"FBC" (space) message & send to 7575

جب شہر جنگل بن جاتے ہیں

ویب گردانی کرتے ہوئے اچانک ایک پیج کھل گیا ‘جو لاہور کے بارے میں تھا۔اس پیج پر موجود تصاویر کو دیکھنا شروع کیا‘ تو بہت ہی نادر اور نایاب تصاویر دیکھنے کو ملیں۔ ایک تصویر میں پنجاب اسمبلی کے باہر تانگے کھڑے دیکھنے کو ملے ۔ چوبرجی کے باہر ہوتی ہوئی کاشتکاری کی جھلکیاں بھی نظروں کے سامنے آئیں ۔ معلوم ہوا کہ چوبرجی کے اردگرد تو 1960ء تک کھیتی باڑی ہوا کرتی تھی ‘ اسی طرح ان تصاویر میں پرانے لاہور کی مزید بہت سی تصاویری جھلکیاں موجود تھیں۔ انہیں تصاویر میں مال روڈ کے مختلف مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔ مال روڈ پر لگے ہوئے کچھ مجسموں کی تصاویر بھی موجود تھیں‘ جو اب قصہ ٔپارینہ بن چکے ہیں۔یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے یادوں کے دریچے بھی کھلتے گئے۔پردے سرکے تو یاد آیا کہ ان مجسموں میں سے ایک کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے سامنے ایستادہ ایڈورڈ ہفتم کا مجسمہ بھی ہوا کرتا تھا۔ یہ وہی ایڈورڈ ہیں‘ جن کے نام پر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج قائم کیا گیا ۔1974ء تک چیئرنگ کراس پر ملکہ وکٹوریہ کا بہت بڑا مجسمہ بھی دکھائی دیتا رہا‘ جسے اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر یہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔بہت پہلے مال روڈ پر لاہور ہائی کورٹ کے بالکل سامنے ایک وقت کے گورنر پنجاب سر لارنس کا مجسمہ بھی ہوا کرتا تھا ۔ یہ وہی لارنس ہیں‘ جن کے نام پر لارنس گارڈن بنایا گیا تھا‘ جو اب باغ جناح کہلاتا ہے‘اسے بعد میں برطانیہ منتقل کردیا گیا تھا‘ اسی طرح گنگارام اور لالہ لاجپت رائے کے مجسمے بھی لاہور میں موجود ہوا کرتے تھے۔اب تو اِن میں سے صرف پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے سامنے ایستادہ الفریڈ کوپروولنز کا مجسمہ ہی بچا ہے۔بہت کم احباب معلوم ہوگا کہ الفریڈ کوپر نے پنجاب میں فروغ تعلیم کے لیے بہت خدمات انجام دی تھیں۔ پاکستان کی پہلی یونیورسٹی میں تین عشروں تک خدمات انجام دیتے رہے اور وائس چانسلر کے عہدے تک بھی پہنچے۔ موصوف سنسکرت زبان کے ماہر تھے‘ جن کے علمی خزانے میں ایک ہزار کے قریب نادر کتب کے نسخے موجود تھے ۔ 1936ء میں انتقال کرجانے والے الفریڈ لاہور کے گورا قبرستان میں مدفون ہیں۔اُن کے انتقال کے ساتھ ہی اُن کا علمی خزانہ بھی کہیں کھوگیا۔
وقت کی گردش کے باعث لاہور نے کتنا کچھ کھودیا ہے۔انہیں تصاویر میں لاہور کے بہت سے تکیوں کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملیں۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں تکیوں کی تاریخ کچھ نہیں کچھ نہیں تو 9سو سال پرانی تو ہے۔ ان تکیوں کی قیام کی بڑی یہ بنی تھی کہ جب شام کے وقت شہر پناہ کے دروازے بند کردئیے جاتے تو اس کے بعد آنے والے مسافر صبح سے پہلے شہر میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔صبح تک کے انتظار میں مسافر شہر کے دروازوں کے ساتھ بنے ہوئے سرسبز احاطوں میں قیام کرتے۔ آپس میں گپ شپ لگاتے اور صبح شہر کے دروازے کھلنے پر اندر داخل ہوجاتے۔بعد میں جب شہر نے وسعت اختیار کرنا شروع کی تو شہر کے مختلف علاقوں میں تکیے قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انہیں تصاویر میں ایک لاہور کے مشہور ترین تکیہ مراثیاں کی بھی تھی‘ جس میں کوئی گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ لاہور کی چیمبرلین روڈ پر واقع یہ تکیہ ایک دور میں ہندوستان کے مشہورترین تکیوں میں شامل تھا ۔ کسی وقت گھنے درختوں سے گھرے ہوئے اِ س تکیے میںموسیقی کی شامیں سجا کرتی تھیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب تک کوئی گلوکار اس تکیے میں اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا‘ تب تک اُسے مکمل شناخت کی سند نہیں ملتی تھی۔ کافی عرصہ پہلے میں نے اس پر ایک تفصیلی رپورٹ بھی بنائی تھی۔ تب معلوم ہوا تھا کہ اس تکیے میںچھوٹے غلام علی خان‘ امراؤخان اور علی بخش خان جیسے گلوکار وں نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ پٹیالہ گھرانے کے اُستاد عاشق علی خان تو مدفون بھی یہیں ہیں۔ لاہور کا ایک اور مشہورتکیہ صابر شاہ بھی ہوا کرتا تھا۔لاہور کے روشنائی دروازے کے باہر واقع اس تکیے میں اس وقت دوبزرگوں کے مزارات موجود ہیں ‘ان میں سے ایک حضرت صابر شاہ اور دوسرے سائیں گھنگھرو ہیں‘اسی طرح ٹکسالی دروازے کے باہر واقع تکیہ شیر علی بھی بہت مشہور ہوا کرتا تھا‘ جہاں واقع اکھاڑے میں پہلوان کثرت کیا کرتے تھے۔ بھاٹی دروازے کے باہر تکیہ ذیلداراں نے بھی بہت شہرت حاصل کی تھی۔ 
20سے 30 سال پہلے تک لاہور میں میلے ٹھیلوںکا سلسلہ بھی دکھائی دیتا تھا‘ جن کے باعث ہی یہ مثال بنی تھی کہ ''ست دن تے آٹھ میلے ‘ گھرجائیے کہیڑے ویلے‘‘اس میں سب سے مشہور میلہ چراغاں ہوا کرتا تھا۔یہ میلہ حضرت مادھولال حسین کے عرس کی تقریبات سے منسوب ہے۔مادھولال حسین کو کافی کی صنف کا موجد بھی گردانا جاتا ہے‘ مائیں نیں میں کینوں اکھاں ‘ دردوچھوڑے داحال نیں۔سجن بن راتاں ہوئیاں وڈیاں اور ایسی ہی کتنی شہرہ آفاق کافیاں ان کی سوچ کا ہی نتیجہ ہیں۔ان کے عرس کی تقریبات سے منسوب میلہ چراغاں کبھی شالا مار باغ کے اندر منعقد ہوا کرتا تھا‘ لیکن پھر صدر ایوب خان کے حکم پر1958ء میں باغ کے اندر میلے کی تقریبات پر پابندی لگا دی گئی ۔ماضی قریب تک یہ لاہور کا سب سے بڑا کلچرل فیسٹیول سمجھا جاتا تھا۔شمار تو اس کا اب بھی لاہور کی اہم سرگرمیوں میں ہوتا ہے‘ لیکن اب اس کے وہ رنگ ڈھنگ نہیں رہے‘ وجہ اس کی یہی رہی کہ آبادی میں بے محابہ اضافے کے باعث اتنی جگہ ہی باقی نہیں بچی کہ ماضی کی طرح میلے کی تقریبات وسیع پیمانے پر منعقد کی جاسکیں۔اس میلے کی سب سے بڑی تفریح یہاں لگنے والی سرکس ہوا کرتی تھی۔ متعدد دیگر ایسی سرگرمیوں نے ہی اس میلے کو لاہور کی بڑی کلچرل سرگرمی میں تبدیل کردیا تھا‘ اسی طرح لاہور میں کے متعدد دیگر میلے بھی بہت مشہور تھے ۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ یہ بغیر کسی سرکاری سرپرستی کے منعقد ہوا کرتے تھے۔آج کل کے رسم و رواج کی طرح نہیں کہ جب میلوں کے نام پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے لٹا دئیے جاتے ہیں۔
اب تو یہ سب باتیں قصۂ پارینہ ہی بن چکی ہیں۔ شہر کی آبادی میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ سب کچھ تلپٹ ہوکررہ گیا ۔پورا شہر انسانوں کا جنگل بن کررہ گیا ہے۔اس میں کوئی شبہ تو نہیں کہ زمانے میں سوائے تغیر کے کسی چیز کو ثبات نہیں۔ وقت کے ساتھ چیزیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد جو مخصوص بودوباش تشکیل پا جاتی ہے‘ اُس کی جھلکیاں بہر حال موجود رہنی چاہیں۔لاہور کی بھی اپنی ایک مخصوص بودوباش ہے۔ ایک مخصوص کلچر ہے‘ جس کا ایک جداگانہ رہن سہن ہے‘ اس شہر پر بے شمار حکمرانوں نے حکمرانی کی اور ہرکسی نے کوشش کی کہ یہاں کچھ ایسا کرجائے‘ جو اُس کی یاد دلاتا رہے‘اسی لیے ان میں سے بیشتر اپنی کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ گئے۔ انہیں سب عناصر نے مل کر لاہور کی ثقافت اور رہن سہن کو ایک جداگانہ انداز بخشا‘اسی تناظر میں منیرؔ نیازی نے اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ شہر اپنے ہر مکین کو قبول نہیں کرتا۔ منیرؔ نیازی سمجھتے تھے کہ اس شہر کی مخصوص بودوباش میں رہنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں ‘ یہ اُنہیں ہی شرف قبولیت بخشتا ہے ‘جو اسے اپنا شہر بنا سکتے ہیں۔یہاں وہ سب کچھ بڑی حد تک آج بھی موجود ہے‘ جولمبی عمر پانیوالے شہروں میں ہوا کرتا ہے‘ تاہم بدقسمتی سے جو کچھ باقی بچا ہے ‘ ہم اُسے بھی کھوتے جارہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اِس شہر کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاریخی آثار ایک ایک کرکے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔دنیا بھر میں ترقیاتی کام ہوتے ہیں‘ لیکن کوشش کی جاتی ہے کہ ان کاموں کی وجہ سے وہاں کی شناخت کو نقصان نہ پہنچے۔ ہمارے ہاں پورا معاملہ ہی اُلٹ ہے۔ بس اپنے نام کی تختی لگنی چاہیے ۔چاہے‘ اس کے لیے شناخت کی ہی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔اسے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب شہر جنگل بن جاتے ہیں تو پھر یہ سب کچھ تو ہونا ہی ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں