"FBC" (space) message & send to 7575

نیا مسئلہ

ایرانی پاسداران ِانقلاب کی قدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی کے معاملے پر امریکا اور ایران ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے آگئے ہیں۔تنازع تو دو‘دوسرے ممالک کے درمیان پیدا ہوا ہے‘ لیکن اس کے اثرات سے بچنا ہمارے لیے بھی آسان تو ہرگز نہ ہوگا۔ ایک طرف امریکا بہادر ہے‘ جس کے ساتھ ہمارے بے شمار مفادات وابستہ ہیں تو دوسری طرف ایران ہمارا اہم ہمسایہ ملک ہے۔ ان دونوں کے درمیان جب بھی کشیدگی بڑھتی ہے تو ہمارے لیے بھی مسائل پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ماضی میں کئی ایک مواقع پر ہم ایسی صورت ِحال سے دوچار ہوچکے ہیں۔ یوں جانیے کہ ہمارے لیے اکثر جائے رفتن نہ پائے ماندن جیسا معاملہ ہی رہتا ہے۔ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔ 
ہمارے کچھ برادرعرب ممالک بھی چونکہ امریکا کے قریبی اتحادی ہیں تو ہمارے لیے صورت ِحال مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ان برادر ممالک کی اپنے طور پر بھی ایران سے کافی لے دے رہتی ہے‘ جس کے اثرات ہمیں بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں کوالالمپور سمٹ کی صورت بھی ہمیں کچھ ایسی ہی صورت ِحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کانفرنس میں شرکت نہ کرکے ہمیں ایران‘ ملائیشیا اور ترکی کی خفگی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس پر کافی تبصرے بھی ہوتے رہے‘ لیکن یقینا حکومت نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہوگا۔ اس فیصلے پر کافی لے دے بھی سننے میں آئی تھی۔ حکومت کی مجبوری یہ رہی کہ اُسے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا تھا۔ ان کے تناظر میں یہی بہتر سمجھا گیا کہ کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کی جائے۔ یوں بھی خارجہ پالیسی جیسے حساس معاملات پر زیادہ دور کی کوڑیاں لانے سے گریز ہی کرنا چاہیے۔قصہ مختصر تو یہی ہے کہ ہمارے ہمسائے اور برادر عرب ممالک کے درمیان کی پرخاش ہمیں ہمیشہ ہی کسی نہ کسی آزمائش سے دوچار کیے رکھتی ہے۔ 1979ء کے بعد سے اِس چپقلش میں امریکا بہادر بھی مکمل طور ایک فریق بن چکا ہے اور یہ صورت ِحال ہمارے لیے مزید مشکل کا باعث بنتی ہے۔ ان ممالک کے درمیان جب بھی تعلقات زیادہ کشیدہ ہوتے ہیں تو ہمیں اپنی پڑ جاتی ہے اور اس وقت ایک مرتبہ پھر ایسی ہی صورت ِحال دکھائی دے رہی ہے۔ 
فی الحال تو معاملہ ایران اور امریکا کے درمیان ہے‘ لیکن بہت سے دوسرے خدشات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ۔ امریکی حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کے جاں بحق ہونے پر ایران کا انتہائی سخت رد عمل سامنے آیا ہے‘ جو غیرمتوقع ہرگز نہیں ۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے بعدجنرل قاسم سلیمانی کو ایران میں دوسری طاقتور ترین شخصیت خیال کیاجاتا تھا۔سمجھا جاتا تھا کہ اُن کے دوستوں اور دشمنوں کی تعداد بیک وقت بہت زیادہ تھی۔ ایران کی اس دوسری سب سے طاقتور شخصیت کو اُس وقت نشانہ بنایا گیا ‘ جب وہ جمعہ کی صبح کوگاڑیوں کے ایک قافلے کے ساتھ بغداد ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے ۔امریکا کی طرف سے الزام یہ بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ امریکیوں پر ایک اور منظم حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے ‘جس پر اُن کیخلاف کارروائی کی گئی۔ اس حملے میں اُن کے ساتھ سفر کرنے والے متعدد دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے۔یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب چند ہی روز پہلے بغداد میں امریکی سفارتخانے کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ امریکا کی طرف سے اس کے لیے ایران کو موردِالزام ٹہرایا گیا تھا۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں بھی جنرل قاسم سلیمانی کا اہم کردار تھا۔ کرشمانی شخصیت کے مالک سمجھے جانے والے جنرل قاسم سلیمانی پہلے پہل پس پردہ رہ کر ہی کام کرنا پسند کرتے تھے‘ لیکن اب صورت ِحال کافی مختلف ہوچکی تھی‘ اسی تناظر میں امریکا طویل عرصے سے جنرل قاسم سلیمانی کے درپے تھا۔ اُس کے نزدیک جنرل قاسم سلیمانی مختلف ممالک میں پراکسی وار ز کے ذمہ دار تھے۔ امریکا کی طرف سے الزام یہ بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ امریکیوں پر ایک اور منظم حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے ‘جس پر اُن کے خلاف کارروائی کی گئی۔یہ خبر ایران پہنچتے ہی وہاں نا صرف حکومتی ‘بلکہ عوامی سطح پر بھی شدید رد عمل سامنے آچکا ہے۔دنیا کے مختلف ممالک کی طرف سے فریقین سے صبر سے کام لینے کی اپیلیں تو سامنے آئی ہیں ‘لیکن یہ معاملہ اتنی جلدی ٹھنڈا ہونے والا نہیں ہے۔
امریکا اور ایران کے گزشتہ چار دہائیوں کے تعلقات کا مختصر جائزہ لیا جائے‘ تو 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد سے ایران‘ امریکا تعلقات کبھی بھی معمول پر نہیں آسکے۔ اس طویل عرصے کے دوران دونوںممالک کے درمیان کمی بیشی کے ساتھ کشیدگی ہمیشہ ہی موجود رہی ہے۔کبھی بیروت میں امریکیوں پر ہونے والا حملہ‘ کبھی کونٹرسکینڈل ‘ایران کا ایٹمی پروگرام اور پھر اس کے نتیجے میں ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں اور ایسے ہی متعدد دیگرمعاملات پر دونوںممالک ہمیشہ ہی ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں۔دونوں نے کسی بھی موقع پر ایک دوسرے کو زِک پہنچانے کا موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کہاں توانقلاب سے پہلے ایران‘ امریکا باہم شیروشکر تھے۔ ایران کو خطے میں امریکی مفادات کے تحفط کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ اب ‘یہ عالم کہ وہاں امریکا کو انقلاب کے بعد بزرگ شیطان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ 
دونوں ممالک کے درمیان شدیدکشیدگی تو 1979ء میں انقلاب کے وقت سے ہی پیدا ہوگئی تھی۔تب ایرانی طلبا کے ایک گروہ نے تہران میں امریکی سفارتخانے پر ہلہ بولا تھا۔ انہوں نے 52امریکی سفارت کاروںکو 444دنوں تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔ امریکا نے ایران کے اثاثے منجمد کردئیے‘ جس دوران مذاکرات بھی ہوتے رہے۔ 1981ء میں دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ الجزائر عمل میں آیا‘ جس کے نتیجے میں امریکی یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آسکی۔ اُس کے بعد سے دونوں کے درمیان تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے۔ 1983ء میں لبنان کے دارالحکومت میں ایک حملے کے دوران 241امریکی فوجی ہلاک ہوگئے‘ جس کا الزام بھی ایران پر عائد کیا گیا ۔ کونٹرا سکینڈل کے بعد 1988میں امریکا نے آبنائے ہرمز میں دوایرانی آئل فیلڈز کو نشانہ بنایا۔ چند ہی ماہ بعد ایک ایرانی طیارے کو مارگرایا گیا‘ جس میں سوار 290افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس کے بعد کے دور میں دونوں کے درمیان تعلقات قدرے بہتررہے۔ ایران کا ایٹمی پروگرام سامنے آیا تو تعلقات پھر بگاڑ کی طرف چلے گئے۔ ایٹمی پروگرام کے تناظر میں ایران پر پابندیاں عائد کی گئیں تو 2013ء تک ایرانی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔
اب ایک مرتبہ پھر امریکا بہادر اور ایران آمنے سامنے ہیں۔معاملہ انتہائی بگاڑ کی طرف جانے کی صورت میں ہمیں پھر کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑسکتا ہے۔ ایک اور مشکل یہ بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ ہماری تیل کی تقریبا 95فیصد درآمدات آبنائے ہرمز کے راستے آتی ہیں۔ جنگ کی صورت میں یہ آبی راستہ لامحالہ متاثر ہوگا‘ جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں ہوشربا حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس تمام صورتِ حال کے پیش نظر ہی عالمی برادری کی طرف سے فریقین کو صبرو تحمل کی تلقین کی جارہی ہے ۔
اِس پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ اگر صورت ِحال زیادہ خرابی کی طرف جاتی ہے تو تب پاکستان خود کو کہاں پائے گا؟ اس طرح کی صورت حال کا ہم ماضی میں بھی متعدد مواقع پر سامنا کرچکے ہیں‘ لیکن اس مرتبہ صورت ِحال سے نمٹنا بظاہر کافی مشکل ہوسکتا ہے۔ صورت ِحال بگڑنے کی صورت میں امریکا تو براہ راست اس سے متاثر نہیں ہوگا۔ خمیازہ تو خطے کے ممالک کو ہی بھگتنا ہوگا ۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے اپنی مجبوریوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے اور بعض اوقات اپنی خواہشات کے برعکس بھی جانا پڑتا ہے۔اللہ نہ کرے کہ یہ نیا مسئلہ ہمارے لیے ایسی مجبوریاں لے کر آئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں