"FBC" (space) message & send to 7575

وہ گِدھ ‘ یہ گِدھ

وہ گِدھ‘ دیکھنے میں ایسے کہ دیکھتے ہی کراہت ہونے لگے۔ ان کا کام بھی ایسا کہ جسے کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ بالکل ویسے ہی ‘جیسے ہم ابھی تک اُنہیں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے‘ جو ہمارا ہی پھیلایا ہوگند اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ عجب پیمانے ہیں ہمارے بھی کہ گند ہم پھیلائیں اور گندے اسے اُٹھانے والے کہلائیں۔ جان رکھیے کہ اگر ہمارا پھیلایا ہوا گند اُٹھانے والے اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تو ہمارے لیے سانس لینا بھی مشکل ہوجائے۔ مختلف وجوہ کی بنا پر گاہے بگاہے ہمیں اس کا اندازہ ہوتا بھی رہتا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی جب لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے معاملات کچھ خراب ہوئے تھے تو لگ پتہ گیا تھا۔ اگر پھر بھی کوئی شک باقی رہ گیا ہو تو ایک چکر کراچی کا لگا آئیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جگہ جگہ لگے ہوئے کچرے کے ڈھیر وہاں جو قیامت ڈھا رہے ہیں‘ بس اہل ِکراچی ہی اُس کی اذیت محسوس کرسکتے ہیں‘ پھر بھی ہم صفائی کرنے والوں کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیںکہ یہ لوگ نہ ہوں تو ہم سانس بھی نہ لے پائیں ۔ گدھ قدرت کے سینٹری ورکرز ہوا کرتے تھے ‘جن کے ذمے ماحول کو صاف کرنا ہوتا تھا۔ کوئی مردہ جسم کہیں دکھائی دینے کی دیر ہوتی کہ قدرت کے خاکروب وہاں پہنچ جاتے ۔ منٹوں میں مردہ جسم چٹ کرتے اور نئے شکار کی تلاش میں اونچے درختوں پر جابیٹھتے ۔ اب‘ ان کے بارے میں ماضی کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے دل تو دکھ رہا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں ان کے حوالے سے صورت ِحال کچھ ایسی ہی ہے۔ سچی بات تو یہ بھی ہے کہ پہلے ہمیں اِن گِدھوں کے بارے میں زیادہ علم بھی نہیں ہوتا تھا کہ یہ کس طرح سے ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔ 
یہی کوئی تقریباً 15سال پہلے تک تو یہ لاہور میں بڑی تعداد میں دکھائی دیا کرتے تھے۔ درختوں کی بلند ترین ٹہنیوں پر بیٹھے اپنی تیز نظروں سے زمین کو کھوجتے رہتے تھے۔ جہاں کہیں بھی کوئی مردار دکھائی دیتا تو سیکنڈز میں وہاں پہنچ جاتے‘پھریکایک یوں ہوا کہ اِن کی تعداد میں تیزی سے کمی ہونے لگی۔ ان دیکھی موت انہیں ایک کے بعد ایک اُچکنے لگی۔ ماہرین نے سرجوڑا تو بالآخر وجہ سامنے آگئی۔ مویشیوں کو دی جانے والی ایک دوا ڈکلو فینک سوڈیم ان کی موت کا باعث بن رہی تھی۔ اس دوا کے اثرات اپنے جسم میں لیے جب بھی کوئی مویشی مرتا تو اُسے کھانے والے گِدھوں کے گردے فیل ہوتے اور زندگی اُن سے روٹھ جاتی۔ وجہ سامنے آنے کے بعد دوا پر پابندی تو عائد کردی گئی‘ لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اندازہ لگایا گیا کہ ان کی تعداد میں 90 فیصد سے بھی زیادہ کا زوال دیکھا گیا ۔ گویا ایک وقت میں جن کی زیادہ تعداد پریشانی کا باعث ہوتی تھی ‘ اب وہ نایاب پرندے کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ اس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حا ل ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کے بہت ہی پیارے سے آفیسر نعیم بھٹی صاحب سے بات ہوئی تو اُنہوں نے تاحال نایاب پرندے کے بارے میں ہماری معلومات میں مزید اضافہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسے بچانے کے لیے اب‘ سندھ کے علاقے ننگرپارکر میں سوکلومیٹر پر محیط ایک سیف زون قائم کیا جاچکا ہے۔ اُن کے مطابق ‘اس وقت ملک میں جتنے بھی گِدھ بچے ہیں‘ اُن کی بڑی تعداد سندھ میں موجود ہے۔ پنجاب کے بارے میں سوال پر قدرے خاموشی کے بعد بتایا ؛ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے ہاں بس چولستان کے کچھ علاقے یا پھر دوردراز کے دیہی علاقے ہی ایسے بچے ہیں ‘جہاں یہ انتہائی محدود تعداد میں باقی رہ گیا ہے۔
گِدھوں کی کمی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر بات ہوئی تو پریشانی سی ہوئی۔ اس وقت فضا میں ہرطرف چیلیں اور کوئے ہی اُڑتے دکھائی دیتے ہیں‘ تو زمین پر کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں مسلسل اضافے ایک بڑی وجہ بھی گِدھوں کی کمی ہے۔ سچی بات ہے کہ پہلے اس طرف کبھی توجہ ہی نہیں گئی تھی۔ اب‘ جو دھیان دیا تو یہ بھی یاد آگیا کہ جہاں پر گِدھ موجود ہوتے‘ وہاں چیلوں اور کوؤں کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی تھی۔ زمین پر کوئی مردار دکھائی نہیں دیتا تھا تو پھر بھلا کتوں کی بھیڑ بھاڑ کا کیا جواز رہ جاتا تھا۔ اب‘ چیلیں اور کوئے فضاؤں میں طیاروں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور آوارہ کتے زمین پر مرداروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھنبھوڑ رہے ہیں۔ پارسی برادری تو کچھ زیادہ ہی پریشان دکھائی دیتی ہے۔ پارسی یہ سمجھتے ہیں کہ پانی ‘ ہوا‘ سورج اور آگ مقدس ہیں‘ جنہیں کسی بھی صورت آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔اسی تناظر میں وہ سمجھتے ہیں کہ مردوں کو جلانے یا دفنانے سے یہ عناصر آلودہ ہوسکتے ہیں۔ اس آلودگی سے بچنے کے لیے وہ مرجانے والوں کے اجسام کسی اونچے مینار پر ‘ گِدھوں کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ اب‘ گِدھوں کی تعداد میں کمی کے بعد وہ کسی حد تک اپنی صدیوں پرانی اس رسم کو چھوڑنے پرمجبور ہوچکے ہیں۔ پس ‘جان رکھیے کہ کارخانہ قدرت کا ہرکل پرزہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اس حوالے سے ایک آخری بات کہ اب‘ اُن گِدھوں کی مصنوعی افزائش نسل پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔چھانگا مانگا میں ڈبلیو ڈبلیو ایف اور پنجاب حکومت کے اشتراک سے ان کی مصنوعی افزائش نسل کے لیے ایک سینٹر کام بھی کررہا ہے۔یہ چونکہ ایک انتہائی مشکل عمل ہے‘ اس لیے ابھی ان گِدھوں کی تعداد میں اضافہ کافی دور کی بات ہے‘لیکن‘لیکن‘ یہاں گِدھوں کی ایک ایسی نسل بھی ہے‘ جو خود کار طریقے سے ہی مسلسل بڑھتی رہتی ہے۔ وہ گِدھ مردہ اجسام کو نوچتے ہیں اور یہ گِدھ جیتے جاگتے پاکستان اوراس میں رہنے والے کمزوروں کو نوچ نوچ کر کھاتے چلے جارہے ہیں۔ وہ گِدھ ماحول کو صاف کرتے تھے اور یہ گِدھ ملکی خزانے کی صفائی کرتے ہیں۔ وہ گِدھ اپنا کام سرعام کیا کرتے تھے ‘کیونکہ اُنہیں یہ ذمہ داری قدرت کی طرف سے سونپی گئی تھی۔قدرت کی طرف سے ذمہ داری نہ سونپے جانے کے باوجود اب‘ یہ گِدھ بھی کھلے عام اپنا کام کرتے ہیں۔ خوب جانتے ہیںکہ جن کا مال لوٹ لوٹ کر وہ اپنی تجوریاں بھررہے ہیں‘ ایک دن اُنہیں یہ سب اُنہیں کو واپس لوٹانا ہی ہوگا۔وہ بھول جاتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نے فرما یا ہے کہ تمہیں قیامت کے روز حق داروں کو اُن کے حقوق واپس لوٹانا ہی ہوں گے‘ یہاں تک کہ بے سینگ بکری کو بھی سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ مجھ اور آپ سمیت کو ن نہیں جانتا کہ کسی کا حق مارلینا کتنا بڑا جرم ہے‘ پھر بھی‘ بس ہم ایک دوسرے کو نوچتے ہی چلے جارہے ہیں۔ جہنم کی آگ کو اپنے اندر بھرتے ہی چلے جارہیں۔ افسوس درافسوس در افسوس کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ‘ اُٹھتے بیٹھتے پوز یہی کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرتے ہیں۔کوئی تو پوچھے کہ اگر ہم سچ میں ڈرتے ہوں تو یہ سب کچھ کریں؟جان رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی نیک بندوں کے علاوہ مجھ سمیت ہرکوئی جتنا لوٹ سکتا ہے ‘ لوٹ رہا ہے۔ 
وہ گِدھ تو ختم ہونے کے قریب پہنچ گئے ‘لیکن یہ گِدھ روز بروز طاقتور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک آتا ہے تو عوام کے نام پر عوام کو لوٹ لیتا ہے ۔ دوسرا آتا ہے تو اپنی ناجائز حکومت کو استحکام اور طوالت دینے کے لیے مذہب کا استعمال کرتا ہے۔ تیسراآتا ہے‘ تو سب سے پہلے پاکستان کے نام پربیڑے ہی غرق کردیتا ہے ۔ چوتھا آتا ہے تو اثاثے راتوں رات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ پانچواں آتا ہے تو تبدیلی کہ نام پر چونا لگانا شروع کردیتا ہے۔ پتہ نہیں کس بوتے پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔ باقی رہے عوام تو پھر بھلا وہ کیوں کسی سے پیچھے رہیں‘ اسی لیے تو ایک دوسرے کے ہاتھوں اپنے ہی بھائیوں کی عزتیں محفوظ رہیں‘ نہ جان و مال۔ ایسا ہوتا تو کیا عدالتوںمیں ایک دوسرے کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیرسماعت ہوتے؟اگر سب نہیں تو کم از کم نصف سے بھی زائدمقدمات تو جھوٹے ہوں گے ہی‘ جو دوسروں کا مال ہتھیانے پا پھر مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے دائر کیے گئے ہیں۔
نہیں یقین آتا تو اعلیٰ سطحی مقدمات پر ایک نظر دوڑا لیں۔ خیر آغاز تو تبھی ہوگیا تھا جب پودینے کے باغات کے بدلے میں آموں کے باغات الاٹ کرائے گئے تھے۔اُس کے بعد بھی کسی نے جھوٹ سے تو کسی نے طاقت سے جاگیریں بنا لیں۔جس کا ہاتھ پڑ گیا وہ نہال ‘ورنہ تھوکوڑی یا پھر نوچا ناچی‘شاید یہ سب دیکھ کر ہی وہ گِدھ کہیں منہ چھپا کر بیٹھ گئے ہیں‘ لیکن یہ گِدھ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں