"FBC" (space) message & send to 7575

تلخیوں کی جگہ مسکراہٹیں

وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کو لے کر ہماری کیفیت تو ایسی ہورہی ہے جیسے ہوا کے خوشگوار جھونکے نے حبس کا دم نکال دیا ہو۔گویا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دکھائی نہ دینے والی مسکراہٹوں نے نئی نئی خواہشات کا در کھول دیا ہے۔موقع ایسا نہیں کہ رنگ میں بھنگ ڈالی جائے‘ سوامریکہ کے ساتھ ماضی کی تلخیوں اور تجربات پر بات کرنے سے پہلے اسی کو غنیمت جانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے باعث تلخیوں کی جگہ مسکراہٹیں لے رہی ہیں۔نرمیاں سختیوں کو پرے دھکیل رہی ہیں۔ساس بہو کی طرح کے تعلقات رکھنے والے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تناؤاور کھچاؤ کم ہورہا ہے ۔سب سے بڑی بات یہ کہ کشمیر کے مسئلے پر ڈونلڈ ٹرمپ کی لب کشائی سے پاکستانیوں کے چہروں پر طمانیت آئی ہے تو سرحد کے اُس پار ہنگامہ برپا ہے۔امریکی صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ کوئی دوہفتے قبل کشمیر کے مسئلے پر اُن کی بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے ساتھ بھی بات ہوئی اور اُسی گفتگو کے تناظر میں انہوںنے مسئلہ کشمیر کے لیے ثالثی کی بات کی۔پاکستان کی طرف سے ماضی میں بھی متعدد مواقع پر امریکہ سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا جاتا رہا ہے۔ اس پر امریکہ کی طرف سے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا جاتا رہا کہ جب تک دونوں فریق اسے ثالثی کا نہیں کہیں گے ‘ تب تک امریکہ اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اب اگر امریکی صدر نے ثالثی کی بات کی ہے تو یقینا دوسری طرف سے بھی اس کے لیے کہا گیا ہوگا۔بلاشبہ اسے ہمارے وزیراعظم کے دورے کی بڑی کامیابی قرار دیا جائے گا۔ ثالثی کی بات پر اگر پاکستان میں اطمینان محسوس کیا گیا ہے تو اُس پار اس بات نے اپوزیشن کو مودی حکومت پر چڑھ دوڑنے کا جواز فراہم کردیا ہے۔ لوک سبھا کے اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بھارتی میڈیا کی طرف سے تو سرے سے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو جھوٹا قرار دے دیا گیا۔نریندرمودی سے بھی وضاحتیں طلب کی جارہی ہیں کہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کیا باتیں کی ہیں؟خیر وہ جو کہا جاتا ہے کہ ہنڈیا اُبلے گی تو اپنے ہی کنارے جلائے گی اس کے مصداق یہ سرحد پار والوں کا معاملہ ہے کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نمٹتے ہیں۔ ہمارے لیے قابلِ اطمینان بات یہ بھی ہے کہ حریت کانفرنس کی طرف سے بھی ثالثی کی بات کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی صاحب سمیت تمام ہی رہنماؤں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ امریکہ کی طرف سے اپنے کہے کو پورا بھی کیا جائے گا کہ دہائیوں سے ظلم و ستم کے شکار کشمیریوں کو سکھ کا سانس نصیب ہو۔ہمارے لیے قابلِ اطمینان بات یہ بھی قرار دی جاسکتی ہے کہ پاکستان کو تنہا کرنے کی بھارتی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہیں۔ افغانستان کے امن عمل میں پاکستان کے کردار کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ مقتدر اداروں کی اُس پالیسی کا نتیجہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے جس کے تحت بھارت کو افغانستان میں جاری امن عمل سے لگ بھگ الگ کردئیے جانے میں کامیابی حاصل کرلی گئی تھی۔
ایک ہی دورے کے دوران اتنا کچھ ہوگیا ہوتو ذہن میں کچھ خیال بہرحال درآتے ہیں۔ کچھ بھی ہو ماضی کے تجربات سامنے آن ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ایسا تو ہونہیں سکتا کہ امریکہ کی طرف سے یہ سب کچھ پاکستان کی محبت میں کیا گیا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ممالک کے لیے اپنے مفادات ہی اہم ہوتے ہیں۔ معاملات ہمیشہ کچھ لو کچھ دو کے اصولوں کے تحت طے پاتے ہیں۔اس بات کو زمانہ طالبعلمی کے دوران ہمارے پروفیسر عمانویل یونس بہت احسن انداز میں بیان کیا کرتے تھے۔برسوںپرانی بات ہے جب لاہور کی بہترین تعلیمی درسگاہ ‘ ایف سی کالج میں ہم بھی اس شاندار شخصیت کے شاگرد ہوا کرتے تھے۔ اپنے شاگردوں کی مدد کے لیے ہردم تیار ‘ پروفیسر صاحب عالمی معاملات پر بہت گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ شاید واحد پروفیسر تھے جن کے لیکچر کے دوران طالبعلموں کی سب سے زیادہ تعداد دکھائی دیتی تھی۔ بات کو گھماپھراکر وہ مختلف ممالک کی خارجہ پالیسیوں کی طرف لے جاتے تھے کہ یہ اُن کا پسندیدہ موضوع تھا۔ کچھ ہمیں بھی اس میں دلچسپی تھی‘ سو اُن سے اکثر اس حوالے سے گفتگو رہتی ۔ وہ ایک بات ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی مستقل نہیں ہوتی۔ اس میں اپنے اپنے مفادات کے مطابق تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات ان تبدیلیوں کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ حیرانی ہونے لگتی ہے۔ وجہ اس کی یہی ہوتی ہے کہ ہرملک کے لیے اپنے مفادات ہی اہم ہوتے ہیں اور ان کا تحفظ ہی اس کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔اس تناظر میں بات اگر امریکہ کے حوالے سے کی جائے تو مزید گہرائی میں جائے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔اگر ہم قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک امریکہ کے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں کو مدنظر رکھیں تو اس میں کتنے ہی اُتار چڑھاؤ نظرآتے ہیں۔ کہاں تو امریکی صدر کی طرف سے ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا خود ائیرپورٹ پر جا کر استقبال کرنا اور کہاں ایسی بے اعتنایاں کہ معمولی درجے کے سرکاری اہلکاروں کو اس کام کے لیے بھیج دیا جانا۔ چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے ہمارے ناز نخرے اٹھانا‘ افغان جنگ میں روس کوشکست دینے کے لیے ہمیں ہاتھوں پر اٹھانا اور پھر تنہا چھوڑ دینا۔بل کلنٹن بھارت کے پانچ روزہ دورے پر آئے تو کمال مہربانی سے پانچ گھنٹوں کی میزبانی کا شرف پاکستان کو بھی بخش دیا۔اس دوران بھی بس نصیحتیں ہی کرتے رہے۔ یہ اور ایسے کتنے ہی واقعات ہیں جو صورتحال کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں کہ اگر کچھ مہربانی کی جارہی ہے تو یقینا اس کے پس پردہ کچھ تو ہوگا۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے امریکی اخبارات میں چھپنے والے تجزیوں سے بھی مدد حاصل کی۔ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا تجزیہ نظر سے گزرا‘جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ افغانستان میں جاری امن عمل میں تیزی لانے کے لیے امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تناؤ کم کرنے کی کوشش کی ہے۔امریکہ اب افغانستان سے محفوظ انخلا کے لیے بے تاب ہے جس کے لیے اسے پاکستان کی بھرپورمدد درکار ہے۔تجزیے کے مطابق اس ایک نکتے کو بھی امریکی رویے میں تبدیلی کی وجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یادآیا کہ ماضی میں بھی متعدد بار اپنے مطلب کے لیے امریکہ کی طرف سے ایسے رویے اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔ 1979ء سے پہلے پاک امریکہ تعلقات نچلی ترین سطح پر تھے ۔اسی سال جب روسی افواج افغانستان میں گھس آئیں تو پاک امریکہ تعلقات میں تیزی سے بہتری آنا شروع ہوگئی۔امریکہ کو ویتنام کی جنگ میں ہار کا بدلہ لینے کا اس سے اچھا موقع کہاں مل سکتا تھا۔روس (تب سوویت یونین)کے خلاف جہاد شروع ہوگیا۔پوری دنیا سے جنگجو بڑی تعداد میں پاکستان میں آئے۔ اور پھر جب سوویت افواج شکست کھا کر دریائے آمو کے پار چلی گئیں تو امریکی بھی واشنگٹن واپس لوٹ گئے اور ہم ہونقوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھتے رہ گئے ۔ پھر جب نائن الیون کے بعد امریکہ کو ایک مرتبہ پھر ہماری ضروری پڑی تو ہمیں ایک مرتبہ پھر جھولے میں بٹھا لیا گیا۔جھولا جھولتے ہوئے ہی ہم نے امریکہ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے ڈالی۔اس سے پہلے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ کی طرف سے پاکستان کی فوجی امداد بند کردیے جانے کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیے۔1971ء کی پاک بھارت جنگ اور اس میں امریکہ کا کردار بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔اب اگر امریکی رویے میں تبدیلی آئی ہے تو یاد رکھنا ہوگا کہ یہ تبدیلی کوئی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔یہ ضرور ہے کہ اس تبدیلی میں بہرحال وزیراعظم عمران خان کی شخصیت اور مناسب خارجہ پالیسی کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔اب آگے چل کر جو بھی ہو‘ فی الحال تو سات سمندر پار جو کچھ حاصل ہوا ہے اُسے بڑی حد تک قابلِ اطمینان ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں