"FBC" (space) message & send to 7575

مبارک ہو‘ مبارک!

اظہارِ رائے کی آزادی اور زیادتی کی صورت میں داد رسی کیلئے کسی فورم کا موجود ہوناایسی نعمتیں ہیں‘ جن کی اہمیت وہی جان سکتے ہیں‘ جو ان سے محروم ہوں۔اس کا اندازہ آج سے تقریباً پانچ سال پہلے ہمیں جنوبی وزیرستان کے ایک دورے کے دوران بہت اچھی طرح سے ہوا۔ بہت سے ساتھیوں سے سمیت ہمیں لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم سے بذریعہ فلائنگ کوچ ڈیرہ اسماعیل خان لے جایا گیا ۔ میرے ساتھ ہمارے ادارے کے بہترین کیمرہ مین عاشق علی تھے‘ جنہیں آج مرحوم لکھتے ہوئے دل دکھتا ہے۔ عین عالم شباب میں دل کے دورے نے عاشق علی کی جان لے لی ۔ہرکسی کے ساتھ منٹوں میں گھل مل جانا اس نوجوان کی ایسی خصوصیت تھی ‘جو اُسے ہردلعزیز بناتی تھی۔تھا تو یہ پنجابی ‘لیکن پشتو بھی بہت روانی سے بولتا تھا۔ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے وہ میرا ہمراہی بنا تھا کہ ابلاغ میں آسانی رہے گی اور ایسا ہوا بھی۔ رات ڈیرہ اسماعیل میں ہی بسر کر اور دوسرے روز بذریعہ ہیلی کاپٹر تقریباً 45منٹ میں ہم جنوبی وزیرستان پہنچ گئے۔اُس وقت اس علاقے میں پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف نبردآزما تھی۔راستے میں جگہ جگہ فوج کے کانوائے دکھائی دیے‘ جو علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے سرگرم عمل تھے۔ تب میجر جنرل عاصم باجوہ (اب وہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پاچکے ) یہاں فوج کی کمان کررہے تھے۔ دورے کے دوران اُن کے ساتھ بھی ملاقات کا موقع ملا۔ دوران ِگفتگو اُنہوں نے دہشت گردوں کی کارروائیوں اور ان کے خلاف پاک فوج کے ایکشنز کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ جنرل صاحب نے اُن کامیابیوں کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا ‘جو پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف حاصل کی تھیں۔تب مختصرا ًاس حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوا کہ یہاں دیرپا امن اور علاقے کی ترقی کیلئے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہی ہوگا۔ یہاں کے رہنے والوں کو احساس دلانا ہوگا کہ وہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں۔ کسی زیادتی کی صورت میں وہ بھی اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اُن کے پاس داد رسی کیلئے کوئی مناسب پلیٹ فارم موجود ہو۔دہشت گردی کے خلاف فوج کے جوانوں اور اُن کے کمانڈر کے عزم صمیم کو دیکھتے ہوئے تبھی اندازہ ہوگیا تھا کہ اب ان علاقوں میں دہشت گردوں کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہی ‘ اسی دورے کے دوران علاقے کے مکینوں سے بھی تبادلہ خیال کا موقع ملا تو اُن کی طرف سے بھی یہی جذبات سامنے آئے کہ انہیں بھی پاکستان کا شہری سمجھا جائے۔ اُن کی طرف سے کچھ شکایات بھی سامنے آئیں‘لیکن محسوس ہوا کہ وہ اس بات کو بھی سمجھتے ہیں کہ حالات ِجنگ کے دوران ناخوشگوار حالات کا پیدا ہوجانا عین ممکن ہوتا ہے۔ دورے کے دوران اُن منصوبوں کا جائزہ لینے کا بھی موقع ملا‘ جو پاک فوج کی طرف سے علاقے کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے شروع کیے گئے تھے۔خوشگوار حیرت تو اُس سڑک پر سفر کرتے ہوئے بھی ہوئی جو ٹانک اور وانا سے ہوتی ہوئی افغانستان سے جا ملتی ہے۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے تبھی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں بہتری کا سفر شروع ہوچکا‘ اورآج یہ اندازے حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔
ان علاقوں میں صرف امن اور ترقی کے اندازوں نے ہی حقیقت کا لبادہ نہیں اوڑھا‘ بلکہ یہاں جمہوریت نے بھی اپنا سفر شروع کردیا ہے۔سات قبائلی اضلاع اور ایک ایف آر ریجن کی 16صوبائی نشستوں پر براہ راست انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا‘جسے بلاشبہ اہم سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔ان علاقوں کے مکینوں نے پہلی مرتبہ براہ راست انتخابات کا مزہ چکھا ہے‘ اس لیے ووٹرز کا جوش و خروش بھی دیدنی رہا ۔ پولنگ کے دوران نوجوانوں کے ساتھ خواتین اور عمر رسیدہ افراد کو بھی بڑی تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا۔گویا ان علاقوں کے رہنے والوں نے جمہوری عمل کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا ۔وہ ایسا کرنے میں حق بجانب بھی تھے کہ آج تک یہ علاقے ملک کا حصہ ہونے کے باوجود الگ تھلگ ہی رہے۔اس سے پہلے انگریزوں نے یہاں کے رہنے والوں کو دبا کررکھنے کیلئے 1848ئمیںفرنٹیئرکرائمز ریگولیشنز کا قانون نافذ کیا تھا‘جس میں بعد میں کم از کم تین مواقع پر ترامیم کی گئیں۔ یہ ایسا قانون تھا ‘جس نے قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کے تمام حقوق مکمل طور پر سلب کرلیے تھے۔ معمولی حکم عدولی کرنے والوں کو بھی سخت سزائیں ملتیں۔ حکم عدولی کی نوعیت کچھ زیادہ سنگین ہوتی تو ایسا کرنے والوں کے مکانات کو تباہ کردیا جانا معمولی بات سمجھی جاتی تھی۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ سر سے چھت سے محرومی کا خوف یہاں رہنے والوں کو حاکموں کی تابعداری کی کس سطح تک لے جاتا ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہ آسکی‘ بلکہ اس قانون میں ایک اور ترمیم کردی گئی کہ جرم ایک شخص کا ہوتا تھا اور خمیازہ پورے قبیلے کو بھگتنا پڑتا تھا۔یہی وہ قانون تھا‘ جس نے قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کو اُن کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا۔ مظلوم طبقات کا استحصال جاری و ساری رہا۔ نہ کوئی آواز نہ کوئی دادوفریاد۔سماجی سطح پرکسی بھی علاقے کے ملک کا کہا حرفِ آخر تصور کیا جاتا تھا تو حکومتی سطح پر ہر ایجنسی کا پولیٹیکل ایجنٹ گویا ایجنسی کا مالک ہوتا تھا۔ پولیٹیکل ایجنٹ تو بہت دور کی بات‘ہم نے کئی مواقع پر خود اپنی آنکھوں سے لوگوں کو انتظامیہ کے معمولی اہلکاروں کے سامنے لوگوں کو تھرتھر کانپتے دیکھا ہے۔ کانپنے والے جانتے تھے کہ اگر سرکاری ہرکارہ ناراض ہوگیا تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے‘ نہ وہ کسی عدالت میں جانے کا حق رکھتے تھے اور نہ ہی اُن کی داد رسی کیلئے کوئی اور پلیٹ فارم دستیاب تھا۔گزشتہ سال اس قانون کا خاتمہ کیا گیا تو قبائلی عوام کی خوشی دیدنی تھی۔
ایک طرف یہ صورت حال رہی تو دوسری طرف یہ علاقے جرائم کی آماجگاہ بھی بنے رہے۔ ملک بھر میں ہونے والے سنگین جرائم میں سے بیشتر کے ڈانڈے انہیں علاقوں سے ملتے تھے۔ سنگین جرائم کرنے والے بے شمار ملزم انہیں علاقوں میں جا کر پناہ لیتے‘ جس کے عوض وہ ملکان کو بھاری رقوم ادا کرتے تھے۔طالبان کا عمل دخل شروع ہوا تو علاقے کا پورا سماجی ڈھانچہ ہی تباہ ہوکررہ گیا ۔ طالبان کی مخالفت کرنے والے بے شمار ملکان کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔دہشت گردوں کی جڑیں اتنی مضبوط ہوگئی تھیں کہ وہ ریاست پاکستان کی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے تھے۔ انہیں حالات میں پاک فوج نے دہشت گردوں کی بیخ کنی کیلئے متعدد آپریشنز کیے ‘ بے شمار جوانوں اور افسران نے اپنی جانوں کی قربانی دی اور تب کہیں جا کر آج یہ دن نصیب ہوا ہے کہ یہاں صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں کیلئے براہ راست انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا۔ اب‘ دوسرے مرحلے میں یہاں بلدیاتی انتخابات ہوں گے ۔گویا امن اور جمہوریت کے جس کارواں نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ اب‘ دن بدن وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔ چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ آج سے پانچ سال قبل جن علاقوں کا ہم نے سفر کیا تھا‘ وہاں جن محرومیوں کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا تھا‘وہاں کے مکینوں کی جو شکایات اپنے کانوں سے سنی تھیں‘آج 27ہزار مربع کلومیٹر اور یہاں رہنے والے 55لاکھ افراد کی خوشی کی کیا کیفیت ہوگی ؟ پائیدار امن کے قیام اور قبائلی عوام کی مکمل طور پر قومی دھارے میں شمولیت کا جو سفر شروع ہوا ہے ‘ اُسے اب ہرقیمت پر جاری رہنا چاہیے۔یہ سفر ہمارے لیے افغانستان کے ساتھ تیسرا راستہ بھی کھولے گا۔ آخر میں قبائلی عوام کو مبارک اور مبارک قوم کے محافظوں کو بھی جنہوں نے بے شمار قربانیاں دے کرناممکن کو ممکن بنا دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں