"FBC" (space) message & send to 7575

ڈھونڈ سکو تو ڈھونڈ لو…!

کہیں پڑھا تھا کہ ملک میں گندم کا پہلا بحران ہمارے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے دور میں پیدا ہوا تھا‘ اسی کے پیش نظر قائد ملت لیاقت علی خان کی طرز پر اُنہیں قائد قلت کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔ مظاہرے ہوئے تو اس بحران کو بنیاد بنا کر گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ صاحب کو برطرف کردیا۔ وہ تو بعد میں اندازہ ہوا کہ بات اتنی سادہ نہیں تھی۔ پس پردہ بہت سی قوتوں کے مقاصد کارفرما تھا ‘جنہیں بحران کی آڑ میں بخوبی پورا کرلیا گیا۔ یہ بھی کہیں نظر سے گزرا تھاکہ اس واقعے کے کچھ ہی عرصے کے بعد ''تھینک یو امریکہ‘‘کے کارڈزگلے میں لٹکائے‘ گندم سے لدے ہوئے اونٹ کراچی کی شاہراہوں پر گشت کرتے رہے تھے۔اُس کے بعد سے تو بحرانوں کا ایسا دور شروع ہوا کہ آج تک ہم خود کو کسی نہ کسی بحران کی زد میں ہی پاتے ہیں۔کبھی سیاسی تو کبھی معاشی اور کبھی کوئی اور... ہر بحران کے حل ہونے کے بعد یہی حقیقت طشت از بام ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ قوتوں کی کارستانی تھی‘ اسی تناظر میں ایسی کوئی راکٹ سائنس تو ہرگر نہیں جو سمجھنا مشکل ہوکہ آخر آٹے ‘ آٹے کی صدائیں بلند ہونا کیوں شروع ہوئی ہیں۔ وہ بھی اتنی بلند کہ کانوں میں پڑی کوئی دوسری آواز سنائی ہی نہیں دے رہی۔بحران سے نمٹنے کیلئے حکومت اُوپر تلے تو ہورہی ہے‘ لیکن اب جومسئلہ پیدا ہوچکا‘ یہ اتنی جلدی حل ہونے والا بہرحال نہیں ۔ یوں بھی مسائل کا تو ایک لاینحل سلسلہ دراز تر ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ حکومت بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے سے کچھ سانس ملے تو عوامی مسائل کی طرف توجہ دینے کی فرصت حاصل ہو۔ عالم تو یہ ہوچلا جا رہا ہے کہ بہتری کی رہی سہی اُمیدیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں‘ لیکن ڈرامے بازی کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ سچی بات ہے کہ کارکردگی دکھائی دے رہی ہے‘ نہ کسی حوالے سے سنجیدگی کا کوئی پہلو نظرآرہا ہے۔کارکردگی تو ایک طرف رہی‘ بیشتر حکومتی ارباب اختیار کی گفتگو ہی سن لی جائے تو اندازہ ہوجاتاہے کہ اِنہیں معاملات کا کہاں تک ادراک ہے۔ چلیں کچھ کرنے کی صلاحیت نہ ہو توبھی کم ازکم انسان اپنی حرکات وسکنات سے تو خود کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرہی سکتا ہے۔یہاں تو ایسا ہے کہ منہ کھلتا ہے اور بے یقینی سی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ 
کل عالم جانتا ہے کہ ایک مرتبہ انسان بے اعتبارا ہوجائے تو پھر اعتماد حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ مجھے کچھ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے بیشتر ارباب ِاختیار کسی خاص قسم کے سانچے میں ڈھل کر آئے ہوں ‘گویا اصلاح کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی ہو۔ ہم تو یوں بھی اچھے بھلے معاملات بگاڑ دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور یہاں تو بگاڑ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا ۔ کہاں تو50لاکھ افراد کو گھر بنا کر دئیے جانے تھے ‘ اُلٹا منہ سے نوالا باہر کوآرہا ہے۔ کہاں تو ایک کروڑ افراد کو نوکریاں فراہم کی جانی تھیں اور کہاں کم از کم دس لاکھ لوگوں کو بے روزگار کیا جاچکا ۔ کہاں تو دوسرے ممالک سے لوگوں نے روزگار کی تلاش میں پاکستان آنا تھا اور کہاں یہ کہ یہاں کے رہنے والوں کو ہی روٹے کے لالے پڑ گئے ہیں۔غضب خدا کاجو ملک ہرسال دوکروڑ پچاس لاکھ ٹن سے لے کر دوکروڑ 75 لاکھ ٹن تک گندم پیدا کرتا ہے ‘ وہاں گندم ڈھونڈے سے نہیں مل رہی۔ عجیب سی بات ہے کہ پورے ملک میں آٹے ‘ آٹے کی صدائیں بلند ہورہی ہیں‘لیکن سننے میں یہی آرہا ہے کہ گندم کا کوئی بحران نہیں‘ صورت ِحال پوری طرح سے کنٹرول میں ہے ۔ ارے بھئی! اگر صورت ِحال قابو میں ہے تو پھر ہنگامی بنیادوں پر گندم درآمد کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ اب جو حکومت کی طرف سے تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے‘ تو ہنگامی بنیادوں پر کاغذات مکمل کرنے کی کارروائی بھی پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہے۔ عام صورت ِحال ہوتی تو اِس کارروائی کی تکمیل کے لیے کم سے کم 15روز درکار ہوتے۔ مشکل یہ ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اُٹھائے جانے کے باوجود گندم لے کر آنے والا پہلا جہاز 15سے 18فروری کے درمیان ہی پہنچ سکے۔گویا پانچ ماہ پہلے جوپانچ لاکھ ٹن گندم ‘ 200ڈالر کے حساب سے افغانستان‘ سری لنکا اور افریقی ممالک کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے ممالک کو بیچی گئی تھی۔ اب فی من 250ڈالر اداکرنے کے بعد دوبارہ سے وطن عزیز میں واپس لائی جائے گی۔ جب تک درآمدی گندم کراچی پہنچے گی تب تک متوقع طور پر سندھ میں گندم کی فصل مارکیٹ میں آنے کے لیے تیار ہوگی۔ اُس کے کچھ ہی عرصے کے بعد پنجاب میں بھی گندم کی فصل مارکیٹ میں آجائے گی‘لیکن جب تک صورت ِحال معمول پر آئے گی ‘ تب تک ہنگامی حالات پیدا کرنے والوں کے مقاصد پورے ہوچکے ہوں گے ۔
یہ بالکل ویسے ہی جیسے ہرسال ہی چند اشیا کی سپلائی اور ڈیمانڈ میں واضح فرق پیدا ہوجاتا ہے یا پیدا کردیا جاتا ہے۔ذرا ذہن پر زور تو دیں جب پرویز مشرف کے دور میں گندم اور چینی کا بحران آیا تھا‘ تب کون سے چہرے اُن کے اردگر دتھے؟نہ یاد آئے تو موجود حکومت کے کچھ کرتا دھرتا اربابِ اختیار کو دیکھ لیجئے گا ‘ سب کچھ یاد آجائے گا۔ چینی کا ایک بحران تو ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے گذرا ہے ۔ اُس کے بعد سبزیوں کی قیمتوں کو جو پر لگے تو انہیں بھی ہاتھ آتے آتے کافی وقت لگ گیا۔ ان دونوں معاملات کے پیدا ہونے اور پھر حل ہونے کے بعد سب ہنسی خوشی اپنے اپنے معمولات میں مصروف ہیں ‘ اِسی طرح گندم اور آٹے کے موجودہ معاملے کی بھی ہیپی اینڈنگ ہوجائے گی۔ اس سے پہلے پیدا ہونے والے ایسے بحران کوئی ایک دن میں پیدا ہوئے نہ اِس مسئلے نے ایک دن میں سر اُٹھایا ہے۔ ایسے کسی بھی معاملے کے سراُٹھاتے ہی ‘ اِن کے آثار بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہم چونکہ گذرے وقت کو بہت جلد بھلا دینے کے عادی ہیں۔سو‘بیتے معاملات کو ایک طرف رکھتے ہوئے آٹا و گندم بحران کو ہی موضوع گفتگو رکھتے ہیں۔
ایک تو وفاق کی غلط منصوبہ بندی اور دوسرے صوبوں کی اپنی مس مینجمنٹ نے معاملات خراب سطح پر پہنچا دئیے ہیں۔پنجاب میں اِس کے آثار گذشتہ سال مئی جون کے دوران ہی دکھائی دینے لگے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مارکیٹ میں مکئی کے نرخ تقریبا 14روپے من تھے اور گندم 12سو روپے من میں دستیاب تھی۔ تب فیڈ ملوں کے مالکان‘ ہمارے اُس وقت کے سیکرٹری خوراک کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ اگر اُنہیں کچھ گندم فراہم کردی جائے تو فیڈ کے نرخوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ سیکرٹری صاحب نے نہ صرف اجازت مرحمت فرما دی ‘بلکہ تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کو ایک مراسلہ بھی جاری کردیا کہ گندم ضلعے سے باہر نہیں جانی چاہیے۔یہ سب کچھ ہمارے علم میں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سیکرٹری صاحب کی طرف سے جاری کیا جانے والا مراسلہ ہماری نظر سے بھی گزرا تھا۔ تب اس بابت محکمے کے کچھ ذمہ داروںسے بات ہوئی تو اُن کی طرف دبے لفظوں میں اس پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا‘ لیکن ہونا کیا تھا‘ بس! نقارخانے میں طوطی کی آواز والا معاملہ رہا۔ 
ایسا نہیں کہ گندم اور آٹے کا مسئلہ پیدا ہونے کا یہ واحد سبب ہے‘ لیکن ایک بہت اہم وجہ ضرور ہے۔ اس تمام چکر میں فیڈ ملیں کچھ نہیں کچھ نہیں تو 8سے ساڑھے آٹھ لاکھ ٹن گندم حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا‘ جس سے فیڈ ملیں تو اپنی آمدنی میں اچھا خاصا اضافہ کرنے میں کامیاب رہیں‘ لیکن اس چکر میں پوری چین ڈسٹرب ہوگئی۔ جب صاحب نے کہہ دیا کہ فیڈ ملوں کو گندم فراہم کرنی ہے تو پھر کس میں دم مارنے کی مجال تھی ۔ سو‘ یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ اس صورت ِحال کے اثرات لامحالہ دوسرے صوبوں پر بھی مرتب ہوئے اور اب ایک زرعی ملک کہلانے والے ملک میں گندم جیسی جنس نایاب ہوچکی ہے۔ نوالے کو منہ تک پہنچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر گندم برآمد کی جارہی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ معاملے کی ہیپی اینڈنگ ہونے کے بعد جب سب اپنے اپنے گھر میں ہنسی خوشی رہنے لگیں گے تو سب گند قالین کے نیچے چلا جائے گا۔ ہماری کمزور یادداشتوں سے سب کچھ محو ہوجائے گا کہ بحران پیدا کرنے والوں کو سزا دئیے جانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا‘ اُس کا کیا بنا؟ سب کچھ ہمارے سامنے ہوگا ‘لیکن ‘لکن میٹی ‘کا ایسا کھیلا کھیلا جائے گا کہ بس یہی صدا باقی رہ جائے گی؛ڈھونڈ سکو تو ڈھونڈ لو...!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں