"FBC" (space) message & send to 7575

’’ دراصل‘‘

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پیش آنے والے واقعے پر حیرت کی کوئی بات ہے‘ نہ اس پر کسی کو اچنبھا ہونا چاہیے۔ ''دراصل‘‘ جن معاشروں میں دوسروں کو ڈرا کر جینے کا چلن عام ہوجائے ‘ وہاں یہ سب کچھ لگا ہی رہتا ہے۔''دراصل‘‘ جن معاشروں میں طاقت کا بے جا استعمال معمول بن جائے ‘وہاں اپنے سے کمزوروں کے مال کی اہمیت رہتی ہے‘ نہ اُن کی جانوں کی۔''دراصل‘‘ جہاں پر عوام کے جان و مال کی محافظ حکومتیں بھی اپنے مفادات کو مد نظر رکھیں‘ وہاں پی آئی سی جیسے واقعات پر حیرت کیسی؟ ''دراصل‘‘ جہاں ناجائز کو جائز بنانے کے لیے ضرورت کے مطابق مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کا استعمال عام ہوجائے تو وہاں یہ سب ہونے پر دکھ کس بات کا؟
قصہ مختصر یہ کہ جہاں قانون کی بالادستی کہیں منہ چھپا کر بیٹھ جائے تو پھر ہر طاقتور کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے۔ فیس سیونگ کیلئے اسے قومی مفاد کا تقاضاقرار دئیے جانے یا پھر حق کی خاطر یہ سب کچھ کرنے کی آپشن تو ہروقت ہی موجود ہوتی ہے۔ ''دراصل‘‘ جب یہ سب کچھ ہورہا ہو تو پھر چھوٹی چھوٹی پاورپاکٹس بن جاتی ہیں‘ جو اسے بنانے والوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ملک میں عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی نے جہاں ایک آمر کو گھر کا راستہ دکھایا تو اسے چلانے والوں نے خود کو طاقتور سمجھ لیا۔اس سے پہلے جب تک آمر کے ہاتھ میں طاقت رہی ‘ وہ اپنے ہی شہریوں کے قتل عام پر وکٹری کے نشانات بناتا رہا ۔ کراچی کی شاہراہوں پر لاشیں بکھری پڑی تھیں اور وہ خوشیاں مناتا رہا تھا۔ اب‘ تخت گرایا جاچکا اور تاج بھی اُچھالا جاچکا۔ افسوس کہ اب وہ اقتدار رہا‘ نہ وہ شان وشوکت ‘ بس بستر بیماری ہے اور انتظار ہے‘ اُس دن کاجو لوح ازل میں لکھا ہے‘جس نے آنا ہی ہوتا ہے‘ لیکن ہم کیسے راندہ ٔدرگاہ لوگ ہیں کہ طاقت حاصل کرنے کے بعد سب سے بڑی حقیقت کو فراموش کربیٹھتے ہیں۔ جب وقت آتا ہے تو حیرت کے ساتھ خود سے سوال کررہے ہوتے ہیں کہ اوہ اتنی جلدی؟ عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں ‘جن صاحب کی واپسی ہوئی تو پھر جب تک وہ عہدے پر براجمان رہے‘ اُنہوں نے کاروبارِ مملکت کوڈھنگ سے چلنے نہیں دیا۔ وجہ سیدھی اور صاف تھی کہ جب اُنہیں واپس لانے والوں نے آمر کو نہیں ٹکنے دیا تھا تو پھر جمہوری حکومت کی بھلا ‘ اُن کے سامنے کیا بساط تھی؟ 
طاقت حاصل ہوئی تو پھر چشم فلک نے کیا کیا مظاہر نہیں دیکھے۔ کبھی عدالتوں کے اندر پولیس اہلکاروں کو پھینٹی لگائی جارہی ہے۔ کبھی ججز صاحبان کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے تو کبھی عدالتوں کو تالے لگائے جارہے ہیں۔ طاقت کا نشہ چڑھتا ہے تو پھر سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ہائیکورٹ کے ملتان بینچ کے معزز ججوں کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور پھر معاملہ صلح صفائی پر ہی ختم کرنا پڑا۔اب‘ یہ وقت آگیا کہ اپنے دل تھامے ہسپتال کے اندر پڑے مریضوں بھی کچلے گئے‘ جنہوں نے اُن کو بچانا تھا‘ اُنہیں شاید یہ خبر ہی نہیں مل سکی تھی کہ ایک بڑی احتجاجی ریلی جی پی او چوک سے پی آئی سی کی طرف روانہ ہوچکی ہے۔
لاہورپریس کلب کے سامنے مظاہرہ ہوتا ہے تو خفیہ اداروں کے کم از کم نصف درجن اہلکار اِدھر اُدھر سے مظاہرے کے بارے میں معلومات جمع کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ اگر کئی مفید بات ہاتھ نہ لگے تو وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے مدد حاصل کی جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے‘ وکلا ریلی والے دن وہ کسی دوسرے ضروری کام میں مصروف ہوں گے۔ جب علم ہوا تو پولیس کی مختصر سی نفری کو پی آئی سی کے سامنے تعینات کردیا گیا ۔ یہ نفری بھی اُس وقت حرکت میں آئی جب خود پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اِدھر یہ عالم تھا اور اُدھر ڈاکٹر حضرات ہسپتال کے اندر سے ڈنڈے اور پتھر لیے وکلا پر حملہ آور ہورہے تھے۔ اُنہیں بھی ایسا کرنے کا پورا حق حاصل تھا۔ وجہ پھر سیدھی اور صاف ہے کہ ینگ ڈاکٹرز بھی بڑی طاقت بن چکے ہیں۔ کس کی مجال ہے کہ وہ ہسپتال میں جا کر کسی ڈاکٹر اور خصوصا ینگ ڈاکٹر کے سامنے اونچی آواز میں بات کرسکے۔ کچھ عرصہ قبل جب ڈاکٹر ایم آئی ٹی کے معاملے کو لے کر ہڑتال پر تھے۔ تب متعدد مواقع پر اُنہوں نے مریضوں کو مکمل طور پر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ ا۔ کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ انہوں نے آپریشن تھیٹر کے اندر گھس کر آپریشنز رکوانے کی کوشش کی تھی۔ تسلیم کرلیں کہ ہمارے ہاں جو بھی طاقتور ہے‘ اُسے دوسروں کے ساتھ زیادتی کرنے کا پورا حق حاصل ہوچکا اور بدقسمتی سے طاقتوروں کے اس حق کو قبول بھی کیا جاچکا ہے۔ 
آپ اندازہ تو لگائیے کہ جب انسان مرنے لگتا ہے تو وہ ڈاکٹر کی طرف بھاگتا ہے۔ جب کسی کے ساتھ بے انصافی ہورہی ہوتی ہے تو وہ وکیل کی خدمات حاصل کرتا ہے اور پولیس کی مدد تو ہروقت ہی درکار رہتی ہے۔ ایک زمانے میں میڈیا سے تعلق رکھنے والوں سے بھی مدد کی توقع رکھی جاتی تھی‘ لیکن اب میڈیا کے پر تو مکمل طور پر کٹ چکے ہیں؛ البتہ اول الذکر تینوں ادارے بھرپور طاقت رکھتے ہیں ۔ بدقسمتی سے تینوں کا کردار ہی سہولت فراہم کرنے کی بجائے ‘ آزار کا باعث بن چکا۔ ڈاکٹر کو ایک سے دوسری مرتبہ کہا نہیں جاسکتا کہ براہ ِکرم میرے مریض کو دیکھ لیں۔ وکیل کو فیس بھی اُس کی منہ مانگی دینا پڑتی ہے اور پھر اُس کی گھرکیاں بھی سہنا پڑتی ہیں۔ بات بے بات ہڑتال کرنا تو روایت بن چکی۔ بنیادی خدمت کے انتہائی اہم ادارے پولیس کی بات ہی چھوڑدینی چاہیے۔ پی آئی سی میں پیش آنیوالے واقعہ کے دوران تینوں اداروں سے تعلق رکھنے والوں کا کردار ہی کھل کر سامنے آیا ہے۔ ویسے خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ پی آئی سی والے واقعے پر بھی معاملہ بالآخر صلح صفائی پر ہی ختم ہوگا ‘جس کیلئے کوششوں کا آغاز ہوچکا۔ شاید اشاعت سطور تک معاملہ نمٹ بھی چکا ہو‘ اگرکسی کو اس حوالے سے شک ہے تو اُسے اپنا شک دور کرلینا چاہیے۔ وجہ پھر سیدھی اور صاف ہے کہ ہمارے معاشرے میں طاقت رکھنے والوں سے نمٹنے کاکوئی دوسرا آسان راستہ ہے نہیں‘ وہ بھی اِس صورت میں کہ جب حکومت کو خود اپنی بقا کے لالے پڑے ہوں تو پھر طاقتوروں سے کون پنگا لے۔ یوں بھی جب ایک مرتبہ کوئی غلط روش چل پڑتی ہے تو پھر اُس پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
ہمارے ہاں تو طاقت کے استعمال کی روش کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اب ماورائے قانون طاقت کا استعمال ہماری عادت بن چکی۔ جب قانون کا کوئی ڈر اور خوف ہی باقی نہ رہ جائے‘ تو پھر طاقت رکھنے والوں کو اپنی طاقت کے اظہار کا پورا حق حاصل ہوتا ہے‘ جسے وہ بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں۔ راہ چلتے ہوئے خاندان کو گولیوں سے چھلنی کردیا جائے‘ حق حاصل ہے‘ کیونکہ آپ کے پاس اس کی طاقت ہے۔ جعلی پولیس مقابلے میں نوجوانوں کو پار کردیا جائے ‘ آپ کو حق حاصل ہے ‘کیونکہ آپ کے پاس طاقت ہے۔ ہاں کمزوروں کے پاس یہ حق ضرور ہے کہ وہ دیت لے لیں یا پھر انصاف کی بھیک مانگتے مانگتے منوں مٹی تلے جا سوئیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے سانحہ ساہیوال میں اپنی زندگیوں سے محروم کردئیے جانے والوں نے دیت قبول کرلی۔ بالکل ویسے ہی جیسے نقیب اللہ محسود کا باپ انصاف کی راہ تکتے تکتے زندگی سے منہ موڑ گیا۔ ایسے اور کتنے واقعات کے بارے میں بات کی جائے کہ یہاں تو یہ سب کچھ جیسے معمول بن چکا ہے۔ انفر ادی سطح پر بھی تو ایسے ہی روئیے اپنی جڑیں پکڑ چکے ہیں۔ راہ چلتے دوگاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں تو جس گاڑی کا سوار زیادہ دولت مند اور اثرورسوخ والا ہوگا‘ وہ فاتح قرار پائے گا۔
پی آئی سی والے واقعہ میں بھی بس اب ‘یہی دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ آخر میں جیت کس کی ہوتی ہے؟ رہی بات حکومت کی تو اُس کیلئے تو اتنا ہی کافی ہوگا کہ فریقین مذاکرات کی میز پرآجائیں۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ '' دراصل‘‘ ایک خوش اُمیدی ہی تو باقی رہ گئی ہے‘ جو مشکل تر ہوتی ہوئی زندگی کو کسی قدر آسان بنا دیتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں