"FBC" (space) message & send to 7575

کراچی کی کرچیاں

کراچی کی کرچیاں تو اب سینوں میں پیوست ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔ طویل عرصہ گزرچکا ‘لیکن شاید ہی کبھی کراچی کے بارے میں کوئی اچھی خبر سننے کو ملی ہو۔ اب تو کراچی کی حالت دیکھ کر یقین کرنا بھی مشکل ہوچکا کہ کبھی یہ خوابوں کا شہر رہا ہوگا۔ بارشوں کے بعد ہونے والی تباہی کے باعث سینکڑوں گھرانوں کو اپنے گھروں سے نکل کر دوسرے مقامات پر پناہ لینا پڑی۔ٹی وی سکرینوں پر دکھائی جانے والی شہر کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا رہا تو ذمہ داران اس کیلئے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹہراتے رہے۔ ایک دوسرے کے لتے لیتے رہے۔تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیرفیصل واڈا بولے کہ صورتحال کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے۔سندھ حکومت کے وزیربلدیات سعید غنی کی طرف سے قرار دیا گیا کہ صوبائی حکومت کے پاس جتنے وسائل تھے‘ اُن کے مطابق صورتحال سے نمٹنے کی بھرپورکوشش کی گئی اور کی جارہی ہے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر نے حالات کی ذمہ داری وسائل کی کمی پر ڈال دی۔ سب اپنی اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوگئے اور نتیجہ بھگتتے رہے ہیں‘ کراچی کے مکین۔
ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہرانے والوں میں سے تھا کوئی ایسا‘ جسے پہلے سے یہ علم نہ ہوکہ تیز بارش کی صورت میں شہر کی کیا حالت ہوسکتی ہے۔ ایک عرصے سے واویلا کیا جارہا تھا کہ تیز بارش ہوئی تو ملک کے سب سے بڑے شہر میں نظام زندگی معطل ہوکررہ جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔سب جانتے تھے ‘ سب کو معلوم تھا کہ غیرمعمولی بارشیں برسیں تو حالات بہت ابتر ہوجائیں گے ‘لیکن یہ صدائیں کسی بھی ذمہ دار کے کانوں تک نہ پہنچ سکیں۔اب حسب ِروایت یہی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا ‘ لیکن وہ یہ بتانے کیلئے تیار نہیں کہ کیا یہ کسی اور نے آکر کرنا تھا؟بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ یہ وقت گزر جائے گا تو بات یہیں کی یہیں اٹکی رہ جائے گی؛البتہ دعائیں ضرور جاری رہیں گی کہ اللہ کرے دوبارہ اتنی تیز بارش نہ ہو۔آبادی میں بے ہنگم اضافے کے بعد طویل عرصے تک فسادات اور جلاؤ‘ گھیراؤ کی زد میں رہنے والے اس شہر کی حالت تو خیر طویل عرصے سے ہی ابتر چلی آرہی ہے ‘لیکن اب تو شاید بہتری کے امکانات بھی باقی نہیں رہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ خوابوں کے اس شہر کی یہ حالت کوئی ایک دن میں نہیں ہوئی‘ بلکہ ہرذمہ دار نے اِس شہر کو برباد کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی‘ جس کا نتیجہ آج سب بھگت رہے ہیں۔کراچی ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا ۔ یہ تو سچ میں خوابوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔
آج کوئی بھی شہر کی حالت دیکھ یقین کرسکتا ہے کہ یہ شاید دنیا کا واحد ایسا شہر ہے‘ جسے 30سے زائد ناموں سے پکارا گیا‘اسے1947ء سے 1960ء تک ملک کا پہلا دارالحکومت رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔سنتے ہیں کہ تب ‘اس کی آبادی چند لاکھ ہی ہوا کرتی تھی ۔ قیام پاکستان کے بعد نقل مکانی کرکے آنے والوں کی بڑی تعداد نے اس شہر کا رخ کیا تو شہر پھیلنا شروع ہوگیا۔ صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تو روزگارکے متلاشیوںکی بڑی تعداد بھی کراچی پہنچنے لگی ۔ الغرض‘ جس نے بھی زندگی میں ترقی کرنا چاہی‘ کچھ حاصل کرنا چاہا ‘ اُس نے کراچی کا رخ کیا اوراس شہر نے بھی کبھی آنیوالوں کو مایوس نہیں کیا۔ایک عرصے تک اسے ملک کا واحد انٹرنیشنل شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ یہی وہ شہر تھا‘ جہاں بانی ٔپاکستان قائد اعظم ؒنے ملک کے پہلے گورنرجنرل کے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا۔کافی عرصہ گزرا جب اِس شہر کے ماضی کے حوالے سے محترم محمد سعید جاوید کی کتاب'' ایسا تھا میرا کراچی‘‘ نظر سے گزری ۔ مطالعہ کیا تو یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ کیا سچ میں کبھی کراچی ایسا ہوا کرتا تھا۔لکھتے ہیں کہ چاہے کراچی لاہور جتنا قدیم اور تاریخی نہیں‘ چاہے کراچی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاتا کہ جس نے کراچی نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا‘ لیکن میرا شہر بھی کسی سے کم نہیں تھا‘ میرا غریب پرور شہر ہرکسی کیلئے اپنے بازو کھول دیا کرتا تھا‘یہ اب بھی ایسا ہی ہے۔ بس‘ اسے کسی کی نظرلگ گئی ہے۔ بھتہ خوری اور خوف نے اسے تباہ کردیا‘ میرا اپنے شہر کو پھر بھی سلام ہے کہ اس نے مجھے ماں کی طرح پالا‘ میری بہترین پرورش کی اور مجھے زیورِتہذیب سے آراستہ کیا۔کچھ یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فرئیر سٹریٹ کے قریب کراچی‘ بلکہ پاکستان کا پہلا خودکار ٹریفک سگنل نصب کیا گیا تو یہ اہلیان ِکراچی کیلئے عجوبے کی سی حیثیت اختیار کرگیا۔سرخ اور سبز بتیوں کا کھیل بہت دلچسپ ہوا کرتا تھا‘ جسے یہاں سے گزرنے والے بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ سینٹ پیٹرک کیتھڈرل کے قریب دونوں جانب کئی منزلہ اونچی عمارتیں ہوا کرتی تھیں‘جہاں عیسائی‘ پارسی ‘ یہودی اور اچھی مالی حیثیت والے میمن اور داؤدی بوہری فرقے سے تعلق رکھنے والے رہا کرتے تھے۔اب‘ تو یہ عالم ہوا کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اپنی شناخت چھپانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔یہ تو ہم بھی سنتے رہے ہیں کہ ملک میں سڑکیں دھونے کا رواج بھی کراچی سے ہی شروع ہوا تھا۔کراچی کے میوزک فاؤنٹین کا بھی بہت تذکرہ سنا تھا ۔ یہ فاؤنٹین اُس وقت کے صدر پاکستان ایوب خان نے امریکی صدر آئزن ہاورکے استقبال کیلئے بنوایا تھا۔کراچی کی ٹراموں اور یہاں کی رنگین شاموں کے بھی بہت قصے سنے تھے۔اب تو گویا گئے وقتوں کی باتیںہی رہ گئی ہیں یا پھر تلخ یادیں۔
تیس ‘ چالیس سال گزرتے ہیں‘ جب یہاں سیاسی قوتوں کا زور توڑنے کیلئے اسے لسانی گروپوں کے حوالے کردیا گیاتھا۔ اُس کے بعد منفی تبدیلیوں میں تیزی آگئی۔شہر میں دہشت اور خوف کی فضا پیدا ہونے لگی تھی۔ ایسی فضا ‘جس میں شہریوں کو اپنی جانوں کے لالے پڑنے لگے تھے‘ تو شہر کی حالت میں بہتری کی بابت کون سوچتا ؟ نہ جان کی کوئی ضمانت رہی نہ مال کی۔ بس ‘دہائیوں تک یہاں خوف اور دہشت کا دوردورہ ہی رہا۔اس دور کے ابتدائی ایام ہوں گے‘ جب ہمیں بھی کراچی جانے کا موقع ملا۔ دراصل بی اے کے امتحانات کے بعد فراغت ہی فراغت تھی‘ اسی دوران اداکاری کا شوق چرایا تو ایک تھیٹر میں شمولیت اختیار کرلی۔اداکارہ مدیحہ گوہر مرحومہ نے بھی کھلے دل سے ہمیں اپنے تھیٹرگروپ میں شامل کرلیا ۔ اُن کے شوہر اور پی ٹی وی لاہور کے سابق جی ایم شاہد محمود ندیم نے بھی بہت رہنمائی کی۔ گروپ کے ساتھ مختلف شہروں میں جانے کا موقع ملا‘ لیکن کراچی کے ٹور کی یادیں آج بھی دماغ میں رچی بسی ہیں۔ گروپ کے ساتھ کراچی کے فرنچ سینٹر میں کھیل ''چاک چکر‘‘ میں حصہ لینے کا موقع ملا۔یاد پڑتا ہے کہ صدر میں واقع ایک ہوٹل میں رہائش کا انتظام تھا۔ یوں ہی ایک رات بیٹھے بیٹھے کلفٹن جانے کو پروگرام بن گیا۔ وہاں پہنچے تو ہو کا عالم تھا اور واپسی پر بھی سڑکیں سنسان دکھائی دے رہی تھیں۔ ہوٹل واپس پہنچنے تو استقبالیہ پر موجود شخص نے استفسار کیا کہ اتنی رات کو کہاں سے آرہے ہیں؟جواب دیا کہ کلفٹن سے تو اُس بیچارے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ بولا کہ کسی نے آپ کو نہیں بتا یا کہ ان دنوں کراچی کے حالات کیسے ہورہے ہیں‘ مجھے تو حیرت ہورہی ہے کہ آپ صحیح سلامت واپس کیسے آگئے۔ اُس کی بات سنی ضرور‘ لیکن اپنی سیروتفریح جاری رکھی۔فضا میں کچھ عجیب سی وحشت تو محسوس ہوتی تھی ‘لیکن اسے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ یہ وہی دن تھے‘ جب ایک لسانی گروپ کی حکمرانی کا آغاز ہی ہوا تھا۔یہ تبدیلی اہلیان کراچی تو محسوس کررہے تھے‘ لیکن باہر سے آنے والے شاید اس کا اندازہ نہیں کرپارہے تھے۔ وہاں سے واپسی کے بعد تو جو کچھ کراچی میں ہوتا رہا‘ اُس کے بارے میں سن اور پڑھ کر کانوں کو ہاتھ لگایا کہ دوبارہ کراچی نہیں جانا۔
اب‘ وقت تو تبدیل ہوچکا اور چہرے بھی بدل چکے‘ لیکن جو مسائل پیدا ہوئے‘ اُن کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔کیسی کیسی نابغہ روزگارہستیوں کا یہ شہر آج اپنی بقا کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا اُمید پر قائم ہے ۔ شرط صرف نیک نیتی کی ہے‘ورنہ تو کراچی کی کرچیاں سینوں میں زخم کرتی ہی رہیں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں