤ کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی۔ایک تو اس وقت امریکہ افغانستان سے نکلنے کی عجلت میں ہے ۔ ان حالات میں یقینا وہ کسی بھی نئے تنازعے میں اُلجھنے سے گریز کرے گا۔ جوہری معاہدے میں اُس کے اتحادی ممالک ابھی تک معاہدے پر قائم ہیں‘ جن کی رضامندی کے بغیر ‘ اُس کے لیے ایران پر حملہ کرنا مشکل ہوگا۔ امریکہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ روس اور چین کے ساتھ اُس کے تعلقات کافی نچلی سطح پر پہنچ چکے اور ایران کے ساتھ تنازعے کی صورت میں یہ دونوں ممالک ایران کی حمایت کرسکتے ہیں۔خدانخواستہ ‘اگر اس کے باوجود جنگ ہوتی ہے‘ تو اس سے ہمارا ملک بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا‘ جس کی اس وقت امریکہ کو کافی ضرورت ہے۔ وہ جانتا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے لیے اُسے سب سے زیادہ پاکستان کی ضرورت ہے ۔ خود ‘ایران کی طرف سے بھی ابھی امریکہ کے مقابلے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔اب ‘اگر دونوں کے درمیان جنگ کے زیادہ امکانات سامنے نہیں آرہے‘ تو پھر کشیدگی کو بڑھاوا کیوں دیا جارہا ہے؟شاید ‘اس کے باعث ایک مرتبہ ‘پھر امریکہ اپنے عرب اتحادیوں کو بھاری مالیت کا اسلحہ فروخت کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔ شاید ایسا کرکے وہ اپنے اتحادیوں کی کچھ شکایات کا ازالہ بھی کرسکے ۔ وہ شکایات جو یہ ممالک خطے میں ایران کی طرف سے اپنے اثرورسوخ میں اضافے کی کوششوں کے حوالے سے رکھتے ہیں اور اِن کوششوں کو ہمیشہ سے تشویش کی نظر سے دیکھتے آئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں