"FBC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ نے حیرت زدہ تو کیا ہے

امریکی صدر ٹرمپ اپنا دورۂ بھارت مکمل کرنے کے بعد واپسی کی راہ اختیار کرچکے اوراپنے پیچھے چھوڑ گئے ہمارے لیے بھی خوش ہونے کی کچھ وجوہات! یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت ‘ دونوں کو حیرت زدہ کیا ہے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر کسی حد تک یہ توقع تو تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ‘ پاکستان پر تنقید کے زیادہ نشتر نہیں چلائیں گے‘تاہم یہ توقع ہرگز نہیں تھی کہ وہ ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کے دوران ہمارے لیے‘ توقعات کے برعکس اچھے خاصے تعریفی کلمات کہہ ڈالیں گے۔ واضح طور پر کہا گیا کہ پاکستان کے بھرپور تعاون کے باعث ہی شدت پسندوں کے خاتمے کا کام بخوبی جاری ہے۔یہ بھی کہ انہیں کامیابیوں کے تناظر میں وہ پاکستان کے ساتھ بڑی کامیابی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور کے سب سے طاقتور شخص کے نزدیک پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باعث نہ صرف خطے کے ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی آئے گی‘ بلکہ مستقبل کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی میں بھی اضافہ ہوگا۔
واضح طورپر یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اس بات کا اشارہ تھا کہ فی الحال بھارت کی خوشی کے لیے پاکستان کو ہدف تنقید نہیں بنایا جاسکتا۔ گویا امریکی صدر نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی مدد کے بغیر طالبان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے‘ نہ افغانستان سے امریکی افواج کی محفوظ واپسی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب خطے کے دو اہم ممالک‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ موجود ہے۔ ایک دوسرے کیخلاف الفاظ کی جنگ بھی عروج پر ہے۔کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیخلاف پاکستان کی کوششوں پر بھارت میں غم وغصہ موجود ہے۔ شہریت کے قانون کو لے کر بھارت میں آگ لگی ہوئی ہے۔بھارتی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود شہریت قانون کے معاملے پر حالات قابو میں نہیں آرہے۔ مسلمان تو ایک طرف رہے‘ خود ہندوؤں کی ایک قابل ذکر تعداد اس قانون کیخلاف سراپا احتجاج ہے‘ان حالات میں کوئی وجہ باقی نہیں رہی تھی کہ ٹرمپ کی پاکستان کی طرفداری ‘بھارتیوں کو سیخ پا نہ کرتیں اور ایسا ہی ہوا۔
عام حالات میں امریکی صدر کی طرف سے پاکستان کی تعریف کیا جانا بھارتیوں کے جذبات شاید اس قدر نہ بھڑکاتا اور بھارتی اسے برداشت کرجاتے۔ موجودہ حالات میں بہرحال بھارتیوں کی طرف سے ‘ پاکستان کیلئے امریکی صدر کے تعریفی کلمات برداشت کرنے کے امکانات بہت کم تھے ۔ بھارتیوں سے تو ویسے بھی بڑے پن کی توقع رکھنا عبث ہے۔ وہ بھی اِن حالات میں کہ جب موجودہ بھارتی حکومت کے نزدیک تو پاکستان کی مخالفت ہی مضبوطی اقتدار کا مجرب نسخہ ہے۔ اب‘ غصہ براہ ِراست پاکستان پر تو نہیں نکالا جاسکتا تھا‘ اسی لیے اس کا اظہار بھارتی مسلمانوں کیخلاف تشدد بھڑکا کرکیا گیا‘جس کے نتیجے میں ‘متعدد اموات بھی ہوچکی ہیں۔ مصدقہ طور پر آرایس ایس کے غنڈوں نے دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں لوٹ مار کی اور متعدد جائیدادوں کو نذرآتش کردیا۔ حد تو یہ رہی کہ دہلی کے گورنر نے متاثرہ مسلمانوں کے ساتھ ملاقات سے بھی انکار کیا۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی تھی‘ بلکہ بلوائیوں کیخلاف کارروائی نہ کرنے کے لیے پولیس پر بھی دباؤ ڈالا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بلوائی کھل کر مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں کرتے رہے۔ مسلمان خواتین بھی تشدد کا نشانہ بنتی رہیں ۔ اس بات کا لحاظ بھی نہ رکھا گیا کہ ان خواتین کے ساتھ شیرخوار بچے بھی ہیں۔ مسلمانوں سے اُن کے نام پوچھ کر اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ 
بلاشبہ امریکی صدر کی اپنے ملک میں موجودگی کے دوران ہی انتہاپسند بھارتیوں کی طرف سے اس صورتحال کا پیدا کردیا جانا‘ اُن کی فرسٹریشن کا اظہار تھا۔ یہ پاکستان کی تعریف پر ‘ بھارتیوں کا فوری ردعمل تھا۔ان حالات میں ایسے خدشات بھی پوری شدت سے موجود ہیں کہ انتہاپسند بھارتیوں کی طرف سے اپنی فرسٹریشن نکالنے کیلئے حالات مزید خراب کیے جائیں گے۔ یہ صورتحال اِس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ بھارت میں برسراقتدار ٹولے کی طرف سے صرف سیاسی مفادات حاصل کرنے کیلئے انتہاپسندی کو کس حد تک فروغ دیا جاچکا ۔بھارت کی طرف سے امریکی صدر کو خصوصی طور پر گجرات بھی لے جایا گیا تھا۔ اس سے بھی ایک خاص پیغام دینا مقصود تھا ۔یہ وہی ریاست ہے‘ جہاں فروری‘ مارچ 2002ء کے دوران مسلم کش فسادات میں 25سو سے 3ہزار تک مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا۔ یہ وہ سال ہے‘ جب گجرات میں موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی وزیراعلیٰ تھے۔ بعد میں ہر حوالے سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ فسادات کی آگ جان بوجھ کر بھڑکائی گئی تھی ۔ مقصد اس کا یہ رہا تھا کہ ہندؤ‘ مسلم کشیدگی کو ہوا دے کر ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنے کو یقینی بنایا جاسکے‘ پھر انہیں فسادات کی سیڑھی پر چڑھ کر نریندر مودی وزارت عظمی کے منصب پر پہنچے۔ان فسادات کی اعلیٰ سطحی تحقیقات بھی ہوئی ‘لیکن جب ''سیاں بھیئے کوتوال تو ڈر کس کا؟‘‘ کے مصداق سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہوجانے کے باوجود کسی کیخلاف کچھ بھی ثابت نہ کیا جاسکا ۔ اِن فسادات کے بعد کچھ عرصے کیلئے مودی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی بھی عائد رہی تھی۔ ظاہر ہے ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہمیشہ وقت کے تقاضوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔سو‘ جس مودی کی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی‘ وہی مودی ڈونلڈ کو لے کر گجرات پہنچے۔ پیغام دینا مقصود تھا کہ اب‘ امریکہ 2002ء کے مسلم کش فسادات کو بھول چکے ہیں۔
یہاں تک تو معاملہ ٹھیک رہا ‘لیکن یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ امریکی صدر کے دورے سے بھارت کو زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔کشمیر پر ثالثی کی بات بھارت کیلئے بڑا دھچکا رہی ۔ امریکی صدر کی طرف سے بھارتیوں کے ساتھ مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بات چیت نے بھارت کی موجودہ صورتحال پر امریکیوں کی تشویش کو ظاہر کیا۔ان تمام اُمور پر گفتگو کرنایقینا معمولی بات نہیں‘ کیونکہ یہ سب کچھ بھارتی توقعات کے یکسر خلاف ہورہا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑا تجارتی معاہدہ بھی نہیں ہوسکا۔ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ کی طرف سے پہلے ہی واضح کردیا گیا تھا کہ امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران کوئی بڑا کاروباری معاہدہ ہونے کے امکانات نہیں ۔دراصل کاروبای لحاظ سے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے کافی تحفظات ہیں۔ انہیں کے باعث امریکہ‘ بھارت کو دی جانے والی متعدد تجارتی مراعات ختم کرچکا۔حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک ایک دوسرے کیلئے تجارتی محصولات میں بھی اضافہ کرچکے ہیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ بھارت اُسے اپنی منڈیوں تک منصفانہ اور مساوی رسائی دے‘ لیکن بھارت اس کے بدلے میں اپنے لیے بھی مراعات چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کی کوشش تو رہی تھی کہ امریکی صدر کے دورہ سے پہلے پہلے تجارتی حوالے سے کوئی پیشرفت ہوجائے ‘لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اس دوران امریکہ‘ بھارت کو اپنا اسلحہ فروخت کرنے میں ضرورکامیاب ہوگیا ہے۔ 
بحیثیت ِمجموعی امریکی صدر کے دورہ بھارت کا جائزہ لیا جائے تو اتنا تو ہوا ہے کہ امریکی صدر بھارت کے دورے پر آئے ‘ مہمان کا شاندار استقبال بھی کیا گیا ‘لیکن بھارت کی سب سے بڑی خواہش پوری نہیں ہوسکی۔ بھارتیوں کی بھرپور کوشش رہی کہ کسی بھی طور ٹرمپ‘ پاکستان کیلئے چاہے چند ہی سہی‘ کچھ منفی جملے ضرور ادا کریں ۔ اس کوشش کی ناکامی پر بھارتی تادیر اپنے زخموں کو سہلاتے رہیں گے۔ وہ شاید اس حقیقت کو نظرانداز کرگئے تھے کہ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی ترجیح افغانستان سے اپنی فوجوں کو نکالنا ہے۔یہ الگ بات کہ اپنی خُو کے مطابق‘ اپنا مطلب نکل جانے کے بعد امریکہ‘ پاکستان سے اپنا رویہ بدل بھی سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں