"FBC" (space) message & send to 7575

3کلومیٹر کی مسافت 70سالوں میں

ہرچیز کا یقینا ایک متعین وقت ہوتا ہے ورنہ انسان لاکھ سرپٹختا رہے ‘بس سر ہی پٹختا رہتا ہے‘ چاہے یہ جیتے جاگتے کروڑوں انسانوں کی بقا اور مستقبل کا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔اچھائی کی اُمید اور آس کا پورا ہونا تب مزید مشکل ہوجاتا ہے جب طرح طرح کے زہریلے کانٹوں کی ایک فصل عشروں سے بوئی جارہی ہو۔جب کوئی بڑا ہونے کے زعم میں حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔جب اُس بڑے کو اپنے لوگوں کی بھی پروا نہ ہو‘مگر جب متعین وقت آجائے تو سترسالوں کے مسائل مہینوں میں حل ہوجاتے ہیں۔بڑا ہونے کے زعم میں مبتلا بھی سرتسلیم خم کرہی دیتے ہیں ۔
پاکستان اور بھارت نے کرتارپورراہداری معاہدے پر دستخط کردئیے ہیں۔آمدورفت شروع ہونے کے بعدہرروز پانچ ہزار کے لگ بھگ صرف سکھ یاتری ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے کرتار پورآسکیں گے۔اتنا بہت کچھ صرف ایک سال سے کچھ ہی زیادہ وقت میں ہوجانا حیرت میں مبتلا کررہا ہے۔ گزشتہ سال جب وزیراعظم عمران خان نے کرتارپورراہداری منصوبے پر کام کے آغاز کا افتتاح کیا تو ہم نے بھی وہاں گرم موسم کو کسی قدر خوشگوار ہوتے ہوئے دیکھاتھا۔ بھارت سے آئے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو نے تو جیسے میلہ ہی لوٹ لیا تھا۔انہوں نے اپنی تقریر کے لیے کیا شاندار الفاظ کا چناؤ کیا تھا۔ بھارت سے پندرہ صحافیوں پر مشتمل وفد میں شامل مندرا نائر سے بھی کافی گفتگو رہی۔ مندرا نائر تو یوں بھی ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی وکالت کرنے والے بھارتی صحافی کلدیپ نائر کی پوتی ہیں۔وہی کلدیپ نائر جنہوں نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد اُن کی راکھ کا کچھ حصہ لاہور جاکر وہاں دریائے راوی میں بہایا جائے ۔اس وصیت کی تکمیل کے لیے بھی مندرا نائر لاہور آئی تھیں۔ پاک ‘ بھارت تعلقات کے حوالے سے مندرا بھی اپنے دادا جی سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ کرتار پورمیں بھی وہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی خواہشمند دکھائی دیں‘ لیکن ساتھ میں کچھ وسوسے بھی تھے کہ معلوم نہیں بیل منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں؟گومگو کی کیفیت کے حوالے سے دلائل مندرا کے پاس بھی کافی تھے‘ لیکن ایک آس اُمید ضرور تھی کہ اب جب کام شروع ہورہا ہے تو مکمل بھی ہوگا۔گویا یہ ایک خواب ہی تھا جو اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔منصوبے پر کام شروع ہونے کی افتتاحی تقریب میں سکھ مردوخواتین کی بھی بڑی تعداد شریک تھی۔ اُن کے ساتھ بھی گفتگو رہی ۔ اُن کی گفتگو میں ایک عجیب سا اعتماد تھا۔ شایدہی کسی ایک نے بھی منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے شکوک شبہات کا اظہار کیا ہو۔ سب کو یقین تھا کہ یہ منصوبہ ضرور مکمل ہوگا۔
یہ سب تو گزشتہ سال کی باتیں ہیں ‘ لیکن بہت دن ہوتے ہیں جب سے ہمارا بابا گرونانک جی کے کرتار پور میں آنا جانا لگا ہواہے۔ وہی کرتار پور جہاں بابا گرونانک جی نے اپنی زندگی کے آخری 18سال گزارے تھے۔ جس جگہ آج نارووال کا ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال ہے وہاں کبھی میرے نانا جی ‘ جان محمد نمبردار اور اُن کے بعد اُن کے صاحبزادے کاشت کاری کرتے رہے ہیں۔ دونوں صاحبزادے‘ محمد انعام نارووال کالج کے پرنسپل اور محمد اکرام مسلم ہائی سکول کے ہیڈماسٹر ہوا کرتے تھے۔ ان کے متعدد شاگرد کرتار پور کے گردونواح میں واقع دیہاتوں سے پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ پہلی مرتبہ انہیں شاگردوں کے ساتھ کرتار پور جانے کا اتفاق ہوا ۔پھر تو یہ معمول ہی بن گیا کہ جب بھی نارووال جانا ہوتا تو کرتارپورکا وزٹ ضرور ہوتا تھا۔ہرطرف پھیلے ہوئے کھیتوں میں ایستادہ گردوارے کی دودھیا عمارت عجیب منظر پیش کرتی تھی۔ ہرطرف ہوکا عالم یا پرندوں کی چہچہاہٹ یا بیلوں کے گلوں میں بندھی گھنٹیوں کی آوازیں۔معلوم نہیں وہ کیا احساس تھا جو بار بار وہاں لے جاتا تھا۔ گردوارے میں سکھوں کے علاوہ مسلمانوں کو بھی دیکھا کرتے تھے‘ گو مسلمانوں کے اظہار ِعقیدت کا انداز قدرے الگ ہوتا تھا‘بے شمار مرتبہ سرحد پار کھڑے سکھ مردوخواتین کو گردوارے کی طرف منہ کیے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔
کرتارپور سے بھارتی سرحد بس 3کلومیٹر ہی دور ہے‘ لیکن وہ سرحد پار سے ہی کرتار پور کے درشن کرسکتے تھے۔وہیں سے اپنی عقیدت کا اظہار کرسکتے تھے۔ یہ تین کلومیٹرمسافت طے کرنے کے لیے انہیں ویزہ لگوانے کے لیے پہلے نئی دہلی جانا پڑتا‘ پھر حکومت پاکستان سے کرتار پورجانے کی خصوصی اجازت لینا پڑتی‘ تب کہیں جا کر واہگہ کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد وہ کرتار پور پہنچ پاتے۔گویا ایک طویل سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ اب سرحد پار والے بغیر ویزے کے کرتارپور آجاسکیں گے۔ اُن کا دیرینہ خواب پورا ہوا ہی چاہتا ہے۔کچھ شرائط ضرور ہیں‘ لیکن ان کا عائد کیا جانا یقینا خلافِ مصلحت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلاشبہ ملکی اداروں نے یہ سب کچھ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہوگا۔کئی ایک مواقع پر بھارت کی طرف سے روڑے ضروراٹکائے گئے‘ لیکن بالآخر دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔بھارت کو 20ڈالر فی یاتری سروس چارجز پر بے جا اعتراض تھا ۔ احسن بات رہی کہ پاکستانی حکام ‘ بھارتی حکام کو قائل کرنے میں کامیاب رہے اور یہ رکاوٹ بھی دور ہوگئی۔یاتر ی مؤثر بھارتی پاسپورٹ پر کرتار پور راہداری استعمال کرسکیں گے۔بھارت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ آنے والے یاتریوں کی فہرست ان کے آنے سے دس روز قبل دے گا۔صبح آٹھ بجے آنے والے یاتری شام تک کرتارپور میں قیام کرسکیں گے۔سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر خوشخبری اور کیا ہوگی کہ وہ سال بھر اپنے اس مقدس مقام پر آسکیں گے۔وہ مقام جسے وہ 1947ء کے بعد سے صرف سرحد پر ایک بڑے سے ٹیلے پر کھڑے ہوکر ہی دیکھتے تھے۔ مذہبی رواداری کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہوگی کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ظالمانہ اقدامات کے باوجود پاکستان نے اپنے وعدہ پورا کیا ہے۔صرف 11ماہ کی قلیل مدت میں اتنا بڑا منصوبہ ‘ صرف اپنے مقصد سے لگن کے باعث ہی مکمل ہوسکتا تھا اور ہوا ہے۔
چار ہفتے قبل ایک مرتبہ پھر کرتار پور جانے کا موقع ملا تو وہاں کے مناظر یکسر تبدیل ہوچکے تھے۔ کہاں مختصر سے رقبے پر محیط گردوارے کے اردگرد سرسبز فصلیں لہراتی رہتی تھیں۔ اس کے اردگرد پگڈنڈیوں پر بچے بھاگتے دوڑتے دکھائی دیتے تھے‘دوردرختوں کی چھاؤں میں چلتے ہوئے ٹیوب ویلوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔پرندوں کی آوازیں کانوں میں رس گھولتی تھیں ۔اسی ماحول میں 1920ء سے 1929ء کے درمیان تعمیرہونے والے گردوارے کی عمارت بہت بھلا منظر پیش کرتی تھی۔ اب جو چارہفتے قبل وہاں پہنچے تو یہ سب کچھ خواب و خیال بن چکا تھا۔ درجنوں کرینیں تعمیراتی کام میں مصروف دکھائی دیں۔ نئے تعمیراتی کام کی نوک پلک سنواری جارہی تھی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور دل میں کہیں نہ کہیں وہ ماحول ختم ہوجانے پر افسردگی کی لہر نے بھی اپنی جگہ بنائی‘ جو ہم بچپن سے دیکھتے آرہے تھے۔پھرسوچا کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کھونے کی روایت تو بہت پرانی ہے۔اب اسے ایک مرتبہ پھر دہرایا گیا ہے تو اس میں کیا غلط ہے۔خوشی کے جذبات کچھ اور غالب آگئے‘ یہ سوچ کر کہ بابا گرونانک جی کے 550ویں جنم دن کے حوالے سے یہ یقینا اہلِ پاکستان کی طرف سے سکھوں کے لیے تحفہ ہے۔نونومبر کو وزیراعظم عمران خان کرتارپور راہداری کا افتتاح کریں گے اور اُسی روز ہندوستان سے پہلا جتھہ کرتار پورآئے گا۔گویا تین کلومیٹر کی مسافت بالآخر سترسالوں کے طویل سفر کے بعد طے ہوہی گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں