"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ میٹھا میٹھا

ملکی معاملات میں اس قدر تنوع رہتا ہے‘ جو لکھنے کے لیے کسی موضوع کا انتخاب کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔ ایک ساتھ متعدد موضوعات لکھنے کی دعوت لیے موجود رہتے ہیں۔ اب‘ یہ الگ بات کہ عمومی طور پر نگاہ انتخاب حالاتِ حاضرہ کے موضوعات پر ہی پڑتی ہے۔ پی آئی سی پر وکلا کے دھاوے کا معاملہ ابھی تک گرم ہے۔ تبصروں کے ساتھ ساتھ دور کی کوڑیاں لانے کا سلسلہ بھی ہنوز چل رہا ہے۔ حکومت ‘اسے حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے‘ لیکن اس کے اثرات تادیر زائل ہونے والے نہیں ۔ اس صورت حال نے سنجیدہ قانون دانوں کو سخت مشکل میں ڈال رکھا ہے۔سینئر قانون دان بھی اپنے تئیں بہتری کے لیے کوشاں تو ہیں ‘لیکن واقعہ اتنا بڑا ہے کہ اُن کی بن نہیں آرہی۔ اس حوالے سے ایک سینئر قانون دان سے بات ہوئی‘ تو وہ خود بھی واقعے پر اظہار افسوس کرتے رہے۔ اس دوران سابق صدر پرویز مشرف کے حوالے سے خصوصی عدالت کا فیصلہ بھی سامنے آچکا۔ بلاشبہ یہ ملکی عدالتوں سے آنے والا اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے ۔اِس پر بھی تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔جنرل پرویز مشرف کے پاس فیصلے کیخلاف اپیل کیلئے 30دن تو ہیں‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ اپیل دائر کرنے کے لیے اُنہیں وطن واپس آنا پڑے گا۔ موجودہ حالات میں وہ کم از کم یہ رسک تو ہرگز نہیں لے سکتے۔ ویسے بھی ان دنوں وہ خرابیٔ صحت کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔اس تمام تر صورت حال نے ملک میں پھر سے گرما گرمی پیدا کردی ہے‘ جس کی اچھی خاصی تپش محسوس ہورہی ہے۔اس تپش میں کس حد تک اضافہ ہوسکتا ہے؟ حالات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں ؟اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑتے ہیں ۔ فی الحال تو ان سب باتوں کو چھوڑ کر وطن عزیزکے حوالے سے سامنے آنے والی ایک اچھی خبر پر بات کرتے ہیں۔
برطانیہ سے شائع ہونے والا‘ سی این ٹریولرایک بین الاقوامی جریدہ ہے‘ جو دنیا بھر میں ہونے والی سیاحت پر نظر رکھتا ہے۔ سیاحت کے شوقین افراد کی اکثریت کہیں بھی جانے سے پہلے اس جریدے سے استفادہ کرتی ہے۔ اس سے سیاحوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کس ملک میں جانا اُن کے لیے کتنا پرکشش ہوسکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس جریدے کی طرف سے 2020ء کے دوران پاکستان کو سیاحت کے لیے پرکشش ترین مقامات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ The best holiday destination for 2020کے عنوان سے جریدے میں شائع ہونے والا آرٹیکل نظر سے گزرا تو طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ اس میں پاکستان کو آئندہ سال کے لیے بہترین سیاحتی ملک قرار دیا گیا ہے۔ ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی طرف سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2020ء کے دوران متوقع طور پر دنیا بھرمیں سیاحوں کی تعداد 1.6بلین تک پہنچ جائے گی۔ ایسی صورت میں سیاحت کے حوالے سے ایک معروف ترین جریدے کی ریٹنگ سے یقینا ہمارے ہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
اندازہ لگائیے کہ سیاحت اتنی بڑی صنعت ہے ‘جس سے امریکہ نے گزشتہ صرف ایک سال میں ایک سو تیس ارب ڈالر سے زائد کمائے۔ سپین نے 70ارب ڈالر کا حصہ وصول کیا تو فرانس بھی 65ارب ڈالر کے ساتھ بہت نمایاں رہا‘ اسی طرح متعدد دوسرے ممالک نے بھی اربوں ڈالر کمائے‘ جس کی تفصیل کافی طویل ہے۔سیاحت کے حوالے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کے باعث دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جب وہ ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں تو تعلقات بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ثقافت اور رہن سہن سے آگاہی حاصل کرتے ہیں ۔کئی ایک مثالیں ایسی بھی ہیں کہ اکثر سیاحوں کو بعض مقامات اتنے پسند آتے ہیں کہ پھر وہ وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ بدقسمتی سے سب کچھ ہونے کے باوجود سیاحت کی عالمی صنعت میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
کسی زمانے میں غیرملکی سیاحوں کا یہاں جوق در جوق دکھائی دینا تو کب کا قصہ پارینہ بن چکا۔ اب تو بس اُن کا انتظار ہی رہتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ اب تک ہم بھی سیاحت کے حوالے سے اچھا مقام حاصل کرچکے ہوتے‘ کیونکہ 1970ء کی دہائی میں ہمارے یہاں سیاحت کی صنعت کا فی تیزی سے ترقی کررہی تھی۔ یاد پڑتا ہے کہ اُس دور میں ہم روزانہ غیرملکی سیاحو ں کی درجنوں بسوں کو واہگہ کے راستے بھارت جاتے یا وہاں سے پاکستان آتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ یہ سیاح عموما اپنے پاس چاکلیٹس اور ٹافیاں وغیرہ رکھا کرتے تھے ‘جو وہ مقامی بچوں میں تقسیم کرتے ۔ شالا مار باغ کی سیر کے دوران متعدد مواقع پر ہم خود بھی سیاحوں کی دی ہوئی سویٹس سے لطف اندوز ہوچکے ہیں۔ اُن کے ساتھ تصاویر بنوانا بھی اچھا محسوس ہوتا تھا۔ لاہور کی مال روڈ پر شام کے وقت غیرملکی سیاح قطار اندر قطار دیکھنے کو ملا کرتے تھے۔ غیرملکی سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد کا پاکستان میں دکھائی دینا بالکل بھی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ ایک ایسا ملک جو پانچ ہزار سالہ قدیم تاریخ کا امین ہو‘جہاں آج کے ٹیکسلا میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ہو‘ اسی شہر میں موریہ ‘ کشان اور گندھارا تہذیبوں کے آثار بھی کثرت سے ملتے ہیں‘ جو سرزمین بدھ مت تہذیب کے بے شمار اثاثے سمیٹے ہوئے ہو‘ جہاں ایک ہزار میٹر سے آٹھ ہزار میٹر تک بلند درجنوں چوٹیاں موجود ہوں تو پھر‘ کیونکر یہ سیاحو ں کے لیے پرکشش مقام نہ ہو؟
بدقسمتی سے 1980ء کی دہائی میں حالات خراب ہونے لگے تو پھر حالات کی یہ خرابی اپنے ساتھ سیاحت کو بھی بہا کرلے گئی۔ غیرملکی سیاحوں نے تو پاکستان کیا آنا تھا‘ ہم خود ہی سیاحت کے لیے دوسرے شہروں میں جانے سے کترانے لگے۔ اس دوران ایک مرتبہ کراچی جانے کا موقع ملا تو واپس آکر سیدھے داتا دربار جا کر بخیریت واپسی کے نوافل ادا کیے۔ اہل خانہ کی لعن طعن الگ سے سنی کہ کس نے مشورہ دیا تھا کراچی جانے کا۔ آنے والے وقتوں میں تو حالات مزید خراب ہوگئے ۔ کشت و خون کا ایسا بازار گرم ہوا کہ الامان الحفیظ۔ ایسے وقت میں کہ جب خود اہل پاکستان اپنی سلامتی کے لیے فکرمند رہتے تھے تو غیرملکی کیوںکر ہمارے ہاں کا رخ کرتے۔سو‘ اُس وقت نے بہت کچھ برباد کردیا۔ اس بربادی میں سے اب ‘جو امن کا سورج طلوع ہوا ہے ‘تو اس کے اثرات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ 
موجودہ حکومت کی مجموعی کارکردگی تو سب کے سامنے ہے‘ لیکن سیاحت کے حوالے سے اس کی طرف سے اُٹھائے جانیوالے اقدامات کی تعریف نہ کرنا بخل ہوگا۔ ویزے کی پابندیوں کو نرم کرنا‘ ہالینڈ اور انگلینڈ کے شاہی مہمانوں کی پاکستان آمد کو ممکن بنانا‘کرتارپور راہداری کھول کر دنیا بھر کو خیرسگالی کا پیغام دینا‘ بہرحال حکومت کے ایسے اقدامات ہیں‘ جن کے نتیجے میں غیرملکی سیاح ہمارے ملک کی طرف راغب ہورہے ہیں‘اسی کے باعث عالمی جریدے نے بھی ہمارے ملک کو سیاحت کے لیے پرکشش ترین مقام قرار دیا ہے؛ البتہ سوچ بچار کے کچھ پہلو ضرور موجود ہیں‘ اگر آئندہ سال بڑی تعداد میں غیرملکی سیاح ہمارے ملک میں آتے ہیں تو کیا ہم اس کے لیے تیار بھی ہیں یا نہیں؟انفراسٹرکچر کی کمی‘ ہوٹلوں اور کھانے پینے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر اور پھر سیکورٹی جیسے مسائل ابھی تک موجود ہیں۔ ایک مرتبہ پریوں کے دیس کہلانے والے فیری میڈوز جانے کا اتفاق ہوا تو جوڑ جوڑ ہل گیا تھا۔ یہ دوسری بات کہ وہاں پہنچنے کے بعد ہم نے خود کو فطرت سے ہم کلام ہوتے ہوئے محسوس کیا‘ پھر وہ کے پی کے ‘ کے ضلع دیر بالا کی وادی کمفراٹ کی خوب صورتی بھی آج تک نظروں کے سامنے ہی رہتی ہے۔
بہت اچھا محسوس ہوگا جب غیرملکی سیاحوں کے ذریعے یہ خوب صورتیاں دنیا بھر کے سامنے آئیں گی۔ایک مرتبہ پھر ہمارے مہمان یہاں بلا خوف وخطر گھومیں گے اور ایک خوب صورت ملک کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں