"FBC" (space) message & send to 7575

دھندلی ہی سہی‘ اک شمع تو جل جائے!

کیسا وقت آگیا کہ کسی کو اضطراب سے چھٹکارا نہیں ہے۔دل کڑا کرکے کچھ اچھا تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جائے ‘تو سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ان حالات میں بھی ذمے داران کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ عام آدمی کے لیے مشکل تر ہوتے ہوئے حالات کی طرف سے توجہ دیں۔جسم و جاں کا رشتہ ہے کہ برقرار رکھنا دوبھر ہوا جاتا ہے‘ لیکن سوائے طفل تسلیوں کے کانوں میں کچھ بھی نہیں پڑتا۔
گھر کے کچھ کام کے لیے ایک روز کے لیے رنگ ساز کی ضرورت تھی۔ دیہاڑی کی تلاش میں جمع ہونے والے مزدوروں کے ایک اڈے پر پہنچے تو جیسے ایک جم غفیر نے ہمیں گھیرلیا ۔ دوچار کے ساتھ بھاؤتاؤ کرنے کی کوشش کی تو اُن کی طرف سے یہی جواب ملا کہ پیسوں کی بات چھوڑیں ‘ بس ہمیں گاڑی میں بٹھائیں اور لے چلیں۔ پیسوںکی بات بعد میں کرلیں گے۔ یا خدایا! بے روزگاری کا یہ عالم۔ یاد پڑا کہ تقریباً ڈیڑھ دوسال پہلے بھی اسی طرح ہم ایک رنگ ساز کی تلاش میںمزدوروں کے اڈے پر پہنچے تھے ۔ کچھ ڈیڑھ دوگھنٹوں کی تلاش کے بعد معقول پیسوںپر ایک رنگ ساز ہاتھ لگا تھا ۔ کہاں وہ عالم کہ مزدور اپنی مرضی کے پیسوں پر ملا کرتا تھا اور کہاں یہ عالم کہ مزدور دیہاڑی کی بات ہی نہیں کررہا تھا۔ یہ سب پہلے تو کبھی نہیں دیکھا تھا۔یہ لوگ جس طرح سے ساتھ لے جانے کے لیے منتیں کررہے تھے‘ وہ سب سن کر جیسے اندر ہی اندر کچھ ٹوٹتا جارہا تھا۔ اندازہ ہے کہ تبدیلی کے ایک سال کے دوران ملک بھر میں تقریباً 20لاکھ افراد بے روز گار ہوچکے ہیں۔گویا حکومت نے اگر ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا تو اب اسے ایک کروڑ 20لاکھ نوکریوں کا انتظام کرنا پڑے گا۔ ایک سال سے زائد عرصہ ہوگیا‘ لیکن کسی بھی شعبے میں بہتری کی کوئی ایک علامت بھی نظر نہیں آرہی۔بس حالات میں جلد بہتری کی نوید ہے کہ مسلسل اس کی رٹ سننے میں آرہی ہے ۔یہ نوید سنانے میں وہ بھی پیش پیش ہیں ‘جو اس سے پہلے جب سابقہ حکومتوں میں شامل تھے تو اُن ادوار میں اسی طرح جلد دودھ اور شہد کی نہریں جاری ہونے کی باتیں کیا کرتے تھے۔ وہ حکومتیں ختم ہوئیں ‘ نئی حکومت میں وزارتیں مل گئیں‘ تو اب ان کے نزدیک وہ حکومتیں بدترین قرار پائیں ۔ جن کے ساتھی رہے‘ آج اُنہیں کی برائیاں بیان کرتے ہوئے سانس لینے کا وقفہ بھی نہیں کیا جاتا‘ جن کے ساتھ رہے‘ آج دن رات اُنہیں کے لتے لیے جاتے ہیں۔ کوئی کیوں کر یہ یقین کرسکتا ہے کہ آئندہ نئی حکومت میں شامل ہونے کے بعد اس حکومت کو بھی برا ترین ثابت کرنے میں دن رات ایک نہیں کردیا جائے گا؟
غالباً چوتھی حکومت کا دفاع کرنے والے ہمارے وزیرریلوے شیخ رشیدصاحب جو الفاظ سابقہ حکومتوں اور وزرائے اعظم کے لیے استعمال کیا کرتے تھے ‘ آج اُنہیں الفاظ میں موجودہ حکومت اور وزیراعظم کی شان میں قصیدے بیان کرتے ہیں۔جانے والوں کو بدترین ثابت کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے‘ لیکن اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ پھر آپ اتنا عرصہ اتنے برے لوگوں کے ساتھی کیوں رہے؟اُمید واثق ہے کہ اگر انہیں آئندہ حکومت میں شامل ہونے کا موقع ملا تو تب بھی چلن یہی رہے گا۔ حیرت ہوتی ہے کہ انسان کیسے سیاست کی بھول بھلیوں میں گھومتے پھرتے سب کچھ فراموش کردیتا ہے۔ 118روپے لیٹر سے بھی زائد نرخوں تک پہنچ جانے والے پٹرول کی قیمت میں 4روپے لیٹر کی کمی ہوتی ہے تو ایک اہم وزیر بیان دیتی ہیں کہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ عالم یہ ہے کہ خود حکومت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق‘ ایک سال کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں 11فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ایک بات مسلسل دہرائی جارہی ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے‘ جس کے باعث حالات سے نمٹنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔دیکھا جائے تو صورت حال آج بھی ویسی ہی نظرآتی ہے‘ جس کے لیے سابقہ حکومتوں کو موردِالزام ٹہرایا جاتا ہے۔عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ پی پی پی اور نواز حکومتوں نے ملکی قرضے 6ہزار ارب روپے سے بڑھا کر 30ہزار ارب روپے تک پہنچا دئیے ۔ اب‘ اسے کیا نام دیا جائے کہ آج صرف ایک سال کے دوران یہ قرضے 40ہزار ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔خود سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ‘یہ قرضے ملکی معیشت کے مجموعی حجم سے بھی تجاوز کرچکے ہیں۔ہمارے دوست اور ممتاز اکانومسٹ راحیل چوہدری کہتے ہیں کہ اگر اس صورت حال کو ملک کی مجموعی پیداوار کے تناسب میں دیکھا جائے تو قرضوں اور واجبات کی یہ رقم ملک کے جی ڈی پی کے 104.3فیصد کے برابر جاکھڑی ہوئی ہے۔ستم بالائے ستم تو یہ بھی ہے کہ حالات میں جلد بہتری کی کوئی اُمید بھی دکھائی نہیں دے رہی ۔ کوئی اُمید ہی دکھائی دینے لگے تو مشکل وقت اسی کے سہارے گزارنے میں آسانی ہوجائے۔ 
حکومت اور اس کے وزرا کو یہ بات سمجھنی چاہیے‘ بیانات کی بجائے اگرعملًا حالات میں کچھ بہتری دکھائی دینے لگے تو عوام کو کچھ حوصلہ ہوجائے گا ۔ آخر کوئی کب تک سابقہ حکومتوں کے کرپٹ ہونے کے دعوؤں سے پیٹ بھر سکتا ہے؟آخر کب تک ریاست مدینہ کے تصور سے بھوکوں کو بہلایا جاسکتا ہے؟اُس ریاست مدینہ کے تصور سے جہاں بھوکوں کی بھوک مٹانے کے لیے حضرت عمرفاروق ؓخود اپنی کمر پر اناج لاد کر اُن تک پہنچاتے تھے۔ جب غلام عرض کرتا کہ یہ اناج میں اپنی کمر پر لاد کر پہنچا دیتا ہوں تو جواب ملتا کہ کیا قیامت کے روز بھی میرا بوجھ تم اُٹھاؤ گے؟ ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں کو کچھ بھی کہنے سے پہلے 22لاکھ مربع میل رقبے پر مشتمل ریاست کے خلیفہ کے اس طرزِ عمل کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ کیا بھی ہوگا‘ لیکن عوام کو بہلانے کے لیے کچھ نہ کچھ توکرنا ہی ہوتا ہے ۔ کوئی تو پوچھے کہ چلیں مان لیا کہ آپ کو معاشی مشکلات درپیش ہیں‘ لیکن کم از کم اچھا طرزِ حکومت تو دیا ہی جاسکتا ہے۔ ہوئے کاموں پر تو پہرہ دیا ہی جاسکتا ہے۔ خاتمے کے قریب پہنچ جانے والے ڈینگی جیسے جس مہلک مرض کو تو قابو میں رکھا ہی جاسکتا تھا۔ آپ ضرور جانے والوں کی برائیاں بیان کریں ‘ لیکن کبھی کبھی اچھے کاموں کی تعریف کردینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یاد پڑتا ہے کہ جب پہلی مرتبہ ڈینگی نے سر اُٹھایا تھا تو تب کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس پر قابو پانے کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ شدید گرمی کے باوجود ایک ہی روز میں درجنوں مقامات کا دورہ تو معمول کی بات تھی اور اُن کے ساتھ ہمیں بھی بھاگنا پڑتا تھا۔ ہسپتالوں میں خصوصی انتظامات کیے جانے کی وجہ سے بھی آنے والوں برسوں کے دوران یہ عفریت تقریباً ختم ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ اب یہ عالم کہ صرف راولپنڈی میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 15سو تک پہنچ چکی ہے۔سرکاری سپتالوں کی ٹیسٹ فیسوں میں اضافہ کیا جاچکا ہے۔ بیوروکریسی الگ پریشان ہے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع کے وہ ڈپٹی کمشنرز ‘ جنہیں وزیراعلیٰ نے خود انٹرویو لے کر تعینات کیا تھا‘‘ ان دنوں ٹرانسفرز کی لپیٹ میں ہیں۔ بیشتر کیسز میں ٹرانسفر کی وجہ سیاسی دباؤ ہی سامنے آرہی ہے۔وہی سیاسی دباؤ ‘جس کا خاتمہ ‘ اقتدار میں آنے سے پہلے اولین ترجیح قرار پایا تھا۔ 
دیکھا جائے ‘تو جو کچھ آج ہورہا ہے۔ اس میں سے بہت کچھ پہلی حکومتوں کے ادوار میں بھی ہوتا رہا تھا۔ پیپلزپارٹی کے دور میں بھی اپنے من پسند کاروباری افراد کو نوازا گیا۔ میاں نواز شریف کے دور میں بھی 4سو ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کیے گئے اور اس حکومت نے بھی 280ارب روپے کے قرضے معاف کیے۔تو پھر فرق کیا پڑا؟فرق یہ پڑا کہ ووٹرز نے جس اُمید اورآس کے ساتھ موجودہ حکومت کو جو اعتماد بخشا‘ وہ سب کچھ کرچی کرچی ہورہا ہے۔سیانے اسی لیے کہتے ہیں کہ بڑے بڑے بول بولنے سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیے ‘لیکن اقتدار میں آنے کے لیے جو کچھ کہا گیا‘ آج اُس میں سے کچھ بھی پورا ہونے کی اُمید تک دکھائی نہیں دے رہی۔ باتیں کرنے والوں کو تب بھی معلوم تھا کہ اپنے دعوے پورے کرنا اُن کے لیے ممکن نہیں ہوگا ‘لیکن دعوے اور وعدے کیے گئے۔ اس حوالے سے آج بھی صورت ِحال میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی کہ نوید‘ جلد اچھا وقت آنے کی ہی سنائی جارہی ہے ۔ اگر کم از کم اتنا ہی بتا دیا جائے کہ اس اچھے وقت کے آثار بھی کب تک نظر آنا شروع ہوجائیں گے کہ دھندلی ہی سہی ‘لیکن اک شمع تو جل جائے...!
اندازہ ہے کہ تبدیلی کے ایک سال کے دوران ملک بھر میں تقریباً 20لاکھ افراد بے روز گار ہوچکے‘گویا حکومت نے اگر ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا تو اب اسے ایک کروڑ 20لاکھ نوکریوں کا انتظام کرنا پڑے گا۔ ایک سال سے زائد عرصہ ہوگیا‘ لیکن کسی بھی شعبے میں بہتری کی کوئی ایک علامت بھی نظر نہیں آرہی۔ بس حالات میں جلد بہتری کی مسلسل رٹ سننے میں آرہی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں