"FBC" (space) message & send to 7575

19‘20 کا فرق

یہ روایت تو بن ہی چکی کہ آنے والے سال سے ہمیشہ اچھی اُمیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔خدشات چاہے کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں‘اُمید کا دامن ہمیشہ تھامے رکھنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ اُمید تو ہمیں بھی یہی ہے کہ بس اچھا وقت آیا ہی چاہتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے وزیراعظم صاحب متعدد بار یہ تلقین بھی کرچکے ہیں کہ بس گھبرانا نہیںہے۔ بقول اُن کے؛ نیا سال ترقی ‘ خوشحالی اور معلوم نہیں ‘کن کن اچھی چیزوںکا سال ہوگا۔ اللہ کرے کہ ایسے ہی ہو ‘ورنہ تو اس کا آغاز ہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ ہوا ہے۔ عین آغاز نئے سال پر بجلی بھی مہنگی ہوگئی ہے‘ توسوئی گیس کی قیمت پہلے ہی بڑھائی جاچکی ہے۔ آٹے ‘ دال‘ سبزیوں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوںمیں اضافہ بھی سب کے سامنے ہے ۔یہی وہ صورت ِحال ہے‘ جس نے گئے سال کے دوران بحیثیت ِمجموعی معاشرے میں بے چینی پیدا کی۔بچھڑنے والے سال نے یہ بھی ثابت کیا کہ تبدیلی کے نام پر برسراقتدار آنے والوں کے پاس شاید سرے سے کوئی ایجنڈا موجود ہی نہیں تھا‘ ورنہ یہ اُدھم تو نہ مچتا۔ جیبیں تو پہلے ہی خالی ہوچکی تھیں اور رہی سہی کسر آنے والوں نے پوری کردی۔ وہ جو ایک سے زائد مواقع پر باتوں سے دودھ اور شہد کی نہریں بہادینے کے وعدے کرتے رہے تھے۔پاکستانیوں کی بیرون ِ ملک موجود دولت واپس ملک میں لائے جانے سے تمام معاشی مسائل حل ہوجانے تھے ۔ ملک کو کرپشن سے پاک اور صاف کردیا جانا تھا۔ شیر اور بکری نے ایک ہی گھاٹ پر پانی پینا شروع کردینا تھا۔آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خود کشی کو ترجیح دی جانی تھی۔ عوام کو صحت کی سستی سہولیات فراہم کی جانی تھیں۔معلوم نہیں اور بھی کیا کیا کچھ اچھا کرنے کے وعدے کیے جاتے رہے تھے۔ ایسے وعدے جنہیں سن کر دل تو باغ باغ ہوجاتا تھا ‘لیکن دماغ نہیں مانتا تھا۔اب ‘کمبخت دماغ دن رات مذاق اُڑا رہا ہے۔ جب یہ سب کچھ نہیں ہوا تو پھریہ صورت ِحال سامنے لانے والے ‘مافیا‘کہلائے۔ چلیں؛ اک ستم اورمیری جاں ‘کیونکہ ابھی جاں باقی ہے۔
بحیثیت ِقوم ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی اُمیدوں کو نفسیاتی انحصار کی حدوں تک لے جاتے ہیں ۔کوئی ایک مرتبہ نہیں ‘ درجنوں بار نہیں‘ بلکہ سینکڑوں بار یہ غلطی دُہرا چکے ہیں‘ اسی وجہ سے جب کوئی اُمید ٹوٹتی ہے تو پھر خود ہی اپنی انگلیوں کو دانتوں سے کاٹتے رہتے ہیں۔ گزرے سال میںبھی یہی دیکھنے میں آیا۔ جب کوئی اُمید بر نہ آئی تو معاشرتی طور پر بے چینی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔بے شک حکومتی اہلکار بہلانے کی اپنی سی کوششوں میںمصروف تو رہے‘ لیکن باباجی بھی تو غلط نہیں کہتے؛ ''ڈھڈ نہ پیئاں روٹیاں ‘ تے سبھے گلاںکھوٹیاں‘‘(پیٹ میں روٹی نہ ہو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا)روٹی کا نوالہ تو پہلے بھی مشکل سے ہی منہ تک پہنچتا تھا‘ لیکن گئے سال نے تو یہ نوالہ بہتوں سے جیسے چھین ہی لیاہو۔ ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ بھی سامنے پڑی ہے۔ بتا رہی ہے کہ صرف دسمبر کے آخری ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 18.51فیصد اضافہ ہوا۔کم از کم 21اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوااور پانچ اشیا کے نرخوں میں کمی ہوئی۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیںکہ حکومتی ہدایات پر یہ رپورٹ جاری کرنے میں تاخیر کی گئی۔تاخیر کی وجہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔مجموعی طور پر مہنگائی کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔ 
صرف ایک سال کے دوران گیس کی قیمت پچپن فیصد تک بڑھا دی گئی۔ بجلی ٹیرف میں ساڑھے اٹھارہ فیصدتک کا اضافہ کیا گیا ۔دالوں کے نرخوں میں 54اور تازہ سبزیوں کی قیمتوں میں 40فیصد‘ جبکہ چینی 33فیصد تک مہنگی ہوئی۔ بتانے کو تو مزید بھی بہت کچھ ہے ‘لیکن اِسی پر ہی اکتفاکرلیں تو صورتِ حال بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔ بس ذرا چلتے چلتے شعبہ صحت کی بات کرلیتے ہیں‘جہاں سہولیات 16فیصد تک مہنگی ہوئی ہیں۔ ہسپتالوں میں نادرامریضوں کے لیے مفت ٹیسٹوں کی سہولیات ختم کردی گئیں تو ادویات کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا۔ گویا گزرے سال کے دوران ہم نے بہت سے خواب کھوئے ہیں‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اُمید سے نااُمیدی کی طرف سے سفر میں تیزی آئی ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ 
یہ سب کچھ رونما ہونے کے دوران حکومت کی سب سے زیادہ توجہ احتساب نامی کسی چیز پر مرکوز رہی۔ بارہا تحریر کیا جاچکا ہے کہ ہرمحب وطن پاکستانی اپنے ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح کرپشن کے عفریت کا خاتمہ ہوجائے ۔ موجودہ حکومت بھی اس حوالے سے واضح لائنز کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ‘پھر کیا تماشاہوا کہ احتساب یکطرفہ دکھائی دینے لگا؟کچھ تو ہوا ہوگا کہ کرپشن کے الزامات میں جیلیں بھگتنے والی متعدد شخصیات باہر آچکی ہیں ۔ میاں نواز شریف جیل سے تو کیا‘ ملک سے ہی باہر جاچکے ہیں۔ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حکومت ان سب سے مبینہ کرپشن کا پیسہ نکلوانے میں کامیاب ہوسکی ہے یا نہیں؟ کیا ہی اچھی بات ہوتی کہ اگر یہ الزامات ثابت بھی ہوتے تو احتساب کے عمل پر اعتماد میں اضافہ ہوتا۔ بھاری مقدار میں ہیروئن کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار رانا ثنااللہ بھی ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔ اس تمام صورتِ حال کے تناظر میں دیکھا جائے ‘تو ابھی تک اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ہی احتساب کی زد میں دکھائی دیتے ہیں ‘ اسی کے باعث احتساب کے عمل پر سوالات بھی اُٹھائے جاتے ہیں۔ 
افسوس تو اس پر بھی بہت ہوا کہ جب کے پی کے میں حکومت کے شروع کیے گئے منصوبے کے حوالے سے بدعنوانی کی تحقیقات شروع ہونے لگی تو حکومت اسے رکوانے کے لیے خود عدالت میں پہنچ گئی۔اسے کسی بھی سطح پر ہرگز تحسین کی نظر سے نہیں دیکھا گیا؛حتیٰ کہ حکومت کے اس اقدام پر تو شیخ رشید صاحب کی طرف سے بھی کوئی دفاعی بیان سامنے نہیں آیا۔ عجیب سی بات ہے کہ پنجاب میں متعدد بڑے ترقیاتی منصوبوں سے منسلک رہنے والے افسران جیلیں بھگت رہے ہیں‘ لیکن کے پی کے میں سب کچھ اُلٹ دکھائی دے رہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے کہ اسی صورت ِحال کے باعث بیوروکریسی بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ محسوس طور پر نہ کام کریں گے نہ جوابدہی ہوگی ‘جیسی صورت ِحال پیدا ہوچکی ہے۔حقیقت سے انکار کرنا کہاںممکن ہوگا کہ افسران کا یہ رویہ منصوبوں کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
یہ سچ ہے کہ زندگی کسی بھی حال میں رکتی نہیں ہے‘ اسے چلنا ہی ہوتا ہے اور یہ چلتی رہتی ہے۔ سو ‘2019ء کے دوران بھی چلتی رہی تھی اور 2020ء کے دوران بھی چلتی رہے گی۔ صبر کرنے کی حکومتی تلقین بھی آس‘ اُمید بندھاتی رہے گی ۔وزرا اور مشیروںکے سبز باغ بھی دیکھنے کو ملتے رہیں گے ۔ یہ سب کچھ ہوتا رہے گا ‘لیکن حقیقت سے کہاں تک اور کب تک نظریں چرائی جاسکتی ہیں۔ مافیا کہلایا جانا منظور‘ لیکن مقصد صرف گزرے ایک سال کے دوران خود پر بیتے ہوئے تاریک لمحات کا جائزہ لینا ہے۔ کوشش ہے کہ حکومتی سطح پر اُس بے چینی کو محسوس کیا جائے ‘جو اس وقت عوامی سطح پر پائی جارہی ہے۔ اوپری سطح کے معاملات اوپر والے جانیں۔ اُن کی ایک دوسرے کے ساتھ جو بھی پرخاش ہے‘ وہ اپنی جگہ ۔ کون کس کے ساتھ کس پیج پر ہے ‘ یہ اُس کا مسئلہ ہے۔ کس وزیر کا چورن ‘ جانے والوں کے لتے لے کر بِکتا ہے ۔ کون سا مشیر اپنی کوتاہیاں‘ جانے والوں کو مطعون ٹہرا کر چھپاتا ہے۔ کون اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے سیاسی مخالفین پر مشکوک کیسز بناتا ہے۔ یہ سب ان کے اپنے مسائل ہیں۔ 
یاد رکھنے کی بات ہے کہ عوام نامی ایک مخلوق بھی پائی جاتی ہے ‘جو پیٹ بھر کر روٹی چاہتی ہے ۔ چاہتی ہے کہ اُسے انصاف ملے۔ بے روزگار ہونے والے دس لاکھ کے قریب افرادبھی دوبارہ روزگار بھی چاہتے ہیں۔ یہ مخلوق بیمار بھی ہوتی ہے اور تب اُسے ادویات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہسپتالوں میں جا کر ٹیسٹ بھی کرانا ہوتے ہیں ‘جس کے لیے بیشتر صورتوں میں جیب میں پیسے بھی نہیں ہوتے۔ تب وہ امداد کے لیے اور اشک شوئی کے لیے حکومت کی طرف ہی دیکھتی ہے۔ وہ جانتی ضرور ہے کہ یہ تمام مسائل اتنی جلدی تو حل نہیں ہوسکتے‘ لیکن کچھ آس ‘ اُمید تو نظرآئے۔ اگر تھوڑی بہت آس اُمید بھی نظرآنے لگی تو شاید 19‘20کا کچھ فرق محسوس ہوجائے ‘ورنہ یہ دعا تو ضرور کرنی چاہیے کہ کہیں 19‘20کا فرق مزید اُلٹی سمت ہی نہ پلٹنا شروع ہوجائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں