"FBC" (space) message & send to 7575

نتیجے کا انتظار ہے!

خوش فہمی انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ وہ جو کچھ بھی سوچتا ہے‘ خواہش کرتا ہے کہ دنیا اُس کی خواہشات کے مطابق چلے۔یہ الگ بات کہ جب اور جتنی جلدی حقیقت کا اداراک کرلیا جائے ‘ بہتر ہوتا ہے۔جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر پر ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے وزیراعظم نے کشمیر کا مقدمہ بہت جاندار انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ بجا طور پر بھارت کی چیرہ دستیوں کو دنیا کے سامنے لائے ۔ خوشی سے ہم بھی تالیاں بجاتے رہے‘ اس اُمید اور آس پر کہ بس اب اس تقریر کے بعد سب کچھ نہیں تو بہت کچھ ضرور ٹھیک ہوجائے گا۔مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو ختم کردیا جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو کم ازکم مسلم ممالک بھارت پر ضرور دباؤ ڈالیں گے۔عالمی طاقتیں بھارت کو مجبور کریں گی کہ وہ کشمیر کے حوالے سے اپنے وعدوں کو پورا کرے۔ اقوام متحدہ اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے کا نوٹس لے گی اور کشمیریوں کے غم ‘ کم ہونا شروع ہوجائیںگے۔اب اتنے دن گزر جانے کے باوجود ‘ حسب ِمنشا نتیجہ سامنے نہیں آرہا تو مایوسی سی چھانے لگی ہے۔مایوسی غالب آنے لگے‘ تو ماضی کی تلخ یادیں بھی سر اُٹھانے لگتی ہیں۔ایسی ہی ایک شاندار اور جاندار تقریر دسمبر 1971ء میں بھی اقوام متحدہ کے ایک فورم پر کی گئی تھی۔تب مشرقی پاکستان میں حالات انتہائی نازک ہوچکے تھے ؛ اگرچہ افواج پاکستان بہادری اور قربانی کی بے مثال مثالیں قائم کررہی تھیں‘لیکن سیاسی قیادت کی غلطیوں کے باعث وہ انتہائی نامساعد حالات میں گھر چکی تھیں۔
حالات کی سنگینی کے پیش نظر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا ‘جہاںامریکہ اور چین کی طرف سے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی جاچکی تھی‘ اسی دوران سوویت یونین کی آشیر باد سے پولینڈ نے بھی جنگ بندی کی قرارداد پیش کردی۔ گویا تین بڑی طاقتیں جنگ بندی پر متفق ہوچکی تھیں۔ وزیرخارجہ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے۔ سب کچھ سب کے سامنے تھا کہ پاکستان کے لیے حالات انتہائی ناسازگار تھے۔ سب کچھ ہاتھوں سے تقریباً پھسل چکا تھا ‘لیکن ان حالات میں بھی بھٹو صاحب نے بہرحال تقریر بڑی جاندار کی۔کافی لمبی چوڑی تقریر تھی ‘جس میں اُن کی طرف سے سوویت یونین اور کچھ دیگر ممالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ‘ پھر یہ کہتے ہوئے کہ رکھو اپنی سلامتی کونسل اپنے پاس میں یہاں سے جارہا ہوں۔ قرارداد کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور اپنے وفد کے ساتھ اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے باہر نکل آئے‘ پھر سقوط ڈھاکہ کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی۔یہ دوسری بحث ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایسا کیوں کیا گیا؟شاید اقتدار میں آنے کا یہی ایک راستہ تھا۔ چاہے‘ وہ آدھے پاکستان کا اقتدار ہی کیوں نہ ہوتا۔
1980ء میں ضیاالحق جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ۔ اُن کی طرف سے درخواست کی گئی کہ اجلاس سے قبل تلاوت کی اجازت دی جائے۔اس مقصد کے لیے وہ خصوصی طور پر قاری خوشی محمد کو بھی ساتھ لے کر گئے تھے۔ جواب آیا کہ ایسا کرنے کی صورت میں دوسرے سربراہان مملکت بھی کوئی نہ کوئی ایسا مطالبہ سامنے لے آئیں گے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جب ضیاالحق تقریر کرنے کے لیے آئیں تو اظہر لودھی نے اعلان کیا کہ خواتین و حضرات اب صدرپاکستان جنرل ضیاالحق جنرل اسمبلی سے خطاب فرمائیں گے۔ اس خطاب سے پہلے تلاوت کلام پاک سنیے۔جنرل اسمبلی ایوان سے باہرایک بوتھ پر قاری صاحب نے تلاوت کی‘ جس دوران ضیاالحق خاموش کھڑے رہے۔ اس دوران اجلاس میں شریک مندوبین کی تصاویر بھی دکھائی جاتی رہیں۔ یہ تلاوت پی ٹی وی پر براہ راست سنی گئی اور عوام یہ سمجھ کر تحسین کرتے رہے کہ ضیاالحق کی وجہ سے پہلی مرتبہ جنرل اسمبلی کے ایوان میں تلاوت کی آواز گونجی ہے۔تب بھی اس پر اسی طرح کے تعریفی تبصرے اور بیانات سامنے آتے رہے ‘جیسے وزیراعظم صاحب کی تقریر پر سامنے آرہے ہیں۔جب حقیقت طشت از بام ہوئی تو تب تک عوام کو بہت سے دوسرے ڈراموںمیں اُلجھایا جاچکا تھا ۔ سو‘اس پر کچھ خاص ردعمل سامنے نہ آیا۔ایسا کرکے ضیاالحق جو کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے ‘ اُس میں سے بہت کچھ بہرحال اُنہوں نے حاصل کیا ۔ہرطرف مردِ مومن مرد حق کے نعرے گونجتے رہے۔نوے دنوں تک انتخابات کے وعدے کے ساتھ برسراقتدار آنے والے جنرل ضیاالحق نے بعد میں بھی اس طرح کے متعدد اقدامات سے بلے بلے واہ واہ حاصل کی۔ اُن کے دور میں کرائے جانے والے ریفرنڈم کے تو دنیا بھر میں چرچے ہوئے تھے۔ ریفرنڈم میں عوام کے سامنے سوال رکھا گیا کہ کیا وہ اسلام چاہتے ہیں یا نہیں؟اب ایک اسلامی ملک میں رہنے والوںمیں سے کون ہوگا‘ جو کہتاکہ میں اسلام نہیں چاہتا؛ چنانچہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد کی طرف سے جواب ہاں میں آیا۔ اعلان ہوا کہ ووٹرز کی اکثریت نے اسلام کے حق میں رائے دی ہے‘ اس لیے جنرل ضیاالحق پانچ سال کے لیے ملک کے صدر !!۔
2012ء میں ہمارے تب کے صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران ‘ بے نظیربھٹو کی تصویر سامنے رکھ لی اور خود کو ایک دکھی خاوند قرار دیتے رہے۔ اُن کی طرف سے خود کو پاکستانی عوام کا نمائندہ قرار دیتے ہوئے دنیا سے بہت سے سوالات بھی پوچھے گئے‘ لیکن جواب کسی طرف سے سامنے نہ آیا۔ سننے والے حیران تھے کہ یہ صاحب جنرل اسمبلی میں دنیا کے مسائل پر بات کرنے کے لیے آئے ہیں یا اپنے ذاتی دکھوں کا رونا رونے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ویسے تقریر اُن کی بھی بڑی شاندار تھی۔اب‘ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے شاندار خطاب کرکے پوری قوم کے دل جیت لیے ہیں۔ اس سے بھارت کو یہ واضح پیغام گیا ہے کہ پاکستان ‘ کشمیر کی آزادی اور اپنی بقا کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے بجاطور پر بھارتیوں کے ظلم و ستم کو بھی اُجاگر کیا اور دنیا کو پیشکش کی کہ وہ سواارب انسانوں کی مارکیٹ یا پھر انسانیت‘ دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ 
دنیا کے کسی دوسرے اہم ملک کی طرف سے بھی انسانیت کا انتخاب کیے جانے کی خبریں سامنے نہیں آئیں۔ بلاشبہ کشمیر ہماری رگوں میں لہو کی طرح دوڑتا ہے۔ کوئی ہمارا ساتھ دے یا نہ دے ‘ہم ہرحال میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں‘لیکن‘ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا ہماری باتوں پر کان کیوں نہیں دھرتی؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ متعدد حوالوں سے ہم اپنا اعتماد بڑی حد تک گنوا چکے ہیں۔ اس کی بحالی کے بغیر دوسروں کو اپنے موقف پر قائل کرنا ایک مشکل امر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد چند برسوں کو چھوڑ کر دنیا نے ہمیں ہمیشہ کشکول اُٹھائے ہوئے ہی دیکھا ہے۔اب کسی کی مرضی ہے کہ وہ کشکول میں کچھ ڈال دے یا ہمیں دھتکار دے۔ہم اس حقیقت کو تسلیم تو کرتے ہیں کہ اخلاقی‘سیاسی اور معاشی مضبوطی ہی بقا کی ضامن ہوتی ہے۔
جب اور جتنی جلدی حقیقت کا اداراک کرلیا جائے ‘ بہتر ہوتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ صرف باتوں سے واہ واہ حاصل کرنے کی بجائے عمل کے باعث تحسین سمیٹنا بہت بہتر ہوتا ہے۔ اس وقت جب ہمارا بازارِحصص زمین بوس ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ ووٹرز کی طرف سے موجودہ حکومت پر کیا جانے والا اعتماد ڈانواڈول ہے۔ کشکول ہمارے سے چھوٹ نہیں رہا ‘تو پھر صرف تقاریر سے کیوں کر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے فورم پر کی جانے والی دوسری بہت سی شاندار تقاریر بھی یاد آرہی ہیں‘ لیکن اُن کے نتائج کا بھی آج تک انتظار ہی ہے‘ جس طرح نئی شاندار تقریر کے نتیجے کا انتظار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں